مسلم لیگ ن کی اصل کنفیوژن کیا ہے؟ یہ سوال جب ایک انتہائی اہم بزرگ لیگی رہنما سے کیا تو وہ گرم کشمیری چادر سمیٹتے ہوئے صوفے پر نیم دراز سے ہو کر رہ گئے۔ قدرے نستعلیقی لہجے میں گویا ہوئے اور کہنے لگے کہ ’دیکھیے، سادہ اکثریت یا اتحادیوں کے ساتھ سرکار؟ اگر تو سادہ اکثریت دستیا ب ہوگئی تو پھر بڑے میاں صاحب چوتھی بار مسنند اقتدار سنبھالیں گے، بصورت دیگر چھوٹے میاں۔‘
تو پھر پنجاب کی کیا صورت ہوگی؟ وہ بولے کہ ’یہی صورتحال پنجاب میں بھی درپیش ہوگی۔ اگر مینڈیٹ توانا ہوا اور بڑے میاں وزیر اعظم بن گئے تو پھر چھوٹے میاں پنجاب کو ایک بار پھر سنبھالیں گے، اور دوسری صورت میں پھر مریم بی بی کی پنجاب کے لیے راہ ہموار کرنے کی کوشش ہوگی۔‘
قدرے توقف کے ساتھ وہ نہایت دھیمے میں لہجے میں استعجابیہ انداز میں بات ختم کرتے ہوئے بولے کہ ’دیکھیے، باپ بیٹی دونوں بیک وقت تو وفاق اور پنجاب میں براجمان نہیں ہوسکتے ناں۔‘
مزید پڑھیں
-
’نواز شریف لاڈلے رہے، ن لیگ کے ساتھ حکومت نہیں بنائیں گے‘Node ID: 831941
-
سائفر کیس، عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو 10، 10 سال قیدNode ID: 832111
یہ گفتگو چند ہفتے پہلے کی تھی۔ البتہ جب حافظ آباد کے جلسے میں میاں صاحب نے مریم بی بی کو بطور رہنما پیش کرتے ہوئے اپنی تقریر مختصر رکھی اور آخری تقریر ان کی رکھی تو بحثیت صحافی ادراک ہوا کہ بزرگ رہنما کی بات میں وزن تھا۔ یہی سلسلہ پھر ہمیں مانسہرہ میں جب دیکھنے کو ملا تو یقین ہوگیا کہ بات میں دم تھا۔
ہمارے دوست منیب فاروق نے جب شہباز شریف کے ساتھ اپنے حالیہ انٹرویو میں متعدد بار یہی سوال کیا تو ان کے رد عمل نے بھی ہماری جانکاری پر مہر ثبت کر دی۔ قارئین جانتے ہیں کہ شہباز شریف کے حوالے سے خاکسار نے نومبر دسمبر میں یہ خبر بریک کی تھی کہ وہ ایک بار پھر پنجاب کے محاذ پر سرگرم ہو رہے ہیں، اس سلسلے میں انہوں نے پرانے معتمد ساتھیوں کے ساتھ ایک دو نشستیں برپا کیں اور پنجاب میں تیار رہنے کا کہا۔
لیکن اچانک وہ اس محاذ سے ہٹ گئے اور پھر ہمیں ملے لیگی بزرگ رہنما جنہوں نے دل کا حال بیان کرنے کی صورت میں ہمارے سوالات کو جانکاری سے مزین کر دیا۔
یہ سب کیسے ہوگا؟ کیا ن لیگ واقعی اس پوزیشن میں ہوگی کہ من چاہی بساط بچھا لے؟ ابھی ان سوالوں کے جواب ہی ڈھونڈ رہے تھے کہ اسلام آباد میں برپا رات گئے کی ایک مجلس میں ایک انتہائی واقف حال شخصیت سے ملاقات ہوگئی۔ وہ نیا شوشہ لیے بیٹھے تھے۔ ہمارا مدعا تحریک انصاف اور ن لیگ کی من چاہی پوزیشن کے ممکنات تھے۔ لیکن وہ بولے کہ ایک نیا مدعا کھڑا ہوچکا ہے۔
مدعا وزیر خزانہ کا ہے۔ اسحاق ڈار لیگی قیادت کے پسندیدہ ہیں اور رہیں گے۔ البتہ ایک نئی سوچ طاقت ور حلقوں میں جنم لی چکی ہے جس کے مطابق ڈار صاحب کو کسی طرح سینیٹ میں ذمہ داری دیتے ہوئے خزانہ کے امور ایک نئی شخصیت کو سونپے جانے کی سوچ شدت اختیار کر رہی ہے۔
مزید گھوڑے دوڑائے تو معلوم ہوا کہ آپشنز میں سنجیدگی سے جہانگیر ترین بھی اہم ہوچکے ہیں۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ نہ صرف مقتدرہ بلکہ تاجر کمیونٹی اور صنعتکار بھی اس انتخاب پر بیعت کرنے کوتیار ہیں۔ ترین صاحب کے ایک انتہائی قریبی معتمد سے باتوں باتوں میں جب اس جانکاری پر چرچا ہوئی تو وہ کہنے لگے کہ آپ کا اس سلسلے میں صحافتی ایکسپریشن کہیں گیم نہ خرا ب کر دے۔
