Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈیا میں رواداری اور ہم آہنگی کی کوششیں کیسے کامیاب ہوں گی؟

سپریم کورٹ نے مندر کے ساتھ مسجد کی تعمیر کا بھی حکم دیا تھا( فوٹو: اے ایف پی)
انڈیا میں مختلف مکتبہ فکر کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ’آنے والے برسوں میں ملک میں رواداری اور برداشت کو فروغ دینے کے متعدد منصوبوں پر کام ہو رہا ہے اور حکومت سرکاری اور سماجی تنظیموں کی حکمت عملی کے ذریعے مستقبل میں مثبت رویوں اور باہمی رشتوں کو توانا بنانے پر کام کر رہی ہے۔‘
 
جماعت علمائے ہند کے مرکزی رہنما مولانا صہیب قاسمی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’حکومت ایسے اقدامات کو فروغ دے رہی ہے جن سے تمام برادریوں کو یکساں فائدہ پہنچے گا۔‘ 
جبکہ انڈیا کی سیاست اور سماجی معاملات کے ماہر ڈاکٹر امیت رانجن کے مطابق ’لوگ بی جے پی کو ووٹ دیتے ہیں اور معاشرے میں ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی سارے مل جل کر رہتے ہیں، ایک ساتھ کام کرتے ہیں۔ وہ اپنی زندگیوں میں ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں۔ گزرتے وقت اور ترقی کے ساتھ معاشرے کے اندر ایک دوسرے پر یہ انحصار بڑھے گا۔‘
دونوں رہنماؤں کی گفتگو اس بات کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ انڈیا میں بقائے باہمی کے اصولوں کی پاسداری اور مخلف مذاہب کے افراد کے ایک دوسرے کے ساتھ معاشرتی روابط استوار رکھنے کے لیے نہ کوششیں ہو رہی ہیں۔ یہ کوششیں نہ صرف سرکاری سطح پر جاری ہیں بلکہ کمیونٹی رہنماؤں اور سماجی شخصیات کو بھی رواداری کے فروغ کے لیے سامنے لایا جا رہا ہے۔
آنے والے دنوں میں مکالمے کی اہمیت پر زور دیا جائے گا
دونوں رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ’اس سلسلے میں مکالمے کی بہت اہمیت ہے اور آنے والے دنوں میں اس پر خصوصی زور دیا جائے گا۔‘
مولانا صہیب قاسمی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’انڈیا کی منسٹری آف ہوم نے اس سلسلے میں ایک شعبہ قائم کیا ہے جو ملک کی تمام برادریوں کے درمیان ہم آہنگی کے لیے کام کر رہا ہے اور اس سلسلے میں کروڑوں روپے کا بجٹ مختص کیا گیا ہے۔‘
صہیب قاسمی کے مطابق ’سال 2023 میں تمام برادریوں اور مذاہب میں ہم آہنگی کے لیے ایک ہزار کے قریب خصوصی پروگرام منعقد کیے گیے اور سال 2024 میں اس منصوبے کو مزید وسعت دی جا رہی ہے۔‘
 
انہوں نے کہا کہ ’مختلف برداریوں کے لیے ترقیاتی منصوبوں کے علاوہ ان میں رواداری اور امن کو فروغ دینے کے لیے ایک دوسرے کی عبادت گاہوں میں مدعو کیا جا رہا ہے۔‘

سکھوں کے گوردواروں میں بھی متعدد تقاریب منعقد کی گئی ہیں (فائل فوٹو: عرب نیوز)

انہوں نے بتایا کہ ’سکھوں کے گوردواروں میں بھی متعدد تقاریب منعقد کی گئی ہیں جہاں تقاریر کے لیے مسلمانوں اور دوسرے مذاہب کے لوگوں کو مدعو کیا جاتا ہے اسی طرح عیسائیوں کے ساتھ بھی سب کے تعلقات بڑھ رہے ہیں۔‘ 
 
’مسلمانوں نے پہلی مرتبہ غیر مسلموں کے روزے یعنی بھرت کھلوانے کا انتظام کیا جس میں ان لوگوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔‘ 
 
ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے متعلق بات کرتے ہوئے صہیب اختر قاسمی نے کہا’ اس کا فیصلہ سپریم کورٹ نے کیا تھا جس نے مندر کے ساتھ مسجد کی تعمیر کا بھی حکم دیا تھا اور سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر مسجد کی تعمیر بھی جاری ہے۔ ‘
رام مندر کے مقدمے کا فیصلہ سب نے تسلیم کیا؟
 
مولانا صہیب قاسمی نے کہا ’رام مندر کے مقدمے کا فیصلہ سب نے تسلیم کیا ہے، اب تمام برادریوں کو جوڑنے کے لیے مزید پیشرفت ہو گی۔‘ 
جمیعت علمائے ہند کے مرکزی رہنما نے بتایا کہ ’انڈیا میں ایسے کاروبار اور صنعتیں ہیں جن میں مسلمانوں سمیت تمام برادریوں کی یکساں عملداری ہے۔‘ 
انڈیا کی سیاست اور سماجی معاملات کے ماہر ڈاکٹر امیت رانجن کے مطابق ’انڈین سپریم کورٹ کا ایودھیا میں رام مندر اور مسجد تعمیر کرنے کا حکم معاشرے میں توزان بڑھانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔‘
انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’بی جے پی نے گزشتہ کچھ برسوں میں جو اقدام اٹھائے ہیں وہ اس کے منشور میں تھے اور انڈیا کے لوگوں کو پتہ تھا کہ ایسا ہونا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان اقدمات کے خلاف مقامی طور پر کوئی بڑی مزاحمت نہیں ہوئی۔‘ 
ان کے خیال میں سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی عوامی سطح پر تسلیم کیا گیا ہے اور اگر مندر کے بعد مسجد کی تعمیر بھی جلد مکمل ہو جاتی ہے تو اس سے معاشرے میں توازن بڑھے گا۔ 
امیت رانجن کے بقول ’انڈیا میں مختلف مذاہب کے لوگ صدیوں سے اکٹھے رہ رہے ہیں اور ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں اور ان کے مابین تعلقات اس بات پر منحصر نہیں ہوتے کہ حکومت یا ریاست کیا کر رہی ہے۔‘ 
انڈیا میں مسلمان اور عیسائی صدر بھی رہے ہیں
انہوں نے کہا کہ ’انڈیا کے مسلمان اور عیسائی صدر رہے ہیں۔ اسی طرح کرکٹ ٹیم، دوسرے کھیلوں اور بالی ووڈ میں بھی بڑی تعداد میں مسلمان ہیں جیسے کہ شاہ رخ خان، سلمان خان اور کئی دوسرے بڑے نام ہیں۔‘ 
’اسی طرح سکھ بھی معاشرے کا ایک اہم حصہ ہیں اور ایک بہت بڑی کمیونٹی ہیں جن کے ساتھ سماج کے اندر ہندووں کی قریبی ہم آہنگی ہے۔‘ 

گزرتے وقت کے ساتھ معاشرے کے اندر ایک دوسرے پر یہ انحصار بڑھے گا (فائل فوٹو)

ڈاکٹر امیت رنجن نے کہا کہ’ لوگ بی جے پی کو ووٹ دیتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہر کوئی ہر جگہ فسادات چاہ رہا ہوتا ہے بلکہ معاشرے میں ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی سارے مل جل کر رہتے ہیں، ایک ساتھ کام کرتے ہیں اور وہ اپنی زندگیوں میں ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں۔‘ 
 
’گزرتے وقت اور ترقی کے ساتھ معاشرے کے اندر ایک دوسرے پر یہ انحصار بڑھے گا۔‘ 
 
’انڈین معاشرے نے آزادی کے بعد گزشتہ پچھتر سالوں میں بلوغت حاصل کی ہے اور مختلف برادریوں کے لوگوں نے تلخیوں کے باوجود ایک دوسرے کے ساتھ رہنا سیکھا ہے۔‘

شیئر: