Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خیبر پختونخوا: سردی میں انتخابی مہم گرمانے کے لیے پشتو اور چترالی ترانے

ترانوں کی مدد سے امیدوار ووٹرز تک آسانی سے رسائی حاصل کرتے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا میں جاری انتخابی مہم میں مختلف سیاسی جماعتیں پشتو اور چترالی سمیت دیگر مقامی زبانوں میں نئے نغموں کا بھرپور استعمال کر رہی ہیں۔
انتخابی مہم کے دوران یہ سیاسی ترانے جلسوں اور کارنر میٹنگز میں چلائے جا رہے ہیں اور سوشل میڈیا پر بھی انہیں سیاسی جماعتیں اور ان کے کارکن اپنے شیئر کرتے ہیں۔
بعض سیاسی نغموں کو زیادہ مقبولیت مل جاتی ہے جس کے بعد صارفین انہیں شارٹ ویڈیوز کے پس منظر میں چلانا شروع کر دیتے ہیں، یوں شہری و دیہی علاقوں میں مقبول ٹِک ٹاک جیسے پلیٹ فارم پر بھی مہم آگے بڑھنے لگتی ہے۔
اس مرتبہ عام انتخابات کے لیے خیبرپختونخوا میں ووٹرز کی توجہ حاصل کرنے کے لیے پشتو کے علاوہ کھوار زبان میں بھی سیاسی ترانے بنائے گئے ہیں۔

نغمے کس کس امیدوار کے لیے بنے؟ 

ضلع چترال کے شدید سرد موسم میں بعض امیدواروں کی انتخابی مہم کو گرمانے کے لیے مقامی زبان کھوار (چترالی) میں ترانے بنائے گئے ہیں۔
ان امیدواروں میں قومی اسمبلی این اے ون کے امیدوار شہزادہ افتخار الدین کے لیے دو نغمے تیار کیے گئے ہیں جبکہ پی کے دو کے امیدوار شہزادہ خالد پرویز کے مداح نے بھی چترالی زبان میں ترانہ تیار کیا ہے۔
چترال پی کے ون سے پاکستان تحریک انصاف کی آزاد امیدوار ثریا بی بی کی الیکشن مہم کے لیے خصوصی نغمہ تیار کیا گیا ہے جبکہ این اے ون سے جمعیت علماء اسلام کے امیدوار طلحہ محمود کے لیے ترانہ بھی بنایا گیا ہے۔

کامران بنگش کی انتخابی مہم کے لیے بھی نیا سیاسی نغمہ ریلیز کیا گیا ہے (فائل فوٹو: سکرین گریب)

پشتو زبان میں سیاسی ترانے

پشتو زبان میں استحکام پاکستان پارٹی کے رہنما پرویز خٹک کے لیے پارٹی کا گانا بنایا گیا ہے جس میں پارٹی منشور کے ساتھ ساتھ پرویز خٹک کی کارکردگی کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔
ان ترانوں میں روایتی رباب کا میوزک اور پشتو بیٹس بھی استعمال ہوئی ہیں۔
پشاور کی صوبائی نشست کے لیے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار کامران بنگش کی انتخابی مہم کے لیے بھی سیاسی نغمہ ریلیز کیا گیا ہے جو کارنر میٹنگز اور جلسوں میں مقبول ہے۔ کامران بنگش کے لیے تیار نغموں میں ان کی گرفتاری اور پارٹی کے لیے قربانیوں کا ذکر بھی ہے۔
عوامی نیشنل پارٹی، جمعیت علماء اسلام اور جماعت اسلامی کے علاوہ کچھ آزاد امیدواروں کے لیے سیاسی ترانے بنائے گئے ہیں جو جلسوں کے علاوہ سوشل میڈیا پر بھی الیکشن کیمپین کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔ 

سیاسی ترانے کیا کردار ادا کرتے ہیں؟ 

انتخابی مہم کے لیے جس طرح نعرہ اہم ہوتا ہے، اسی طرح سیاسی ترانے بھی امیدواروں کی انتخابی تشہیر کی ضرورت بن چکے ہیں۔
ان ترانوں کی وجہ سے امیدوار ووٹرز تک آسانی سے رسائی حاصل کر لیتے ہیں۔ اس مرتبہ بھی سیاسی نغموں میں امیدواروں کے منشور کے نمایاں پہلوؤں کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔

این اے ون کے امیدوار شہزادہ افتخار الدین کے لیے دو نغمے تیار کیے گئے ہیں (فائل فوٹو: شہزادہ افتخار، فیس بک)

سیاسی نغموں میں جہاں پارٹی کا مشن مخصوص انداز میں عوام تک پہنچایا جاتا ہے، وہیں ان میں بعض اوقات حریف امیدوار پر تنقید بھی کی جاتی ہے۔
ایسا بھی ہوتا ہے کہ زیادہ مقبول ہو جانے والے سیاسی ترانوں کی وجہ سے ووٹرز پارٹیوں کی جانب مائل ہو جاتے ہیں۔
 اس کی واضح مثال سنہ 2018 کے عام انتخابات ہیں جس میں پی ٹی آئی کے پارٹی نغموں کو کافی مقبولیت ملی اور وہ اس کے ووٹ بینک میں اضافے کی وجہ بھی بنے۔

شیئر: