Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

غزہ میں جنگ کے باعث 17 ہزار بچے اپنے والدین سے جُدا ہوئے، یونیسف

یونیسف کے مطابق جنگ سے غزہ کے بچوں کی ذہنی صحت شدید متاثر ہو رہی ہے۔ (فوٹو: روئٹرز)
اقوام متحدہ کے ایک محتاط تخمینے کے مطابق غزہ کی پٹی میں جنگ کی وجہ سے کم از کم 17 ہزار بچے تقریباً چار ماہ سے لاوارث یا اپنے والدین جُدا ہو گئے ہیں۔
فلسطینی علاقوں میں اقوام متحدہ کے بچوں کے ادارے یونیسیف کے ترجمان جوناتھن کِرکس کا کہنا ہے کہ ’ہر بچے کے پاس کسی اپنے کو کھونے اور اور غم کی دل دہلا دینے والی کہانی ہے۔‘
انہوں نے یروشلم سے ویڈیو لنک کے ذریعے جینیوا میں ایک میڈیا بریفنگ میں بتایا کہ ’یہ تعداد مجموعی طور پر بے گھر ہونے والی آبادی کے ایک فیصد کے برابر ہے۔‘
جوناتھن کِرکس نے کہا کہ بچوں کے بارے میں معلوم کرنا ’انتہائی مشکل‘ کام ثابت ہو رہا ہے کیونکہ بعض اوقات انہیں ہسپتال لایا جاتا ہے جہاں وہ زخمی یا صدمے کی حالت میں ہوتے ہیں، اور وہ اپنے نام تک نہیں بتا سکتے۔
انہوں نے کہا کہ تنازعات کے دوران رشتہ داروں کے لیے لاوارث بچوں کی دیکھ بھال کرنا عام بات تھی۔
تاہم غزہ میں خوراک، پانی یا پناہ کی کمی کی وجہ سے رشتہ دار خود پریشان ہیں اور انہیں فوری طور پر دوسرے بچے کی دیکھ بھال کرنے کے لیے چیلنجز کا سامنا ہے کیونکہ وہ خود اپنے بچوں اور خاندان کی دیکھ بھال کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔‘
یونیسیف کی اصطلاح میں جُدا ہونے والے بچے وہ ہوتے ہیں جن کے پاس والدین نہیں ہوتے یا دیگر رشتہ داروں کے بغیر ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جنگ سے غزہ کے بچوں کی ذہنی صحت شدید متاثر ہو رہی ہے۔
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ان بچوں کو مسلسل بے چینی، بھوک کی کمی اور سونے میں مشکل پیش آ رہی ہے اور جب بھی وہ بم دھماکوں کی آواز سنتے ہیں تو وہ چیختے ہیں یا ان پر گھبراہٹ طاری ہو جاتی ہے۔
تنازع شروع ہونے سے قبل یونیسیف نے اندازہ لگایا تھا کہ غزہ کی پٹی میں پانچ لاکھ سے زیادہ بچوں کو ذہنی صحت اور نفسیاتی علاج کی ضرورت ہے۔
جوناتھن کِرکس نے کہا کہ اب یونیسف کے خیال میں تقریباً تمام بچوں کو اس طرح کی مدد کی ضرورت ہے۔ جن کی تعداد دس لاکھ سے زیادہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ بچوں کا اس تنازع سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اس کے باوجود وہ ایسے مصائب کا شکار ہیں جسے کسی بھی بچے کو کبھی بھی سامنا نہیں کرنا چاہیے۔
انہوں نے جنگ بندی کا مطالبہ کیا تاکہ یونیسیف ایسے بچوں کی صحیح گنتی کر سکے جن کے پاس کوئی اپنا نہیں یا وہ جدا ہوئے ہیں، ان کے رشتہ داروں کا پتہ لگا سکے اور ان کو ذہنی صحت کی مدد فراہم کر سکے۔

شیئر: