Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

الیکشن 2024: قومی اسمبلی کے سرکاری نتائج آنے کا سلسلہ جاری

بلاول بھٹو نے ایک ٹویٹ میں کہا ’انتخابی نتائج کے آنے کی رفتار انتہائی سست ہے۔‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
الیکشن کمیشن نے 11 گھنٹے کی تاخیر سے صبح چار بجے قومی اسمبلی کے پہلے سرکاری نتیجے کا اعلان کیا جس کے مطابق بلوچستان نیشنل پارٹی کے اختر مینگل نے حلقہ این اے 261 سے 3404 ووٹ لے کر پہلی، جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمینٹیڑینز کے ثناللہ زہری نے 2871 ووٹ کے کر دوسری پوزیشن حاصل کی ہے۔
ان کے علاوہ پی ٹی آئی کی حمایت یافتہ شاندانہ گلزار نے پشاور کے حلقہ این اے 30 سے 78971 ووٹ لے کر پہلے، جبکہ عوامی نیشنل پارٹی کے زین عمر ارباب نے 11854 ووٹ کے کر دوسرے نمبر پر رہے۔
این اے 17 ایبٹ آباد سے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ علی خان جدون نے 97,177 ووٹ کے کر فاتح قرار پائے اور مسلم لیگ ن کے محبت خان نے 44,522 ووٹ لیے۔
این اے 58 چکوال سے مسلم لیگ ن کے طاہر اقبال ایک لاکھ 15 ہزار 974 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے، جبکہ آزاد امیدوار ایاز امیر ایک لاکھ دو ہزار 537 ووٹ کے دوسرے نمبر پر رہے۔
این اے 55 راولپنڈی سے ن لیگ کے ابرار احمد 78 ہزار 542 لے کر جیتے اور آزاد امیدوار راجہ بشارت نے 67 ہزار 101 لے کر دوسری پوزیشن حاصل کی۔
اس سے قبل الیکشن کمیشن کی جانب سے پولنگ ختم ہونے کے 10 گھنٹے بعد دو صوبائی حلقوں کے نتائج کا اعلان کیا گیا ہے۔
الیکشن کمیشن کے سپیشل سیکریٹری ظفر اقبال ملک نے میڈیا کو بتایا کہ خیبرپختونخوا کے صوبائی حلقہ پی کے 6 سوات سے آزاد امیدوار فضل حکیم جیتے ہیں جنہوں نے 25,303 ووٹ حاصل کیے ہیں۔ اسی طرح پی کے 75 سے بھی آزاد امیدوار سمیع اللہ خان 18,888 ووٹ حاصل کیے ہیں۔
جمعرات کو قومی اسمبلی  اور صوبائی اسمبلیوں 855 حلقوں میں ہونے والے عام انتخابات کے پولنگ صبح آٹھ بجے سے شام پانچ بجے تک بغیر کسی وقفے کے جاری رہی۔ اکا دکا واقعات کے علاوہ پولنگ مجموعی طور پر پرامن رہی اور کوئی بڑا ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔

عام انتخابات کے پولنگ صبح آٹھ بجے سے شام پانچ بجے تک بغیر کسی وقفے کے جاری رہی(فائل فوٹو: اے ایف پی)

تاہم بلوچستان میں دہشت گردی کے کچھ واقعات پیش آئے۔ کچھ پولنگ سٹیشنز کے قریب 20 سے زائد بم دھماکے اور راکٹ حملے ہوئے جبکہ لڑائی جھگڑوں کے واقعات بھی ہوئے، جن میں چار افراد ہلاک اور 30 سے زائد زخمی ہوئے۔
پولنگ کے عمل کے دوران الیکشن کمیشن کو درجنوں شکایات موصول ہوئیں لیکن چیف الیکشن کمشنر کے مطابق یہ تمام شکایات معمولی نوعیت کی تھیں جنھیں جتنی جلدی ممکن ہو سکا، حل کر دیا گیا۔
پانچ بجے پولنگ کا عمل مکمل ہوا اور کچھ سیاسی جماعتوں کی جانب سے مطالبے کے باوجود وقت نہیں بڑھایا گیا جس کے بعد ووٹوں کی گنتی کا عمل شروع ہوا۔
موبائل سروس اور انٹرنیٹ کی بندش
قبل ازیں جمعرات آٹھ فروری کی صبح پولنگ کا عمل شروع ہوا تو ملک بھر میں موبائل اور انٹرنیٹ سروس بند کر دی گئی جس سے نہ صرف ووٹرز کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا بلکہ پولنگ عملہ بھی اس مشکل سے دوچار ہوا۔
اس حوالے سے وزارت داخلہ میں اپنے ایک بیان میں کہا کہ ’امن و امان قائم رکھنے کے لیے ملک بھر میں موبائل فون سروس کو عارضی طور پر بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔‘ تاہم اس بیان میں یہ نہیں بتایا گیا کہ موبائل فون کی سروس کو بحال کب کیا جائے گا۔

موبائل سروس بند ہونے سے الیکشن کمیشن ووٹرز کے لیے ایس ایم سروس 8300 بھی بند ہوگئی (فائل فوٹو: پکسابے)

اس معاملے پر جب چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا سے سوال ہوا تو ان کا کہنا تھا کہ ’الیکشن کمیشن کا تمام انتخابی نظام انٹرنیٹ سے الگ ہے۔ میں موبائل سروس کھولنے کا نہیں کہہ سکتا کیونکہ اگر دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہوگیا تو اس کا ذمہ دار کون ہو گا؟‘
موبائل سروس بند ہونے سے الیکشن کمیشن ووٹرز کے لیے ایس ایم سروس 8300 بھی بند ہوگئی جس سے ان کو اپنا پولنگ سٹیشن تلاش کرنے میں مدد مل سکتی تھی۔
انٹرنیٹ بند ہونے کے بعد تحریک انصاف نے جہاں اس پر احتجاج کیا وہیں عوام کو اس کا حل پیش کرتے ہوئے وائی فائی رکھنے والے افراد کو تعاون کی اپیل کی۔

موبائل فون کی بندش پر سیاسی جماعتوں کا ردعمل

آفیشل ایکس اکاؤنٹ پر پی ٹی آئی نے لکھا کہ ’حکومت نے پولنگ کے دن پورے پاکستان میں موبائل فون سروس بند کر دی ہے۔ آپ سب سے گزارش ہے کہ اپنے ذاتی وائی فائی اکاؤنٹس سے پاس ورڈز ہٹا کر اس حرکت کا مقابلہ کریں، تاکہ اس انتہائی اہم دن پر آس پاس کا کوئی بھی شخص انٹرنیٹ تک رسائی حاصل کر سکے۔
موبائل سروسز بند ہونے کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے مطالبہ کیا ہے کہ ملک بھر میں فوری طور پر موبائل فون سروس بحال کی جائے۔
انہوں نے ایکس پر لکھا کہ ’میں نے اپنی پارٹی سے کہا ہے کہ اس کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان اور عدالتوں سے رجوع کیا جائے۔
بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے ہدایت کے بعد پیپلز پارٹی کے مرکز سیکریٹریٹ کی جانب سے الیکشن کمیشن میں ایک درخواست بھی دائر کی گئی جس میں مطالبہ کیا گیا کہ موبائل سروسز بحال کی جائیں۔
جماعت اسلامی نے موبائل فون سروس بند کرنے کو گہری سازش قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’موبائل سروس بند کرنے کی وجہ سے دھاندلی کرنا انتہائی آسان ہوگا۔ ابھی تک عملہ مکمل طور پر پولنگ سٹیشنوں تک نہیں پہنچا اب تو رابطہ بھی ممکن نہیں۔ فوری طور پر نیٹ اور موبائل سروس بحال کروائیں ورنہ شفافیت کا مکمل جنازہ نکل جائے گا۔الیکشن کمیشن نوٹس لے کر سروس بحال کروائے۔‘
مسلم لیگ ن کے خواجہ سعد رفیق نے بھی موبائل فون سروس کی بندش پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس سے ووٹرز کو پریشانی کا سامنا ہے۔
اسلام آباد کے دو حلقوں سے قومی اسمبلی کے لیے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے والے مصطفیٰ نواز کھوکھر نے ایک بیان میں کہا کہ ’ملک بھر میں موبائل فون بند کرنا، دھاندلی کی ابتدا ہے۔ امیدواروں کا اپنے ایجنٹس اور انتخابی مشینری سے رابطہ کاٹنا سراسر زیادتی ہے۔
انہوں نے سوشل میڈیا سائٹ ایکس پر لکھا کہ ’کچھ عرصے سے پولیس گردی کا بھی سامنا ہے۔ جب کہیں سے اطلاع آئے گی دیر ہو چکی ہو گی۔ دھونس اور دھاندلی کے الیکشن نامنظور۔
موبائل فون سروس بندش کے حوالے سے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کامن ویلتھ کے مبصر گروپ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ عام انتخابات کے پولنگ عمل سے مطمئن ہیں، انٹرنیٹ دریافت ہونے سے قبل ہم الیکشن کرا رہے تھے، انٹرنیٹ سے زیادہ اہم ووٹ ڈالنا ہے۔
سربراہ کامن ویلتھ مبصر گروپ نے مزید کہا کہ ووٹنگ عمل میں انٹرنیٹ کی ضرورت نہیں البتہ نتائج بھیجتے وقت انٹرنیٹ کی بندش سے مسئلہ ہو گا۔
تاہم رات گئے ملک کے مختلف علاقوں میں بتدریج جزوی طور پر موبائل سروس کی بحالی شروع کر دی گئی۔

شیئر: