پاکستان پیپلز پارٹی نے حکومتی اتحاد میں شامل ہوئے بغیر وزیراعظم کے عہدے کے لیے پاکستان مسلم لیگ ن کی حمایت کرنے کا اعلان کیا ہے جبکہ دیگر معاملات میں ہر مسئلے پر حکومت کے ساتھ پارٹی منشور کی روشنی میں تعاون یا مخالفت کا فیصلہ کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں پیپلز پارٹی کی خصوصی کمیٹی مسلم لیگ ن اور دیگر سیاسی جماعتوں سے روابط رکھے گی۔
اس کا باضابطہ اعلان مرکزی مجلس عاملہ کے دو روز جاری رہنے والے اجلاس کے بعد پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگاتے ہوئے ایک بار پھر ملک کو سیاسی عدم استحکام سے نکالنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس وقت کوئی بھی جماعت تنہا حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہے لیکن ہماری جماعت نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم وزارت عظمی کا امیدوار بھی نہیں لائیں گے اور مسلم لیگ ن کے ساتھ حکومت میں وزارتیں بھی نہیں لیں گے۔
مزید پڑھیں
انہوں نے کہا کہ پارٹی پالیسی کے مطابق آئینی عہدوں پر ہم اپنے امیدوار کھڑے کریں گے۔
پیپلز پارٹی کے اس فیصلے سے متعلق تجزیہ کار ضیغم خان نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی نے اج اعلان نہیں بلکہ اپنا موقف دیا ہے۔
’لیکن یہ طے ہے کہ پیپلز پارٹی مسلم لیگ ن کے ساتھ اتحاد میں شامل ہوگی اور اس معاملے پر دونوں جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے ہو چکا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی نے اپنی مرکزی مجلس عاملہ کو ان فیصلوں کے بارے میں اگاہ کر دیا ہے تاہم پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنے طریقے سے اور اپنے الفاظ میں واشگاف اعلان کی بجائے دوسرا انداز اپناتے ہوئے پریس کانفرنس کی ہے۔
ضیغم خان کے مطابق پیپلز پارٹی نہ صرف مسلم لیگ ن کے وزارت عظمی کے امیدوار کو ووٹ دے گی بلکہ کابینہ کا حصہ بھی ہوگی اور اس کے ساتھ ساتھ آئینی عہدوں پر اتفاق رائے سے امیدوار بنے گی۔
’یہ کیسے ممکن ہے کہ پیپلز پارٹی وزارت عظمی کے لیے تو مسلم لیگ نون کو ووٹ دے لیکن آئینی عہدوں بالخصوص سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے لیے اپنا امیدوار لائے تو ایسی صورت میں تحریک انصاف کے پاس نمبر زیادہ ہوں گے اور وہ یہ عہدہ حاصل کرنے میں آسانی سے کامیاب ہو جائے گی اس لیے یہ بات تسلیم کرنا ممکن نہیں لگ رہا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن الگ الگ موقف رکھیں گے یا الگ الگ چلیں گے۔‘
![](/sites/default/files/pictures/February/36511/2024/screenshot_2024-02-12_192625.png)
بلاول بھٹو زرداری نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا کہ اگر وہ اپنا سوچتے تو وہ خان اور نواز شریف کو یہ کہتے کہ آپ جانے اور اپ کا کام جانے اور آپ اپنی حکومت بنائیں۔ ’ہم یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ آپ ہمیں وزارت عظمی کا عہدہ دیں بصورت دیگر ہم کسی کا ساتھ نہیں دیں گے اور ملک میں حکومت نہ بنتی اور ایک بار پھر انتشار پیدا ہوتا۔‘
اس حوالے سے سیاسی تجزیہ کار رسول بخش رئیس کا کہنا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کی پریس کانفرنس سے ایک بات واضح ہوتی ہے کہ دونوں سیاسی جماعتوں کے درمیان کم از کم پاور شیئرنگ فارمولے پر اتفاق ہو چکا ہے۔
’جس کے مطابق وزیراعظم کا تعلق مسلم لیگ ن سپیکر یا چئیرمین سینیٹ کا تعلق پیپلز پارٹی اور اسی طرح صدر پیپلز پارٹی سے ہوگا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ملفوف قسم کا اعلان کر کے پیپلز پارٹی نے اپنا وزن بڑھانے کی کوشش کی ہے تاکہ مسلم لیگ ن آئے اور ان سے بات کرے اور ان کی منت ترلہ کرے تاکہ وزارتوں میں زیادہ سے زیادہ شیئر حاصل کیا جا سکے۔
سیاسی امور کی ماہر ڈاکٹر آمنہ محمود کا کہنا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری نے دراصل ن لیگ کو یہ پیغام دیا ہے کہ آپ کو مزید آزاد امیدواروں سے رابطے کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ’بلکہ پیپلز پارٹی مسلم لیگ ن کو حکومت سازی میں بھرپور حمایت دے گی۔ ‘
![](/sites/default/files/pictures/February/36511/2024/screenshot_2024-02-13_185140.png)