Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

الیکشن کمیشن کے دو سابق سربراہ احتجاج پر کیوں مجبور ہوئے؟

انتخابات میں ہارنے والی جماعتوں کی طرف سے بےضابطگیوں کے الزامات دنیا بھر میں انتخابی عمل کا حصہ ہیں (فائل فوٹو: روئٹرز)
پاکستان میں عام انتخابات کے بعد دھاندلی کے الزامات کے ماحول میں راولپنڈی ڈویژن کے کمشنر کے الزامات بھرے انکشافات نے نئی بحث چھیڑ دی ہے۔
لیاقت علی چٹھہ نے راولپنڈی ڈویژن میں انتخابی نتائج میں تبدیلی کے بارے میں بغیر کسی ثبوت کے چیف جسٹس سپریم کورٹ اور چیف الیکشن کمشنر کا نام بھی لیا تھا۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے ان الزامات کی تردید کی ہے جبکہ الیکشن کمیشن نے حقائق معلوم کرنے کے لیے چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں تین رکنی کمیٹی قائم کی ہے۔
سرکاری اہلکاروں پر ریاستی طاقت کے ذریعے انتخابات کے نتائج پر اثرانداز ہونے کے الزامات ہر الیکشن کے بعد سننے کو ملتے ہیں۔
انتخابات میں ہارنے والی جماعتوں کی طرف سے بے ضابطگیوں کے الزامات دنیا بھر میں انتخابی عمل کا حصہ ہیں۔
مگر پاکستان میں دو الیکشن ایسے بھی ہوئے ہیں جن میں سیاسی جماعتوں نے تو دھاندلی کا شور اٹھایا ہی تھا مگر خود چیف الیکشن کمشنر کو بھی انتخابی عمل پر تحفظات اور شکایات تھیں۔
وہ چیف الیکشن کمشنر کون تھے؟ اس کی تفصیلات سے قبل ماضی قریب میں لیاقت علی چٹھہ کے اعترافات سے ملتے جلتے واقعے کے انجام کے بارے میں جان لیتے ہیں۔
الیکشن کمیشن کے سابق اہلکار کی معافی
24 اگست 2014 کو ایک ٹیلی وژن انٹرویو میں الیکشن کمیشن کے سابق ایڈیشنل سیکریٹری محمد افضل خان نے 2013 کے الیکشن میں دھاندلی میں کمیشن کے ملوث ہونے کا الزام لگایا۔
کمشنر راولپنڈی کے برعکس انہوں نے انتخابات کے سوا برس بعد الیکشن کمیشن کے ایک رکن اور اعلٰی عدالتی شخصیات کو دھاندلی کا ذمہ دار قرار دیا۔ البتہ اس وقت وہ ملازمت سے ریٹائر ہو چکے تھے۔
انہوں نے الیکشن کمیشن کے اس وقت کے رکن جسٹس (ریٹائرڈ) ریاض کیانی اور سپریم کورٹ کے دو سابق چیف جسٹس صاحبان افتخار محمد چوہدری اور تصدق حسین جیلانی کو مورد الزام ٹھہرایا۔ اس دور کے چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم کے بارے میں کہا کہ انہوں نے دھاندلی پر آنکھیں بند کر رکھی تھی۔

سابق ایڈیشنل سیکریٹری محمد افضل خان نے 2013 کے الیکشن میں دھاندلی میں کمیشن کے ملوث ہونے کا الزام لگایا (فائل فوٹو: اے پی پی)

یہ الزامات نما اعترافات ایسے وقت میں سامنے آئے جب پاکستان تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے کارکن اسلام آباد میں دھرنا دیے بیٹھے تھے۔
افضل خان کے الزامات کو اس وقت بھی پی ٹی آئی نے گھر کے بھیدی کے اعترافات اور اپنے موقف کی تائید قرار دیا تھا۔
مگر بعد میں انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات کے لیے قائم خصوصی کمیشن میں افضل خان اپنے دعوے کا کوئی ثبوت پیش نہ کر سکے۔ ریاض کیانی نے ان پر ہتکِ عزت کا دعویٰ بھی کیا تھا۔
اسی طرح افضل خان نے توہین عدالت کیس میں غیرمشروط معافی مانگ لی۔ عدالت کے روبرو ان کا کہنا تھا کہ ان الزامات کی تائید میں ان کے پاس کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔
الیکشن میں’جھرلو‘ کی اصطلاح اور بیوروکریسی 
پاکستان میں کسی بھی طرح کی انتخابی بےقاعدگیوں کے اظہار کے لیے لفظ ’جھرلو‘ مستعمل ہے۔
سیاسی ڈکشنری میں اس لفظ کی شمولیت اور اسے خاص مفہوم اور معنی دینے کا سہرا پاکستانی بیوروکریسی کے سر ہے۔
قیامِ پاکستان کے بعد پنجاب میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات مارچ 1951 میں ہوئے جن میں حکومتی پارٹی مسلم لیگ کو اکثریت ملی۔
انہی انتخابات کے دوران لاہور کے حلقہ پانچ میں ووٹوں کی گنتی کے تنازع نے ملک گیر توجہ حاصل کر لی۔
اس حلقے سے مسلم لیگ کے احمد سعید کرمانی اور مشہور مزدور رہنما مرزا ابراہیم مدمقابل تھے۔ مرزا ابراہیم نے یہ الیکشن جیل سے لڑا تھا۔
ابتدائی نتائج میں مرزا ابراہیم 1200 ووٹوں سے یہ معرکہ جیت گئے یہاں تک کہ اخبارات میں ان کی کامیابی کی خبریں بھی چھپ گئیں۔
اکثریت کے باوجود حکومتی جماعت کو کمیونسٹ پارٹی کی جیت گوارا نہ تھی۔ ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا فیصلہ ہوا اور تین روز تک درجنوں بار ووٹ گنے گئے۔ یہاں تک کہ مرزا ابراہیم کے 2500 ووٹوں پر سیاہی کے نشانات کا جواز بنا کر انہیں مسترد کر دیا گیا اور احمد سعید کرمانی کو 800 ووٹوں سے کامیاب قرار دیا گیا۔

سنہ 1951 میں لاہور میں مسلم لیگ کے احمد سعید کرمانی اور مشہور مزدور رہنما مرزا ابراہیم مدمقابل تھے (فائل فوٹو: سکرین گریب)

اس کامیابی پر ان کے مخالفین نے ’جُھرلو پھیرنے‘ کی پھبتی کسی۔ یوں یہ اصطلاح سیاسی ہیر پھیر کی ہم معنیٰ بن کر رہ گئی۔
لاہور کے ڈپٹی کمشنر ایس ایس جعفری کی زیرنگرانی ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا عمل ہوا تھا۔ اس لیے لوگوں نے انہیں نتائج کی تبدیلی کا ذمہ دار قرار دیا۔
بات ڈپٹی کمشنر کی ہو رہی ہے۔ پاکستان کی انتخابی تاریخ میں خالد کھرل کو بھی بطور ڈپٹی کمشنر انتخابات پر اثرانداز ہونے کا ذمہ دار قرار دیا جاتا رہا ہے۔
سنہ 1977 کے الیکشن میں ذوالفقار علی بھٹو لاڑکانہ سے بلا مقابلہ کامیاب ہوئے تھے۔ ان کے سیاسی مخالف جماعت اسلامی کے جان محمد عباسی کو 17 جنوری کو ڈی ایس پی لاڑکانہ نے بغیر وارنٹ گرفتار کر لیا۔ انہیں 19 جنوری کو اس وقت رہا کیا گیا جب ان کے کاغذات نامزدگی جمع نہ ہونے کی وجہ سے بھٹو کے بلامقابلہ جیتنے کا اعلان ہو گیا۔
ان انتخابات کے بارے میں ضیا حکومت کے جاری کردہ وائٹ پیپر میں درج تفصیلات کے مطابق جان محمد عباسی نے الیکشن کمیشن سے اپنے اغوا کی تحریری شکایت کی۔

سنہ 1977 کے الیکشن میں ذوالفقار علی بھٹو لاڑکانہ سے بلا مقابلہ کامیاب ہوئے تھے (فائل فوٹو: اوپن میگ)

اس دور میں لاڑکانہ کے ڈپٹی کمشنر خالد احمد نے انہیں ترغیب دی کہ اگر وہ اپنی شکایت واپس لے لیں تو بدلے میں انہیں نواب شاہ کے حلقے سے بلامقابلہ منتخب کروا لیا جائے گا۔
الیکشن کمیشن نے 18 فروری کو اپنے فیصلے میں جان محمد عباسی کی درخواست خارج کر دی۔
بھٹو حکومت کے خاتمے کے بعد خالد کھرل کو ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑے۔ وہ 1993 میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر رکن قومی اسمبلی اور اطلاعات و نشریات کے وفاقی وزیر بھی رہے۔
انتخابی دھندلی پر استعفا 
راولپنڈی کے کمشنر نے اپنی پریس کانفرنس میں دھاندلی پر اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان بھی کیا۔
اس روایت کی بنیاد بھی 1977 کے الیکشن میں دھاندلی کے خلاف چلنے والی تحریک کے دوران سرکاری عہدوں سے مستعفی ہونے کے اعلان سے پڑی۔
مگر اس وقت عہدے چھوڑنے والے تمام لوگوں کا الیکشن کے انعقاد اور انتظام سے کوئی تعلق نہ تھا۔
اپریل 1977 کو پاکستان کی بری اور فضائی افواج کے سابق سربراہوں کی جانب سے سفارتی عہدے چھوڑنے کے اعلان نے دھاندلی کے خلاف احتجاجی تحریک میں تیزی پیدا کر دی۔
پاکستانی فوج کے سابق کمانڈر اِن چیف جنرل گل حسن اس وقت یونان میں پاکستان کے سفیر تھے۔ اسی طرح فضائیہ کے سابق سربراہ ایئرمارشل رحیم خان سپین میں سفیر کی حیثیت سے تعینات تھے۔ ان دونوں نے اپنے عہدوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا۔
سیاسی مؤرخین کے مطابق ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھالنے کے کچھ عرصے بعد ان دونوں کو عہدوں سے سبکدوش کر دیا تھا۔ بھٹو حکومت کے خلاف تحریک کے دوران ان کے مستعفی ہونے میں شاید ذاتی رنجش کا عنصر بھی شامل رہا ہو۔
ان دو سفیروں کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما آصف کرمانی کے والد احمد سعید کرمانی جو ان دنوں مصر میں سفیر تھے، نے بھی اپنا عہدہ چھوڑ دیا۔

سنہ 77 کے الیکشن کے بعد سپین میں سفیر ایئرمارشل رحیم خان نے اپنے عہدوں سے استعفا دے دیا تھا (فائل فوٹو: ونٹیج پاکستان فیس بک)

اس دور میں ماسکو کے پاکستانی سفارت خانے میں تعینات ایک 27 سالہ سیکنڈ سیکریٹری نے بھی بطور احتجاج اپنا استعفیٰ پاکستانی سفیر سجاد حیدر کے حوالے کیا تھا۔
پاکستانی دفتر خارجہ کے اس سابق اہلکار نے بعد میں صحافت اور سیاست میں نام کمایا۔
کچھ برس قبل انہوں نے اپنے ایک کالم میں اس فیصلے کے بارے میں لکھا کہ استعفا دیتے ہوئے وہ سمجھ رہے تھے کہ بھٹو کی حکومت کے خاتمے کے بعد ملک میں انقلاب آ جائے گا۔
پاکستان واپسی کے بعد وہ مدتوں اس انقلاب کی تلاش کی سعی ناکام کرتے رہے۔
یہ کردار حالیہ الیکشن میں پی ٹی آئی کی حمایت سے چکوال کی نشست پر قومی اسمبلی کے الیکشن میں ناکام ہونے والے ایاز امیر ہیں۔
چیف الیکشن کمشنر کو ملک کیوں چھوڑنا پڑا؟
’ہمارے تمام انتظامات کے باوجود سارے ملک میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کا ارتکاب ہوا۔ ہم کیا کر سکتے تھے؟ یہ ایسے ہی ہے کہ کوئی آئے اور سجی سجائی دکان لوٹ کر لے جائے ۔‘
سنہ 1977 کے انتخابات کے بارے میں بے بسی بھرے یہ الفاظ اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس سجاد حسین کے تھے۔
الیکشن کے ادارے کے سربراہ کے بیان نے سلگتے حالات پر گویا تیل کا کام کیا۔ اپوزیشن کے رہنما مفتی محمود نے ان سے استعفے کا مطالبہ کیا۔
الیکشن کا بھرا میلہ لوٹ لینے کی بات نے بھٹو حکومت کو مشکلات میں ڈال دیا۔ انہوں نے اپنی انتظامی طاقت سے معاملے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔
ضیا الحق کے چیف آف سٹاف جنرل کے ایم عارف اپنی کتاب ’ورکنگ وِد ضیا‘ میں اس دور کے واقعات کا تفصیلی احاطہ کرتے ہیں۔
چیف الیکشن کمشنر نے 19 مارچ کو دھاندلیوں کے الزامات کا نوٹس لیا اور حکومت سے درخواست کی کہ وہ الیکشن کے قانون میں تبدیلی کر کے انہیں دھاندلی والے حلقوں کے انتخاب کو کالعدم قرار دینے کا اختیار دیں۔
بھٹو حکومت نے الیکشن ایکٹ میں مطلوبہ ترمیم کر دی۔ الیکشن کمیشن کی تحقیقات سے 13 حلقوں میں کامیاب امیدواروں کی جیت کالعدم قرار پائی۔ اس اقدام نے حکومت کو خوفزدہ کر دیا اور اس نے یہ آرڈیننس واپس لے لیا۔
اسی دوران خبریں گردش کرنے لگی کہ جسٹس سجاد حسین علاج کے لیے بیرون ملک جانے والے ہیں۔

سنہ 1977 میں چیف الیکشن کمشنر رہنے والے جسٹس سجاد وطن واپس لوٹے تو ملک میں مارشل لا لگ چکا تھا (فائل فوٹو: چغتائی آرٹ بلاگ)

آٹھ مئی 1977 کو ذوالفقار علی بھٹو نے تصدیق کی کہ جسٹس سجاد کی خرابیٔ صحت کی بنیاد پر رخصت کی درخواست منظور کر لی گئی ہے۔
مگر اسی روز چیف الیکشن کمشنر نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ وہ 21 مئی تک انتخابی عذرداریوں کی سماعت کریں گے۔
ڈاکٹروں نے انہیں چھٹی کی ہدایت دی ہے مگر وہ فوری طور پر رخصت پر جانے کا ارادہ نہیں رکھتے۔
اس بیان کے ایک ماہ بعد 18 جون کو وہ پولینڈ کے لیے روانہ ہو رہے تھے۔ ایئرپورٹ پر صحافیوں سے بات چیت میں اخبارات میں الیکشن کے بارے میں خبروں کی اشاعت پر ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنا نام کسی اخبار میں دیکھتے ہیں تو انہیں گھبراہٹ ہوتی ہے۔
جاتے ہوئے انہوں نے یہ الفاظ بھی  بولے ’لوگ مجھے بھول جائیں تو ان کا مجھ پر احسان ہو گا۔‘
پھر انہیں واقعی بھلا دیا گیا۔ ان کی عدم موجودگی میں جسٹس دراب پٹیل قائم مقام چیف جسٹس مقرر ہوئے۔
دو ماہ بعد جب جسٹس سجاد وطن واپس لوٹے تو ملک میں مارشل لا لگ چکا تھا۔
جسٹس ارشاد کو کون زبردستی ہسپتال لے جانا چاہتا تھا؟
سابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس ارشاد حسن خان چیف الیکشن کمشنر تھے جب 2002 کے الیکشن منعقد ہوئے۔ ان انتخابات کی شفافیت پر سنگین سوالات اٹھے۔
بحیثیت چیف جسٹس صدر مشرف کے مارشل لا کو سند جواز اور انہیں آئین میں ترامیم کا اختیار دینے کے باعث ارشاد حسن خان کو قانونی حلقوں کی طرف سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
انہیں چیف الیکشن کمشنر بنانے کے لیے اس وقت کی حکومت نے قانون میں تبدیلی کرتے ہوئے ان کا پروٹوکول اور مراعات چیف جسٹس آف پاکستان کے برابر کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا۔
اس کے باوجود ارشاد حسن خان نے اپنی آپ بیتی ’ارشاد نامہ‘ میں انکشاف کیا ہے کہ حکومت کی طرف سے انہیں الیکشن کے غیرحتمی نتائج کو سرکاری اور حتمی قرار دینے کا گزٹ نوٹیفکیشن جاری کرنے سے روکنے کی کوشش کی گئی۔
جس روز نوٹیفکیشن اشاعت کے لیے پرنٹنگ پریس بھیجا جانا تھا، انہیں سیکریٹری الیکشن کمیشن محمد حسین کے ذریعے اسے روکنے کا پیغام ملا۔
ارشاد حسن خان کے بقول وہ فوراً پرنٹنگ پریس پہنچے اور انہیں اسی روز نتائج کی اشاعت کا کہا۔ رات آٹھ بجے نوٹیفکیشن فائنل کر کے تمام اخبارات کو بھیج دیا گیا البتہ ٹیلی ویژن کے لیے کوئی خبر جاری نہیں کی گئی۔

جسٹس ارشاد حسن خان چیف الیکشن کمشنر تھے جب 2002 کے الیکشن منعقد ہوئے (فائل فوٹو: ایمیزون)

اسی رات 10 بجے وہ نیند میں تھے جب پرویز مشرف کے ڈپٹی چیف آف سٹاف ان کے گھر آئے۔ چیف الیکشن کمشنر ان سے ملنے آئے تو ان پر نیند کا غلبہ باقی تھا۔ جسے دیکھ کر مشرف کے ڈپٹی چیف آف سٹاف نے ارشاد حسن خان سے کہا کہ ان کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے، وہ ان کے لیے ایمبولنس منگواتے ہیں۔
اس کے بعد جو کچھ ہوا اس کے بارے میں ارشاد حسن خان لکھتے ہیں:
’انہوں نے میری مرضی کے برعکس مجھے ساتھ لے جانے کی کوشش کی اور وہ مجھے بازوؤں میں اٹھانے لگے تو میں نے ناراضی کا اظہار کیا۔ کچھ بدمزگی بھی ہوئی بہرحال وہ چلے گئے۔‘
اگلی صبح وہ پھر آن موجود ہوئے۔ ارشاد حسن خان نے انہیں حقیقت حال سے آگاہ کیا کہ ’آپ لیٹ ہو چکے ہیں، گزٹ نوٹیفکیشن آج کے اخبارات میں چھپ گیا ہے۔‘
پاکستان میں ہر الیکشن کے بعد جمہوریت آگے بڑھنے کے بجائے تنازعات تلے دبتی چلی جاتی ہے۔ نومنتخب پارلیمنٹ کی توانائیاں اور توجہ گزشتہ الیکشن کے جھگڑوں اور تلخیوں کو نمٹانے میں صرف ہو جاتی ہیں یہاں تک کہ ملک میں نئے انتخابات کا مرحلہ آ جاتا ہے۔ 

شیئر: