Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’دھاندلی‘ کے خلاف بلوچستان بھر میں احتجاج، مرکزی شاہراہیں بند

مظاہرین نے صوبے کے 20 سے زائد اضلاع میں شاہراہوں کو بند رکھا۔ فوٹو: اے ایف پی
انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف چار جماعتی قوم پرست اتحاد کی جانب سے اتوار کو بھی بلوچستان بھر میں تمام اہم اور بڑی شاہراہوں کو احتجاجاً بند رکھا گیا۔
بلوچستان نیشنل پارٹی، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی، نیشنل پارٹی اور ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی نے انتخابات کے نتائج میں مبینہ رد و بدل اور دھاندلی کے خلاف احتجاجی تحریک شروع کر رکھی ہے جس کے تحت صوبے بھر میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔
اتوار کو پورے صوبے میں پہیہ جام ہڑتال کی کال دی گئی تھی جس پر چاروں جماعتوں کے کارکنوں نے صوبے کے 20 سے زائد اضلاع میں شاہراہوں کو بند رکھا۔
بلیلی، سریاب کسٹم، دشت، لکپاس میں کوئٹہ کو باقی شہروں سے ملانے والی شاہراہوں کو بند کر دیا گیا۔
پشین، قلعہ سیف اللہ، ژوب کے مقامات پر کوئٹہ کو اسلام آباد سے ملانے والی شاہراہ، اسی طرح قلعہ عبداللہ میں کوئٹہ کو چمن کے راستے افغانستان سے ملانے والی بین الاقوامی شاہراہ، دالبندین کے مقام پر کوئٹہ کو ایران سے ملانے والی بین الاقوامی شاہراہوں کو بند رکھا گیا۔
سبی، جعفرآباد اور صحبت پور کے مقامات پر کوئٹہ کو سکھر اور سندھ سے ملانے والی این 65 شاہراہ پر مظاہرین نے رکاوٹیں کھڑی کر کے ٹریفک معطل کر دی۔ خضدار اور سوراب میں کوئٹہ کراچی شاہراہ، گوادر، اورماڑہ اور پسنی میں مکران کوسٹل ہائی وے بند ہونے سے گوادر اور کراچی کے درمیان ٹریفک معطل رہی۔
پاکستان اور ایران کے درمیان تجارتی سرگرمیاں بھی متاثر ہوئیں جبکہ پنجگور اور کیچ میں شاہراہیں بند رکھی گئیں۔
بارکھان میں کوئٹہ کو ڈیرہ غازی خان کے راستے پنجاب سے ملانے والی شاہراہ کو بھی مظاہرین نے بند رکھا۔ اسی طرح بلوچستان کو ملانے والی باقی تمام بڑی شاہراہوں کو بھی مختلف مقامات پر بی این پی، پشتونخوا میپ، نیشنل پارٹی اور ایچ ڈی پی کے کارکنوں نے رکاوٹیں کھڑی کر کےاتوار کی صبح سے شام پانچ بجے تک بند رکھا۔

چار جماعتی قوم پرست اتحاد کی جانب سے بلوچستان میں احتجاج کیا گیا۔ فوٹو: اے ایف پی

مسافروں اور ٹرانسپورٹرز کو مشکلات کا سامنا

8 فروری کو ہونے والے انتخابات کے اگلے روز نتائج سامنے آنے کے بعد سے بلوچستان میں احتجاج کا سلسلہ مسلسل جاری ہے۔ بلوچستان اسمبلی کی 51 میں سے نصف سے زائد جنرل نشستوں اور بلوچستان سے قومی اسمبلی کی 16 میں سے 10 سے زائد نشستوں کے نتائج کے خلاف احتجاج کیا جا رہا ہے۔
قوم پرست جماعتیں بلوچستان نیشنل پارٹی، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی، نیشنل پارٹی، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی، پشتونخوا نیشنل عوامی پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام احتجاج میں پیش پیش ہیں۔
احتجاج کی وجہ سے بلوچستان کو باقی صوبوں اور ممالک سے ملانے والی شاہراہیں بند ہونے کی وجہ سے مسافروں، ٹرانسپورٹرز اور تاجروں کو مشکلات کا سامنا ہے۔
کوئٹہ تا اسلام آباد سروس فراہم کرنے والی ٹرانسپورٹ کمپنی کے عہدیدار محمد بخش نے اردو نیوز کو بتایا کہ گذشتہ 10 دنوں سے شاہراہیں مسلسل بند ہیں۔
’ژوب کا راستہ بند ہوتا ہے تو ہم سکھر والے راستے کا استعمال کر لیتے تھے۔ لیکن اب تمام راستے بند ہیں۔ ہماری گاڑیاں 24 ، 24 گھنٹے بھی احتجاج کی وجہ سے پھنسیں رہیں ہیں۔‘
کوئٹہ میں پولٹری کا کام کرنےوالے علاؤالدین نے بتایا کہ وہ پنجاب بالخصوص جنوبی پنجاب سے مرغیاں منگواتے ہیں، احتجاج سے پہلے روزانہ ایک یا دو ٹرک آتے تھے لیکن اب ایک ہفتے میں صرف دو، تین ٹرک پہنچ سکے۔
’ٹرک احتجاج میں کچھ دیر بھی پھنس جائے تو مرغیاں مرنے لگتی ہیں۔ رواں ہفتے ہمیں بہت زیادہ نقصان ہوا ہے۔‘

احتجاج کے باعث پاکستان اور ایران کے درمیان تجارتی سرگرمیاں متاثر رہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

قوم پرستوں کے سنگین الزامات

چار جماعتی اتحاد کے قائدین نے سنیچر کو کوئٹہ میں ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر کے دفتر کے باہر 9 فروری سے جاری دھرنے سے خطاب کیا۔ چاروں جماعتوں کا الزام ہے کہ ان کی جیتی ہوئی نشستوں کے نتائج ریٹرننگ افسران نے تبدیل کیے اور ہارے ہوئے افراد کو جتوایا گیا۔
ان کا مطالبہ ہے کہ فارم 45 کے مطابق نتائج کا اعلان کیا جائے۔
پشتونخوا میپ کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے سنیچر کو مظاہرے سے خطاب میں الزام لگایا تھا کہ ’بلوچستان کے انتخابات 70 ارب روپے میں چوروں، ڈاکوؤں ،سمگلروں اورجرائم پیشہ عناصر کو بیچے گئے، جو پھر اسمبلی میں جا کر ملک کو لوٹیں گے۔‘
بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل کا کہنا تھا کہ ’بلوچستان میں وہ لوگ انتخابات میں کامیاب ہوتے ہیں جنہیں فرشتے ووٹ دیتے ہیں، جن کے چار ووٹ تھے اسے 400 کر دیا گیا۔‘

شیئر: