جڑواں ہونے کا فائدہ: لاکھوں ڈالر کی چوری پھر بھی باعزت بری
جڑواں ہونے کا فائدہ: لاکھوں ڈالر کی چوری پھر بھی باعزت بری
ہفتہ 24 فروری 2024 6:46
راحِل مرزا -نئی دہلی
ڈکیتی کے الزام میں جڑواں بھائی حسن اور عباس کو ملزم قرار دیا گیا۔ فوٹو: بزنس سٹینڈرڈ
’بھلے ہی سو گنہگار بچ جائیں لیکن ایک بے گناہ کو سزا نہیں ملنی چاہیے‘ یہ ایک بہت پرانی کہاوت ہے جس کا استعمال نہ جانے کتنی بار ہوا ہے لیکن بالی وڈ ہدایتکار آدتیہ رائے کپور کی گذشتہ سال 2023 میں ریلیز ہونے والی فلم ’گمراہ‘ ایسی ہی ایک کہانی پر مبنی ہے۔
فلم میں ایک قتل کے لیے دو جڑواں بھائیوں کو گرفتار کیا جاتا ہے۔ جانچ کے بعد ظاہر ہوتا ہے کہ قاتل جڑواں بھائیوں میں سے ایک ہے۔ لیکن ڈی این اے ٹیسٹ کے باوجود پولیس قاتل کی پہچان کرنے میں ناکام رہتی ہے اور جرائم کے ارتکاب کے باوجود عدالت دونوں کو باعزت بری کر دیتی ہے۔
جرائم کے بہت سے شواہد اور گواہوں کے بیانات کے باوجود بعض اوقات معاملہ اس قدر پیچیدہ ہوتا ہے کہ عدالت اور پولیس دونوں مجبور نظر آتے ہیں۔ فلموں میں جڑواں بچوں کے معاملات پیش کیے گئے ہیں۔
فلم ’رام شیام‘ ہو یا پھر فلم ’میرا سایہ‘ یا [سیتا اور گیتا‘ یا پھر کوئی اور جس میں جلد یا بدیر حقیقت آشکار ہو جاتی ہے لیکن جب یہ معاملہ حقیقی زندگی میں پیش آئے تو دلچسپیوں سے خالی نہیں رہتا۔
ایک ایسا ہی واقعہ 25 فروری 2009 کو جرمنی کے شہر برلن میں پیش آیا تھا جب کئی لاکھ ڈالر کے زیورات کا ایک ڈاکہ پڑا تھا اور ڈکیتی کے الزام میں ایک جیسے نظر آنے والے جڑواں بھائی حسن اور عباس کو ملزم بنایا گیا تھا لیکن انھیں سزا نہیں دی جا سکی کیونکہ ان کی جینیاتی معلومات اتنی ملتی جلتی تھیں کہ جائے وقوعہ پر پائے جانے والے ڈی این اے کے نشانات مقدمے کے لیے حتمی ثبوت فراہم کرنے میں ناکام رہے۔
ڈی این اے دراصل ایک منفرد شناخت ہے جو انسانوں کے ساتھ ساتھ دوسرے جاندراوں میں بھی ہوتی ہے۔ ڈی این اے کی جانچ کا استعمال جہاں بہت سے کاموں کے لیے ہوتا ہے وہیں مجرمانہ مشتبہ افراد کی شناخت اور ولدیت کے تنازعات کو حل کرنے کے لیے اسے معیاری قانونی آلہ مانا گیا ہے۔
لیکن اس کے باوجود یہ ٹیسٹ ایک جیسے جڑواں بچوں کو کئی معنوں میں ایک دوسرے سے جدا نہیں بتا سکتا۔ اس کے لیے فنگر پرنٹ یعنی انگلیوں کے نشانات ہی واضح امتیاز ہوتے ہیں۔
25 فروری کو صبح سویرے برلن کے مشہور اور یورپ کے دوسرے سب سے بڑے لگژری ڈیپارٹمنٹل سٹورز میں سے ایک کاؤف ہاؤس ویسٹنس میں چوری ہوتی ہے۔ اس سوپر سٹور کو عرف عام میں ’کا ڈی وی‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ جو اس سٹور سے 65 لاکھ ڈالر مالیت کے عمدہ زیورات اور قیمتی گھڑیاں چرانے میں کامیاب ہو گئے۔
نگرانی کے لیے نصب سی سی ٹی وی کیمروں نے دستانے پہنے تین نقاب پوش چوروں کو ریکارڈ کیا جو سٹور کے روشن دان سے رسی سے نیچے پھسل رہے تھے۔ وہ موشن ڈیٹیکٹر سے بچ رہے تھے اور سٹور کے سکیورٹی سسٹم کو دھوکہ دے رہے تھے۔
چور اگرچہ ہوٹل سے سامان چوری کرنے میں کامیاب رہے اور بغیر پکڑے فرار ہو گئے لیکن وہ اپنے پیچھے کچھ شواہد چھوڑ گئے جن سے ان کے ڈی این اے کا پتا لگایا گیا۔ پولیس کی جانب سے جائے وقوعہ پر ربڑ کے دستانے سے نکلنے والے پسینے کے نشانات ملے۔
تفتیش کاروں نے جرمنی کے مجرمانہ ریکارڈ والے ڈیٹا بیس سے جائے وقوعہ سے ملنے والے مواد کا موازنہ کرایا تو یہ جڑواں بھائی حسن اور عباس سے مماثلت والے نکلے۔ اس ڈی این اے والے کے چوری اور دھوکہ دہی کے مجرمانہ ریکارڈ تھے۔
جرمن قانون کے تحت ان کا مکمل نام نہیں لیا جا سکتا تھا جس کے تحت ایسے مشتبہ افراد کی اس وقت تک شناخت ظاہر کرنے سے منع کیا جاتا ہے جب تک کہ انھیں سزا نہ مل جائے۔
شمالی جرمنی کی ریاست لوئر سیکسنی میں رہنے والے 27 سالہ بھائیوں کو اس ہائی پروفائل چوری کے واقعے کے دو ہفتے بعد گرفتار کیا گیا۔ پولیس کو پورا یقین تھا کہ ان میں سے کم از کم ایک نے چوری میں حصہ لیا تھا۔
تاہم ہفتے کے آخر میں انھیں رہا کر دیا گیا حالانکہ اس سے پہلے کے مقدمے میں بھی ان میں سے ایک کو مجرم گردانا گیا تھا۔
جرمن عدالتوں کی طرف سے قبول کیے گئے ڈی این اے کے نمونوں کا تجزیہ کیا گیا لیکن ان جڑواں بھائیوں کا ڈی این اے اتنا مماثل تھا کہ دونوں میں سے کسی ایک کو خصوصی طور پر اس جرم سے جوڑا نہیں جا سکتا تھا۔
دونوں بھائیوں نے گرفتار ہونے کے بعد پولیس کے ساتھ تعاون کرنے سے انکار کر دیا۔ بظاہر دونوں میں سے ایک تو مجرم ضرور تھا لیکن خود کو بچانے کے لیے انھوں نے ایک دوسرے پر الزام نہیں لگائے۔ اور مزید کوئی شواہد نہیں ملے۔ چوری کے اس واقعے میں ملوث تیسرے شخص کا بھی کوئی سراغ نہیں مل سکا، اور چوری کا سامان بھی دریافت نہ ہو سکا۔
سی سی ٹی وی فوٹیج بے کار تھی کیونکہ مجرم نے ماسک لگا رکھے تھے۔ زیورات غائب رہنے کے باوجود پولیس نے بالآخر دونوں بھائیوں کو رہا کر دیا۔
دی نیو یارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق عدالت نے ایک بیان میں لکھا: ’ہمارے پاس موجود شواہد سے، ہم یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کم از کم ایک بھائی نے جرم میں حصہ لیا لیکن اس کا تعین کرنا ممکن نہیں ہو سکا کہ ان میں سے کس نے کیا ہے۔‘
پراسیکیوٹر کے دفتر کے ترجمان مائیکل گرون والڈ نے کہا کہ وہ اس پر کوئی تبصرہ نہیں کریں گے۔ انہوں نے کسی بھی فیصلے کو قیاس آرائیاں قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ حقیقت ہے کہ مشتبہ افراد جڑواں ہیں اور ان پر مقدمہ چلانے کی کوشش پیچیدہ ہے۔
برلن پولیس ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان برن ہارڈ شوڈروسکی نے کہا کہ تفتیش کار اب بھی کم از کم چار مشتبہ افراد کی تلاش میں ہیں۔ ’ہمارے پاس تین ویڈیو ہیں اور یقین ہے کہ باہر ڈرائیور یا کسی اور طرح کے کسی انسان نے مددگار کے طور پر کام کیا ہے۔‘
جدید ٹیکنالوجی کی بدولت پولیس اب مجرموں کی شناخت کے لیے فنگر پرنٹ کے نمونے استعمال کرتی ہے۔ اور یہ واحد ذریعہ ہے جو ایک جیسے جڑواں بچوں کے جرائم کو آشکار کر سکے۔
بہر حال فلم میں چوری کے بجائے قتل کا واقعہ دکھایا گیا ہے اور فلم میں بھی جرمنی کے فیصلے کی طرح کسی کو مجرم ٹھہرایا نہیں جاتا۔