سعودی عرب کے مختلف علاقوں میں شہریوں نے اپنے طور پر قدیم اشیا کو جمع کرکے میوزیم قائم کر رکھے ہیں۔
سعودی شہری عودۃ العطوی نے بھی اپنا ’حسمی میوزیم‘ قائم کیا ہے جس کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں تانبے کے برتن اور دیگر اشیا رکھی گئی ہیں۔
عودۃ العطوی کا کہنا ہے کہ میوزیم میں تانبے سے تیار اشیا سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ تانبے کی صنعت ہزاروں سال پرانی ہے۔

میوزیم کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں زمانہ قدیم میں استعمال ہونے والے تانبے کے برتن، ملبوسات، سجاوٹ کی اشیا، مہمانوں کے کھانے کے برتن، اسلحہ اور اسی طرح کی دیگر اشیا یہاں موجود ہیں اور بہت اچھی حالت میں ہیں۔

اخبار 24 سے گفتگو کرتے ہوئے میوزیم کے مالک عودۃ العطوی نے کہا گزشتہ کئی سال سے میرے میوزیم میں آثار قدیمہ سے لگاو رکھنے والے سیاح اتنی بڑی تعداد میں نہیں آرہے تھے مگر اب اس میں اضافہ ہونے لگا ہے۔ آثار قدیمہ و تاریخی اشیا میں دلچسپی رکھنے والے آنے لگے ہیں۔
حسمی میوزیم کے مالک نے بتایا تانبے کی صنعت یہاں ہزاروں سال سے زندہ ہے اور سعودی ورثہ اس سے جڑا ہوا ہے۔

ان کا کہنا تھا تانبے کی اشیا زمانہ قدیم میں گھریلو مصنوعات تھیں اور عرب باشندے اس کی تیاری میں خاص مقام رکھتے تھے۔
عودہ العطوی نے بتایا تانبے کے برتن اور دیگر اشیا جن میں کھانا تیار کرنے کے لیے روزمرہ کی مختلف اشیا، رائفل کے پرزے، زرہ بکتر وغیرہ شامل ہیں یہ بھی عرب باشندے تیار کرنے میں ماہر تھے اور سب سے اہم تانبے سے تیار کردہ مختلف قسم کے ساز اور ڈبے وغیرہ بھی تھے جو پڑوس کے ملکوں میں فروخت کیے جاتے تھے۔
تانبے کے سب سے مشہور کافی کے وہ برتن بھی ہیں جو پہلے تیار نہیں ہوتے تھے۔ اس کے لیے مہمانوں کے لیے خاص طور پر تیار کردہ کھانا رکھنے کی ٹرے جس کو ’مچھلی کی شکل‘ سے مشابہت رکھتی ہے۔
