Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تنازع پھیلنے کا خطرہ، سابق سعودی سفیر نے غزہ جنگ کے نتائج سے خبردار کر دیا

ڈاکٹر علی عواد اسیری نے کہا کہ ’جنگ اسرائیل کے شمال اور لبنان کے جنوب میں کشیدگی کا باعث بن رہی ہے‘ (فوٹو: عرب نیوز)
غزہ جنگ کے ختم ہونے کا امکان نظر نہ آنے کے پیش نظر ایک تجربہ کار سعودی سفارت کار نے خبردار کیا ہے کہ یہ تنازع علاقائی دہشت گردی کا باعث بن سکتا ہے اور پڑوسی ممالک میں پھیل سکتا ہے۔
لبنان اور پاکستان میں سعودی عرب کے سابق سفیر ڈاکٹر علی عواض العسیری نے عرب نیوز کے کے کرنٹ افیئر شو ’فرینکلی سپیکنگ‘ میں اس خطرے کی گھنٹی کی جانب توجہ مبذول کرائی۔
انہوں نے فرینکلی سپیکنگ کی میزبان کیٹی جینسن کو بتایا کہ ’اسرائیل کو فوری طور پر (غزہ میں مظالم) کو روکنا ہو گا اور انسانی طریقہ کار اپنا کر اس صورتحال سے نمٹنا ہو گا تاکہ (حماس کے ہاتھوں) یرغمالیوں کو تشدد کا نشانہ نہ بنایا جائے۔
انہوں نے کہا کہ ’ہمیں اُمید ہے کہ غزہ میں جنگ بندی ہو جائے گی۔ رمضان آ رہا ہے۔ جو بربریت ہم نے دیکھی ہے اس سے کوئی انسان خاص طور پر مسلم دنیا میں کوئی بھی خوش نہیں ہو سکتا۔‘
ڈاکٹر علی عواض العسیری کا کہنا تھا کہ ’جنگ پہلے ہی اسرائیل کے شمال اور لبنان کے جنوب میں کشیدگی کا باعث بن رہی ہے۔ حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان لڑائی جاری ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم اُمید کرتے ہیں جنگ میں مزید شدّت نہیں آئے گی کیونکہ 2006 کی (اسرائیل-حزب اللہ) جنگ نے لبنان کو تباہ کر دیا تھا۔ لبنانی واقعی وہ جنگ نہیں چاہتے۔ وہ امن چاہتے ہیں۔ اُن کی معیشت ابتر ہے۔ ان کی گورننس خراب ہے۔‘

ڈاکٹر علی عواض العسیری نے کہا کہ  ’حزب اللہ کے لیے کمانڈ ایران سے آتی ہے‘ (فوٹو: عرب نیوز)

ڈاکٹر علی عواض العسیری نے کہا کہ ’ملک میں حزب اللہ کی قوت اور خطے پر ایران کے کنٹرول کی وجہ سے صورتحال پیچیدہ ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’حزب اللہ کے لیے کمانڈ ایران سے آتی ہے۔ حزب اللہ ایران سے ملنے والے حکم کو مانتا ہے۔‘
دہشت گردی کو شکست دینے کے لیے سعودی عرب کی حکمت عملی کے حوالے سے علی عواض العسیری نے کہا کہ یہ دنیا میں اپنی نوعیت کی سب سے کامیاب (حکمت عملی) ثابت ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مملکت نے دہشت گردی اور انتہاپسندی میں اہم کردار ادا کرنے والے تمام عوامل سے نمٹنے کے لیے ایک جامع طریقہ اختیار کیا۔
’بہت سے ممالک، خاص طور پر عرب دنیا اور جنوبی ایشیا نے سعودی عرب سے یہ سیکھا کہ کس طرح انسداد دہشت گردی کے کامیاب پروگرام کو چلانا ہے۔‘
انہوں نے حکمت عملی کے حوالے سے بتایا کہ ’ہم نے دوسرے ممالک کو دیکھا ہے جہاں وہ دہشت گردوں کو گرفتار کرتے ہیں، ان پر تشدد کرتے ہیں اور ان سے پوچھ گچھ کرتے ہیں۔ اور وہ طویل عرصے تک جیل میں رہتے ہیں یا پھر واپس آ کر پھر سے اسی کام میں لگ جاتے ہیں۔‘
ڈاکٹر علی عواض العسیری نے کہا کہ ’مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ ہماری حکومت نے اس رجحان  جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، پر ایک مہذب انداز اختیار کیا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’جس حکمت عملی پر عمل کیا گیا ہے، موجودہ حکومت نے جو اقدامات کیے ہیں، اس سے نوجوان خوش ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ وہ کبھی واپس آنے، یا دوبارہ دہشت گرد بننے کے بارے میں سوچیں گے۔ کبھی نہیں۔‘

شیئر: