Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

غزہ میں انسانی بحران، اقوام متحدہ کی ڈائریکٹر کا فرینکلی سپیکنگ کو انٹرویو

فرینکلی سپیکنگ کی میزبان کیٹی جینسن نے جولیٹ ٹوما کا انٹرویو کیا۔ (فوٹو: عرب نیوز)
اقوام متحدہ کے ساتھ منسلک اپنے 100 سے زائد ساتھیوں کی ہلاکت پر غمزدہ ڈائریکٹر کمیونیکیشز جولیٹ ٹوما نے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے تاکہ پانچ ہفتوں سے غزہ جس ’جہنم‘ سے گزر رہا ہے، اس سے نجات مل سکے۔
اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی (الاونروا) کی کمیونیکیشز ڈائریکٹر جولیٹ ٹوما نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے کیے جانے والے سخت محاصرے میں ’کوئی بھی جگہ محفوظ نہیں۔‘
انہوں نے اتوار کو عرب نیوز کے کرنٹ افیئر شو ’فرینکلی سپیکنگ‘ میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ایندھن کے مطالبے کو اسرائیل تازہ ترین ’جنگی حربے‘ کے طور پر استعمال کر رہا ہے، جو دراصل ان کے ادارے کے کام میں بھی خلل پیدا کر رہا ہے۔
’ہم جیسے اقوام متحدہ کے ادارے یا کسی اور امدادی ادارے کے لیے ایندھن کی بھیک مانگنا ناقابل قبول ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہمیں انسانی امداد کے مقاصد کے لیے ایندھن کی ضرورت ہے اور ہمارے پاس گزشتہ پانچ ہفتوں سے ایندھن نہیں ہے۔‘
حال ہی میں فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے ’الانروا‘ نے اعلان کیا تھا کہ ایندھن تک رسائی نہ ہونے کے باعث زندگیوں کو بچانے کا کام روکنا پڑے گا۔
جس کا مطلب ہے کہ 75 برسوں میں پہلی مرتبہ غزہ سے باہر کام کرنے والا سب سے بڑا امدادی ادارہ فلسطینیوں کی ضروریات پوری نہیں کر سکے گا۔
بدھ کو اسرائیل نے مصر کے راستے غزہ میں 24 ہزار لیٹر ڈیزل بھیجنے کی اجازت دی تھی۔ یہ اجازت اس شرط کے ساتھ دی گئی تھی کہ ایندھن کی نہ تو ہسپتال میں اور نہ ہی غزہ میں کام کرنے والے اقوام متحدہ کے اداروں کے ٹرکوں کو استعمال کی اجازت ہو گی۔
جولیٹ ٹوما کا کہنا تھا کہ امدادی سرگرمیوں کے لیے ایندھن کی ضرورت ہے۔ ایندھن کی ضرورت نہ صرف الاونرا کو ہے بلکہ غزہ میں موجود دیگر امدادی اداروں کو بھی ہے۔
غزہ میں ایندھن کی کمی کی وجہ سے مواصلات اور انٹرنیٹ کی سروس بھی متاثر ہے۔ بدھ کو فلسطین کی ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی پال ٹیل نے خبردار کیا تھا کہ اس کے جنریٹر ایندھن کی کمی کی وجہ سے خشک ہو رہے ہیں او کچھ دن کے بعد کمپنی اپنا آپریشن بند کرنے پر مجبور ہو جائے گی۔

اسرائیلی بمباری کی وجہ سے غزہ میں رہائشی علاقے بھی تباہ ہو گئے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

جولیٹ ٹوما نے کہا کہ ’غزہ میں بلیک آؤٹ کا مطلب ہے کہ ہمارا اپنے ساتھیوں کے ساتھ رابطے کا ختم ہو جانا، غزہ میں لوگوں کا ایک دوسرے سے رابطوں کا منقطع ہونا۔ وہ ایمبولینس بلا نہیں سکیں گے۔ ایمبولینس نہیں آ سکتی کیونکہ اس میں ایندھن نہیں اور وہ خود کو ایک دوسرے سے دور اور باقی دنیا سے کٹا ہوا محسوس کرتے ہیں۔‘
غزہ میں صورتحال کی بہتری کے لیے حال ہی میں وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ لڑائی میں ہر روز چار گھنٹے کا وقفہ دینے کے لیے مذاکرات کیے ہیں تاکہ اس دوران آسانی سے امداد پہنچائی جا سکے، تاہم جولیٹ ٹوما کے مطابق یہ کافی نہیں ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ ’جنگ بندی کی ضرورت ہے۔‘
’غزہ لوگوں کے لیے پانچ ہفتوں سے جہنم بن چکا ہے۔ اب جنگ بندی ہونی چاہیے۔ اب محاصرہ ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ سپلائی باقاعدگی سے داخل ہو۔ یہ وقت ہے۔ اس کو ہونا چاہیے تھا۔ انسانیت کی خاطر اب جنگ بندی ہو جانی چاہیے۔ ضرور ہونی چاہیے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ چند ہفتے قبل عالمی ادارے کے ساتھ مل کر ایک پیش رفت ہوئی تھی جب ہمیں الشفا میں جانے کی اجازت دی گئی اور وہاں ہم نے طبی سامان اور ایمرجنسی کی ادویات فراہم کیں۔
’ایک ماہ سے زیادہ عرصے میں ہمیں صرف اس کی اجازت دی گئی۔ ہسپتالوں سمیت طبی ادارے کو بین الاقوامی قانون کے تحت تحفظ حاصل ہے اور ان کو ہمیشہ تحفظ دینا چاہیے، تنازع کے دوران بھی۔‘
جب جولیٹ ٹوما سے پوچھا گیا کہ آیا ان کو یا ان کے ساتھیوں نے ایسے شواہد دیکھے ہیں جن سے ثابت ہو سکے کہ حماس الشفا ہسپتال کو ایک اڈے کے طور پر استعمال کر رہی ہے تو انہوں نے تبصرہ کرنے سے انکار کیا اور کہا کہ ’میرے پاس معلومات نہیں اور نہ ہم عسکری ماہرین ہیں۔‘
اس جنگ کے دوران 11 ہزار 500 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جس میں ان کے 103 ساتھی بھی شامل ہیں۔ اقوام متحدہ کی 78 سال کی تاریخ میں یہ مہلک ترین اعداد و شمار ہیں۔

اقوام متحدہ کے اداروں میں غزہ کے شہریوں نے پناہ لی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

’جب بھی فہرست آتی ہے تو میری دھڑکنیں تیز ہو جاتی ہیں۔ یہ سب سے خوفناک خبر ہوتی ہے کہ آپ کا ایک ساتھی انتہائی خوفناک حالات میں مارا گیا۔ ہمارے بہت سے ساتھی اہل خانہ سمیت مارے گئے۔ جنگ کے آغاز سے غزہ کی پٹی کے مختلف علاقوں میں پورے پورے خاندان ختم ہو گئے ہیں۔ یہ بہت خوفناک ہے۔‘
انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ غزہ میں کوئی بھی جگہ محفوظ نہیں، نہ شمالی، نہ وسطی اور نہ ہی جنوبی علاقے۔
’یہ تاثر ہے کہ جنوبی علاقے محفوظ ہیں تاہم یہ سچ نہیں ہے۔ ہمارے ایک تہائی ساتھی جو مارے گئے ہیں وہ وسطی اور جنوبی علاقوں میں مارے گئے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے ساتھی حیران و پریشان ہیں کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔
ٹوما نے کہا کہ گزشتہ دنوں شمال سے وسطی اور جنوبی علاقوں کی جانب لوگوں کا جو انخلا دیکھا گیا تو بہت سے لوگوں کے لیے یہ 1948 کے صدمے جیسا تھا یا 1948 کی جنگ جیسا صدمہ جن سے ان کے والدین اور ان کے آباؤ اجداد گزرے تھے۔
ان سے پوچھا گیا کہ آیا الاونروا کے کمشنر جنرل فیلیپی لازیرینی کی جانب سے عرب لیگ پر جنگ بندی کے لیے زور دینا صحیح تھا۔۔۔ اور آیا اسرائیل سننے کے لیے تیار تھا تو ان کا جواب واضح تھا۔
انہوں نے کہا کہ ہر سطح پر بات کرنی چاہیے، اس مسئلے کے حل کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے تاکہ جنگ بندی ہو سکے۔

شیئر: