رو زانہ کی مصروفیت میں عید کی تیاری کا حصہ بھی رکھئے،ما ہ مبا رک تیزی سے گزر رہا ہے
* * * *تسنیم امجد ۔ریا ض * * * *
اپنوں سے دور جا نا مشکل ہے ۔بزرگوں سے اکثر یہی سناہے۔اباجان اکثر کہتے تھے کہ اللہ کریم کسی کو پر دیسی نہ کرے۔ما ضی میں خا ندان بھر میں کو ئی قریب یا دور کا رشتہ دار پر دیس سدھارتا تھا تو تہواروں پر عجیب اداسی چھا ئی رہتی تھی ۔عیدن پر دو ریا ں کا ٹنے کو دو ڑ تی تھیں ۔انٹر نیٹ کی سہو لت نہ ہو نے کی وجہ سے فو ن کی ہر گھنٹی پر دیسی کی لگتی تھی ۔آج میڈ یا اور ٹیکنا لو جی کی تر قی نے دور یو ں کی اداسیاں کم کر دی ہیں۔بہر حال جدا ئی خواہ عا ر ضی ہو یا مستقل ، جدا ئی ہی ہو تی ہے۔احساسات یا دوں کی صورت میں بغیر اطلا ع دئیے وقت بے وقت دل و دما غ پر دھاوا بو لتے رہتے ہیں ۔ آج یہ سب ضبط تحریر میں لا نے کا مقصد’’عید ‘‘کی آمدکے حَسین تصورکو لفظوں میں ڈھالنا ہے۔ ان دنوں اپنی خالہ زاد ، چچا زاد ، پھوپھی زاد اور نہ جا نے کو ن کو ن سی زادگان بے اختیا ر یا د آ رہی ہیں ۔یہ سب کینیڈا ،امریکہ ،جا پا ن اور جر منی جا بسی ہیں۔ ہم بھی پر دیسی ہوئے اور اس طرح بر سو ں بیت گئے ملا قا ت ہوئے لیکن یا دیں ایسی جیسے کل ہی ملا قا ت ہو ئی ہو :
عید کا چا ند فلک پر نظر آ یا جس دم
میری پلکو ں پہ ستا رے تھے تری یا دو ں کے
مشترکہ خاندان میں رہنے سے تہوا رو ں کا مزہ دو با لا ہو جا تا ہے ۔ویسے تو مائیں پیچھے پڑ کر رمضان کریم سے قبل شا پنگ مکمل کر وا دیتی تھیں لیکن ہمیں جو مزہ عید تک تھو ڑی تھوڑی شا پنگ میں آتا تھا اس کے کیا کہنے ؟ آئیے آج عید پر کچھ با ت ہو جا ئے۔اس کی تیا ری ابھی سے کر لی جا ئے تو ایک بڑی ذمہ داری مکمل ہو جا ئے گی جو محبت ، تعلق ، ہمدردی اور قر بت کے اظہا ر کا اور روا بط میں اضا فے کا بہترین ذریعہ ہے۔ہزا رو ں میل کا فا صلہ عیدی سے قریب آ جا تا ہے ۔
انسانی جذبات کلیوں کی مانند نا زک ہو تے ہیں۔چھو ٹی چھو ٹی خو شیو ں سے کھل اٹھتے ہیں۔تحائف دو سروں کو ان کی اہمیت کا احساس دلا تے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ روایات و اقدار کی پہچان بھی ہے ۔ آجکل مہنگا ئی کی لہر کی وجہ سے عیدبھی متا ثر ہو تی ہے ۔ 500 کا نو ٹ ہی کچھ وز نی لگتا ہے ۔اکثرلوگ عید کے تحا ئف کوبھی ا سٹیٹس کے حوا لے سے پر کھتے ہیں۔عیدی جیسی خوبصورت روایت کوبھی وہ اسی پلڑے میں تولتے ہیں۔دینے کے بعد’’ ریٹر ن‘‘ کا انتظار شروع ہو جا تا ہے۔
اگر بد لے میں کم ملے تو منہ بسورلیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ ہا ئے میں نے تو اتنے کا تحفہ دیا تھا ، بد لہ کیا دیا ؟ شا ید یہ ایک کا رو بار ہے۔ایسی صورت حال کو مد نظر رکھتے ہو ئے اکثر لوگوں کا کہنا ہے کہ جہا ں ایسی ذہنیت کے لو گ ہو ں وہاںلین دین رکھا ہی نہ جا ئے اور اگر لین دین کو نظر انداز کر نا ممکن نہ ہو تو پھر اسے ایک کا رو بار ہی جا نیں اور بد لہ سوچ سمجھ کر ہی دیں۔ ذرا سوچئے !ایسے لین دین سے کیا فائدہ جو بو جھ بن جا ئے ۔بہتر یہ ہے کہ عیدی دیتے ہو ئے لینے والے کے مزاج کو مد نظر رکھا جائے یا ضرورت کا اندازہ لگا لیا جا ئے ۔ اس طرح عیدی کی شکل میں دیا جا نے والا تحفہ قربت پیدا کر ے گا ۔کچھ لو گو ں کا کہنا ہے کہ مہنگے تحفے سے زیادہ محبت ملتی ہے ۔
یہ فا مو لا ہر ایک پر لا گو نہیں ہو تا بلکہ مزاج مزاج کی بات ہوتی ہے۔بہر حال ایسے تحا ئف جو خانہ پُری کر یں اوراسٹور کی زینت بنیںوہ محبت کی بجا ئے دوری کا باعث بنتے ہیںجبکہ ایسے تحفے جو رشوت اور چا پلو سی کی غرض سے پیش کئے جائیں، ان سے محبتوں میں اضا فے کی بجا ئے کمی ہو نا شروع ہو جا تی ہے۔ ہماری اپنی روایات اور اقدار کی پہچا ن خود ہما رے ہاتھ میں ہے۔تحا ئف کا لین دین کا رو با ر نہیں بننا چا ہئے۔عیدی کا مثبت شعور اُجاگر کرنا اور اسے بر قرار رکھنا ہر ایک کی ذمہ داری ہے۔
دوستی ایک قابل قدر رشتہ ہے جو کسی بھی ترا زو میں نہیں تو لا جا سکتا ۔ بناوٹ اور نمائش سے اسے زنگ لگ جا تا ہے۔تعلقات خلوص کی بنیاد پر قا ئم کئے جا ئیں تو زیادہ مضبو ط اور مستحکم ہو تے ہیں۔ دین اسلام تحائف کے تبادلے کی حو صلہ افزائی کرتا ہے۔اماں کی نصیحت یاد آتی ہے کہ ضروری نہیں کہ تحفے کے بد لے میں فو ری تحفہ دیا جا ئے بلکہ اسے کسی مناسب وقت کے لئے ملتوی کر دیا جا ئے تو بھی درست ہے ۔اس طرح مو قع کی مناسبت نہا یت اچھا اثر رکھے گی ۔ آجکل تحا ئف کا تبا دلہ آسان ہو چکا ہے۔عید و دیگر مواقع پرتحائف کی آن لا ئن ترسیل دورِ حاضر کا مقبول فیشن بن گیا ہے جو لوگوں کو کچھ زیادہ ہی بھانے لگا ہے۔اسی لئے گزرتے وقت کے ساتھ اسے فروغ حاصل ہو رہا ہے ۔کل ہی ہماری بھا نجی خوشی سے پھو لے نہیں سما رہی تھی کیو نکہ اسے اس کی سہیلی نے امریکہ سے ایک پرس بطورتحفہ بھیجا تھا ۔ہم سوچنے لگے کہ اگر یہی پرس اسے کو ئی یہاں دیتا تو اس میں ہزار کیڑ ے نکا لے جا نے تھے تاہم اس کی خوشی و مسرت شایدتحفے کی ’’ آن لائن‘‘ اوروہ بھی ’’ امریکہ‘‘ سے آمد کا اثر تھی کیونکہ ہم نے جب کچھ سہیلیو ں سے تبا دلہ خیال کیا تو تازہ خبر یہی ملی کہ آن لائن گفٹ کی اہمیت دو چندشمار ہوتی ہے اور اس فہرست میں چاکلیٹ ، تا زہ پھو ل اور کیک مع کا رڈ شامل ہیں ۔
بہر حال خوش رہنا انسان کی فطری ضرورت ہے۔’’عید‘‘ تمام مسلما نوں کے لئے اجتما عی خوشی کا دن ہے۔ہمیں اسے اسی انداز میں منانا چاہئے جو اندازہما رے شا ندا ر ما ضی میں رہا ہے ۔ اپنی اقدار سے محبت خود اپنی پہچان ہے۔عید محبتیں با نٹنے کا دن ہے ۔رنجشیں دور کرنے اور رو ٹھے ہو ئو ں کو منانے کا یہ بہترین مو قع ہے ۔اس سے دین اور دنیا دونوں مل جا تے ہیں۔ آج کا ہما را ہر عمل آنے والی نسل کی رہنما ئی کرے گا ۔ اکثر گھرو ں میں رات بھر جاگے ہوئے بچے صبح دیر تک سو ئے رہتے ہیں اور عید کی نماز چھوٹ جاتی ہے ۔ ایسے گھروں میں بڑے بھی جیسے تیسے عید کا دوگانہ ادا کر تے ہیں۔پر دیسیو ں سے یہی سننے کو ملتا ہے۔ایسا ہر گز نہیں کر نا چا ہئے ۔
بچوں کے لئے ان کا گھر ہی ان کا ’’تربیتی مرکز‘‘ ہوتا ہے۔والدین جہاں بھی ہو ں، انہیں بچوں کو شعور دینا ہوتاہے۔عید کے موقع پرگلے ملنا ،عیدی کی فرما ئش اور سویاںایک روایت ہیں،والدین تربیت دیں گے تبھی بچوں کو شعور آئے گا۔ انسان جہا ں رہتا ہے ،وہاں کے مطا بق حا لا ت ڈھالنا اس کے لئے کچھ مشکل نہیںہوتا۔خود کو اور اپنی خوشیوں کو محدود نہیں کر نا چاہئے۔ پسند و نا پسند کو نظر انداز کر کے مذ ہبی احکامات کو من و عن ما ننا ہی مسلما ن کی شان ہے۔ہا ں عیدی جیسی خود ساختہ رسموں کے دوران رقم کی تقسیم میں ضرورت مندوں کو مت بھو لئے۔بہتر تو یہی ہے کہ ابھی سے پیکٹ بنانے شروع کر دیں۔رو زانہ کی مصروفیت میں عید کی تیاری کا حصہ بھی رکھئے۔ما ہ مبا رک تیزی سے گزر رہا ہے، اس لئے آج کا کام کل پر مت ٹالئے۔