کراچی میں حکومت سندھ ایک بار پھر منشیات کے بڑھتے رجحان کو روکنے کے لیے موثر منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ انسداد منشیات کے لیے کام کرنے والے ادارے دور جدید میں نت نئے طریقوں سے منشیات کی تیاری اور فروخت کو لے کر سر جوڑ کر بیٹھے ہیں۔ محکمہ ایکسائز کا کہنا ہے کہ منشیات فروخت کرنے والے اتنے منظم انداز میں کام کر رہے ہیں کہ ان پر ہاتھ ڈالنا ایک بڑا چیلنج بن گیا ہے۔
کراچی کے پوش علاقے میں سیکریٹری ایکسائز عاطف حسین نے ایک کارروائی پر گزشتہ برس ستمبر میں ایک پریس کانفرنس کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ محکمہ ایکسائز سندھ کو اطلاع ملی کہ شہر میں واقع پوش علاقے کے ایک گھر سے منشیات کا کاروبار کیا جا رہا تھا، خفیہ اطلاع پر کارروائی کرنے کے لیے ایکسائز کی چھاپہ مار ٹیم نے ضابطے کی کارروائی مکمل کی اور ایک بنگلے پر چھاپہ مارا۔ اس گھر میں ایک کینیڈین نژاد تعلیم یافتہ پاکستانی نوجوان رہائش پذیر تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ جب گھر پر ریڈ کیا تو گھر میں چھوٹے چھوٹے گملوں میں بڑی تعداد میں چھوٹے بڑے پودے موجود تھے۔ ٹیکنکل ٹیم نے جب ان پودوں کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ ملزم گھر میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے غیر ملکی منشیات میری جونہ (چرس) اُگا رہا تھا۔
منشیات کی پیداوار کی تفصیلات بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ کوئی عام طریقے سے منشیات کی پیداوار نہیں کی جا رہی تھی بلکہ ایک انتہائی منظم انداز میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے منشیات اگائی جا رہی تھی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ میری جونہ کی کاشت گھر کے کمروں میں سیاہ رنگ کے متعدد کنٹرولڈ شیڈز اور کیبنز میں مٹی کے گملوں کی جا رہی تھی۔
ان پودوں کی نشوونما کے لیے کنٹرولڈ شیڈز بنائے گئے تھے جہاں میری جونہ کے پودوں کی مناسبت سے درجہ حرارت ٹھنڈا اور گرم رکھا گیا تھا۔ اس کے علاوہ ایل ای ڈی لائٹس کے ذریعے روشنی کا انتظام بھی کیا گیا تھا اور ساتھ پودوں کے لیے ضروری آکسیجن کی فراہمی کے لیے آکسیجن سلینڈرز اور کنسنٹریٹر بھی لگائے گئے تھے۔
ان انتظامات کے ساتھ ساتھ میری جونہ کی کاشت کو کامیاب تر بنانے کے لیے پائپ اور ٹیمپریچر کنڑول یونٹ، باہر سے منگوائے گئے بیج، مخصوص قسم کی امپورٹڈ کھاد سمیت باہر سے منگوائی گئی مٹی کا استعمال بھی کیا جا رہا تھا۔
محکمہ ایکسائز کے مطابق یہ اپنی نوعیت کی منفرد ریڈ اس لیے بھی تھی کہ اس سے قبل منشیات کی پیداوار کا اس طرز کا جدید نظام سامنے نہیں آیا تھا۔ یہ کاروبار ایک کینیڈین نژاد تعلیم یافتہ پاکستانی نوجوان کر رہا تھا جس پر کسی کو شک بھی نہیں ہوسکتا تھا۔
عاطف حسین کا کہنا تھا کہ 24 ستمبر کو سرفراز احمد خان نامی ایک شخص کی گاڑی سے غیرملکی شراب کی بوتلیں اور میری جونہ برآمد ہوئی تھی اور بعدازاں اسی کی نشاندہی پر بنگلے پر چھاپہ مارا گیا اور گھر میں قائم یہ فیکٹری پکڑی گئی۔
انہوں نے بتایا کہ اس کارروائی میں تقریباً ایک کروڑ 30 لاکھ روپے کی میری جونہ منشیات برآمد کی گئی تھی جبکہ ڈیڑھ کروڑ مالیت کے آلات بھی قبضے میں لیے گئے تھے۔
سٹریٹ کریمنل اور اجرتی قاتل نشے کے عادی
ترجمان کراچی پولیس کے مطابق کراچی شہر میں مختلف وارداتوں میں ملوث پائے گئے افراد کو گرفتار کرنے پر اس بات کی نشاندہی ہوئی کہ بیشتر ملزمان نشے کے عادی ہیں۔
گزشتہ برس ستمبر میں اقوام متحدہ کے ایک غیرملکی نمائندے کو کراچی میں اسلحے کے زور پر لوٹا گیا تھا۔ پولیس نے متاثرہ شخص کی درخواست پر کیس کی تفتیش کا آغاز کیا اور واقعہ میں ملوث ایک ملزم کو گرفتار کرلیا۔
سابق ایس ایس پی ساؤتھ عمران قریشی کے مطابق گرفتار ملزم نے اقوامِ متحدہ کے نمائندے سے اسلحے کے زور پر موبائل فون چھینا تھا۔ انہوں نے بتایا ہے کہ گرفتار ملزم کے قبضے سے مسروقہ موبائل فون اور اسلحہ برآمد ہوا ہے۔
ایس ایس پی نے ملزم کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ گرفتار ملزم کا نام فرمان علی ہے جس نے اپنے ساتھی کے ساتھ مل کر غیرملکی شہری کو لوٹا تھا اور ملزم نشے کا عادی ہے۔
کراچی پولیس کے افسر ایس ایس پی عرفان بہادر نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ شہر میں جرائم کی وارداتوں میں ملوث بیشتر افراد نشے کے عادی پائے گئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ شہر میں چوری اور لوٹ مار کی بہت سی وارداتوں میں گرفتار کیے گئے ملزمان نے دوران تفتیش بتایا ہے کہ وہ نشے کی طلب کو پورا کرنے کے لیے جرائم کرتے ہیں اور ان وارداتوں سے حاصل ہونے والی رقم سے نشہ کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پولیس اس مسئلے پر کام کر رہی ہے، ناصرف منشیات کی روک تھام کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں بلکہ جرائم میں ملوث افراد کے خلاف بھی کارروائی کر رہے ہیں۔
سٹریٹ کریمنلز نے عمرہ زائرین کو بھی نہیں بخشا
ترجمان کراچی ضلع وسطی پولیس کے مطابق سعودی عرب سے عمرہ ادائیگی کے بعد وطن لوٹنے والے مسافروں کو نامعلوم افراد نے ان کے گھر کی دہلیز پر لوٹ لیا ہے، متاثرہ خاندان نے پولیس کو بتایا کہ ملزمان نے خود کو پولیس اہلکار ظاہر کیا اور اسلحے کے زور پر انہیں لوٹ کر فرار ہوگئے۔
کراچی کے علاقے لیاقت آباد نمبر تین میں پیش آنے والے واقعے کے متاثرہ شہری ارشد حسین کے مطابق وہ اور ان کی اہلیہ عمرہ کر کے جدہ سے واپس لوٹنے کے بعد گھر آرہے تھے کہ گھر کے نیچے جیسے ہی پہنچے وائٹ کرولا برابر میں آکر رکی۔ کار میں پولیس کی وردی میں ملبوس تین افراد سوار تھے اور ملزمان کے پاس اسلحہ بھی تھا۔ ملزمان نے پاسپورٹ اور شناختی کارڈ چیک کیے اور تلاشی کے بہانے اہلیہ کے ہاتھ سے پرس چھینا اور فرار ہوگئے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اس واردات میں ملزمان 2200 سعودی ریال، پانچ آسٹریلین ڈالر، 10 درہم اور 5 ہزار پاکستانی روپے لوٹ کر فرار ہوئے۔
سمگلرز کی عمرہ زائرین کو استعمال کرنے کی کوشش
ترجمان پاکستان کسٹمز ایس ایم عرفان نے اردو نیوز کو بتایا کہ گزشتہ برس دسمبر کے مہینے میں محکمہ کسٹمز نے کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر غیر قانونی طریقے سے ملک میں موبائل فون درآمد کرنے کی کوشش ناکام بنائی۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈھائی کروڑ روپے سے زائد مالیت کے موبائل فون پاکستان غیر قانونی طریقے سے درآمد کرنے کے لیے سمگلرز نے عمرہ زائرین کا سہارا لینے کی کوشش کی تھی۔ تاہم ایئر پورٹ پر تعینات عملے نے اس کوشش کو ناکام بنا دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ عمرہ کی ادائیگی کے بعد پاکستان واپس آنے والے زائرین کو احترام دیا جاتا ہے اور ان زائرین کی آسان سہل اور جلد کلیئرنس کی جاتی ہے، اور ان کے سامان پر کسی قسم کا شک نہیں کیا جاتا ہے، اس لیے سمگلرز نے ان کا سہارا لینے کی کوشش کی۔
انہوں نے بتایا کہ خفیہ ذرائع سے ملنے والی اطلاع پر پاکستان کسٹمز ایئرپورٹ کلکٹریٹ کے بین الاقوامی آمد لاؤنج پر تعینات عملے نے سعودی عرب سے براستہ دبئی عمرہ کی ادائیگی کے بعد امارت ایئرلائن کی پرواز ای کے 602 سے کراچی پہنچنے والے مسافروں کی کلیئرنس کے دوران کسٹمز گرین چینل پر ایک عمرہ زائرین کے گروپ، جس میں بچے اور خواتین بھی شامل تھیں، کو شک کی بنیاد پر روکا، تمام مسافروں کے سامان کی کسٹم سٹاف نے سکینگ کی تو ان عمرہ زائرین کے سامان میں موبائل فونز کے خالی ڈبوں کی نشاندہی ہوئی۔
مذکورہ مسافروں سے کسٹم سٹاف نے موبائل فونز کے بارے میں دریافت کیا، مسافروں کے غیر تسلی بخش جوابات پر مسافروں سے برآمد ہونے والے 51 موبائل فون اپنی تحویل میں لے لیے۔ برآمد ہونے والے موبائل فونز کی مالیت اور ڈیوٹی ملا کر کل دو کروڑ 74 لاکھ روپے بنتے ہیں۔
کراچی شہر میں کرائے پر اور آن لائن اسلحے کی خرید و فروخت
صوبہ سندھ کے محکمہ انسداد دہشت گردی کے انٹیلی جنس ونگ کے سربراہ راجہ عمر خطاب نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ملک کے مختلف علاقوں میں اسلحہ بنانے کے کارخانوں کے مالکان کے رشتہ دار اور تعلق واسطے والے لوگ کراچی میں اسلحے کی دکانیں بنائے بیٹھے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ کاروبار کافی عرصے سے آن لائن جاری ہے اور ایک اندازے کے مطابق کراچی میں ہر ماہ بھاری تعداد میں مختلف نوعیت کا اسلحہ غیرقانونی طور پر پہنچایا جا رہا ہے اور لاکھوں کی تعداد میں مختلف بور کی گولیاں بھی بھیجی جا رہی ہیں۔
کراچی میں غیرقانونی اسلحے کے خلاف کارروائیاں
راجہ عمر خطاب نے کہا کہ ’شہر میں غیرقانونی اسلحہ سمگلنگ اور سپلائی کی اطلاعات پر ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی عمران یعقوب منہاس نے اس کی روک تھام کا ٹاسک سی ٹی ڈی کو دیتے ہوئے ایک سیل قائم کر کے شہر کے مختلف علاقوں میں غیرقانونی اسلحے کی ڈیلنگ کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا فیصلہ کیا۔‘
راجہ عمر خطاب نے کہا کہ سی ٹی ڈی کی ٹیم نے نومبر 2022 میں شہر کے مختلف علاقوں میں کارروائی کر کے ایک گروہ کے کارندوں کو گرفتار کیا جو غیرقانونی طریقے سے اسلحہ پشاور، درہ آدم خیل اور ڈی آئی خان سمیت مختلف علاقوں سے لا کر کراچی میں فروخت کیا کرتے تھے۔
یہ کارروائی کراچی کے علاقے یونیورسٹی روڈ، کشمیر روڈ، بنارس اور سائٹ ایریا میں کی گئی اور چار افراد کو گرفتار کیا گیا۔ ان کے قبضے سے 18 غیرقانونی پستول و دیگر اسلحہ، میگزین اور بھاری تعداد میں گولیاں برآمد کی گئیں۔
راجہ عمر خطاب نے مزید بتایا کہ ’دوران تفتیش ملزم عظمت اللہ نے انکشاف کیا کہ ملزمان اسلحے کی فروخت آن لائن کیا کرتے تھے۔ ملزمان نے واٹس ایپ اور فیس بک پر گروپ بنا رکھے تھے جن میں اسلحے کے بارے میں معلومات فراہم کی جاتی تھیں اور خریدار کی مرضی کے مطابق اسلحہ انہیں فراہم کرتے تھے۔‘
اسلحہ آن لائن کیسے فروخت ہوتا ہے؟
گرفتار ملزم عظمت اللہ اور بشیر خان نے پولیس کو بتایا کہ یہ ایک آسان طریقہ ہے۔ پشاور، درہ آدم خیل اور ڈی آئی خان سمیت مختلف علاقوں میں اسلحے کے ڈیلرز اپنے پاس موجود 30 بور، 32 بور نائن ایم ایم اور ایم پی فائیو سمیت دیگر اسلحے کی تصاویر اور ویڈیوز پیج پر اَپ لوڈ کرتے ہیں اور اسلحے کے بارے میں تفصیلات فراہم کرتے ہیں، جنہیں گروپ ممبرز کراچی سمیت سندھ کے مختلف علاقوں میں دیکھتے ہیں اور اپنی پسند کے اسلحے کا آرڈر کرتے ہیں۔
راجہ عمر خطاب کا کہنا ہے کہ ملزمان جدید طریقے سے غیرقانونی اسلحے کا آرڈر حاصل کرکے خریدار تک پہنچایا کرتے تھے۔ درہ آدم خیل کے چھ اسلحہ ڈیلرز اور ڈی آئی خان کے ایک اسلحہ ڈیلر سمیت اب تک کی تفتیش میں سات ڈیلرز کے نام سامنے آئے ہیں جو اس کام میں ملوث ہیں۔
رقم کی ادائیگی کا طریقہ کیا ہے؟
راجہ عمر خطاب کے مطابق سوشل میڈیا کے گروپس میں اسلحے کی نمائش کے بعد جو لوگ اسے خریدنے میں دلچسپی ظاہر کرتے ہیں، انہیں واٹس ایپ گروپ میں شامل کر لیا جاتا ہے۔ اس گروپ میں اسلحے کی قیمت طے کی جاتی ہے۔ جوڑ توڑ کے بعد جو بھی قیمت طے ہوجاتی ہے اس کا 50 فیصد حصہ ایزی پیسہ، جاز کیش یا آن لائن ٹرانسفر کیا جاتا ہے اور بقیہ رقم ڈیلیوری کے وقت وصول کی جاتی ہے۔