سرکاری افسران کے رُوپ میں ’کرپٹوکرنسی‘ ڈکیت گینگ کیسے پکڑا گیا؟
سرکاری افسران کے رُوپ میں ’کرپٹوکرنسی‘ ڈکیت گینگ کیسے پکڑا گیا؟
جمعہ 5 اپریل 2024 6:14
رائے شاہنواز -اردو نیوز، لاہور
مغوی خرم خان نے بتایا کہ ’اغوا کار مجھے میرے گھر سے نکال کر لاہور کی سڑکوں پر گھماتے رہے‘ (فوٹو: پنجاب پولیس)
لاہور کے علاقے ڈیفنس میں فروری میں آدھی رات کو ایک گھر کے سامنے دو گاڑیاں رُکیں۔ ان میں سے ایک سبز نمبر پلیٹ والی ہائی ایس گاڑی بظاہر کسی قانون نافذ کرنے والے ادارے کی معلوم ہوتی تھی۔
تینوں گاڑیوں میں سے آٹھ سے دس مسلح افراد باہر نکلے جن میں سے کچھ نے یونیفارم پہن رکھا تھا۔
جس گھر کے سامنے یہ دونوں گاڑیاں رُکیں یہ ڈیفنس فیز اے میں واقع ہے، اور یہ 19 اور 20 فروری کی درمیانی شب تھی۔ گھر کے مالک خرم خان جو ایک تاجر ہیں اپنے کمرے میں سوئے ہوئے تھے۔
ایف آئی آر کے مطابق اس واقعے کے باقی مندرجات کچھ یوں ہیں کہ یہ افراد گھر میں گُھس کر خرم خان کو بندوق کے زور پر تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے اپنے ساتھ لے جاتے ہیں اور جاتے ہوئے اس گھر میں موجود تمام موبائل فون بھی قبضے میں لے لیتے ہیں۔
اردو نیوز کو بتاتے ہوئے خرم خان کا کہنا تھا کہ ’ان افراد نے اپنے آپ کو نیب کے افسران ظاہر کیا تھا، وہ مسلح تھے اور ان میں سے ایک کے ہاتھ میں سٹیل کی ہتھکڑی بھی تھی۔‘
’کچھ افراد نے یونیفارم پہن رکھا تھا جبکہ بعض کا تعارف عدالتی اہلکاروں کے طور پر کرایا گیا۔‘
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے کچھ اندازہ نہیں ہو رہا تھا کہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ وہ لوگ مجھے میرے گھر سے نکال کر لاہور کی سڑکوں پر گھماتے رہے۔‘
’اسی دوران انہوں نے مجھ سے مطالبہ کیا کہ میں اپنا کرپٹوکرنسی اکاؤنٹ اُن کے حوالے کر دوں۔ میں حیران تھا کہ میرا تو کوئی کرنسی اکاؤنٹ ہے ہی نہیں۔‘
خرم خان کے مطابق ’جب میں نے انہیں یہ بات بتائی تو پھر میرے اوپر تشدد کا نہ رُکنے والا ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔‘ اغوا کاروں سے کیا غلطی ہوئی؟
بقول خرم خان ’تشدد کے دوران وہ لوگ انہیں بتا رہے تھے کہ ان کے پاس تمام معلومات ہیں کہ وہ کرپٹوکرنسی کا کاروبار کرتے ہیں۔‘
تاہم خرم خان نے ان کو بتایا کہ ’انہیں غلطی ہوئی ہے اس کاروبار سے اُن کے ایک بھائی منسلک ہیں جو بیرون ملک رہتے ہیں۔‘
اغواکار شاید یہ ماننے کو تیار نہیں تھے۔ رات سوا بارہ بجے سے شروع ہونے والا اغوا کا یہ پرتشدد واقعہ لاہور کی سڑکوں پر جاری تھا جبکہ خرم خان کی اہلیہ تھانہ ڈیفنس بی میں پولیس کو یہ ماجرا سنا رہی تھیں۔
اغوا کی دفعات کے تحت ایف آئی آر تو فوری طور پر درج ہوگئی، تاہم پولیس یہ کھوج لگانے میں فوری طور پر ناکام رہی کہ مغوی ابھی بھی لاہور کی سڑکوں پر ہی اغوا کاروں کے رحم و کرم پر ہیں۔ کرپٹو گینگ کا پلان بی:
شدید تشدد کے بعد جب اغواکاروں کو یقین ہو گیا کہ خرم خان سچ بول رہے ہیں تو انہوں نے اپنا پلان تبدیل کرلیا۔ خرم بتاتے ہیں کہ ’وہ مجھے ایک فارم ہاؤس میں لے گئے اور اس دوران میری آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’مجھے راستوں کا تو علم نہیں ہوا لیکن جب مجھے ایک جگہ پر رکھا گیا اور میری آنکھوں سے پٹی اُتاری گئی تو وہ لاہور سے باہر کوئی فارم ہاؤس لگ رہا تھا۔‘
خرم خان نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ ’انہوں نے مجھ پر شدید تشدد کیا اور اس کی ویڈیوز بنا کر میرے گھر والوں کو بھیجنا شروع کر دیں۔‘
’اس کے بعد وہ مجھے وہاں سے نکال کر میانوالی کے دریائی علاقے میں لے گئے اور ویڈیو کالز کے ذریعے میرے خاندان سے 12 ارب روپے مالیت کی کرپٹوکرنسی اپنے اکاؤنٹ میں جمع کروانے کا مطالبہ کیا۔‘ گینگ کیسے پکڑا گیا؟
لاہور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں جمع کروائے گئے خرم خان کے ایک بیان کے مطابق ’انہیں میانوالی کے کچے کے علاقے میں جس ڈیرے پر رکھا گیا تھا وہاں انہیں شانی نامی ایک بچہ کھانا دینے آتا تھا۔‘
بچے نے جب سوال پوچھا کہ وہ وہاں کیوں قید ہیں تو انہوں نے بتایا کہ وہ اغوا ہو کر آئے ہیں۔ اس وقت یہ انکشاف ہوا کہ مقامی افراد کو یہ بتایا گیا تھا کہ یہ شخص ڈکیت ہے اور اس سے قانون نافذ کرنے والے ادارے مال برآمد کرنا چاہتے ہیں۔
اغوا کاروں نے وہاں بھی اپنا تعارف یہی کروا رکھا تھا۔ مقامی افراد نے خرم خان تک موبائل فون پہنچایا اور انہوں نے گھر میں موجود اہلیہ کو بتایا کہ وہ کہاں پر ہیں۔ اس کے بعد لاہور پولیس نے میانوالی پولیس کے ساتھ مل کر اس جگہ پر ریڈ کیا۔
ڈی پی او میانوالی مطیع اللہ خان اس ریڈ کی تفصیل بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’ہمیں لاہور سے اطلاع ملی تو ہم نے نشاندہی کی ہوئی جگہ پر چھاپہ مارنے کا فیصلہ کیا۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’یہ کچے کا علاقہ تھا اور ہم کشتیوں کے ذریعے اس گھر تک پہنچے جہاں مغوی کو رکھا گیا تھا۔‘
’وہاں پانچ اغواکار موجود تھے جن میں سے ایک کا تعلق میانوالی سے تھا اور یہ اسی شخص کا ڈیرہ تھا جہاں خرم کو رکھا گیا تھا۔ پولیس وہاں پہنچی تو ملزمان نے ہتھیار ڈال دیے اور ہم نے انہیں گرفتار کر لیا۔‘
ڈی پی او کہتے ہیں کہ ’ابتدائی طور پر جو بات سامنے آئی وہ یہ تھی کہ ان افراد کے پاس مکمل معلومات تھیں کیونکہ خرم کے بھائی جو بیرون ملک رہتے ہیں وہ پی ایس ایل (پاکستان سپر لیگ) کے سپانسر بھی ہیں۔‘
’یہ گینگ بہت منظم طریقے سے کرپٹوکرنسی میں تاوان لینا چاہتا تھا۔ اگر ہمیں بروقت اطلاع نہ ملتی تو یہ لوگ انہیں خیبر پختونخوا کی ایک پارٹی کے حوالے کرنے والے تھے۔‘ کرپٹو گینگ کتنا طاقتور ہے؟
اردو نیوز کو دستیاب دستاویزات میں ابھی تک ایسی تین ایف آئی آرز سامنے آئی ہیں جن میں ہوبہو یہ ہی طریقہ واردات اختیار کیا گیا تھا۔
20 جنوری کو مسلم ٹاؤن کے علاقے میں کرپٹو سرمایہ کاری سے وابستہ ایسے ہی ایک شخص کو اغوا کیا گیا جس میں ایک وی ایٹ گاڑی میں استعمال کی گئی۔
اس وی ایٹ گاری میں موجود ٹریک سوٹ پہنے افراد نے اپنا تعارف پولیس کے طور پر کروایا اور ہتھکڑیاں لگا کر نعیم نامی کاروباری شخص کو اغوا کرلیا۔
ایف آئی آر کے مطابق ان افراد نے 50 ہزار ڈالر مالیت کی کرپٹوکرنسی بندوق کے زور پر ٹرانسفر کروائی۔
اسی طرح گذشتہ برس دسمبر کی 16 تاریخ کو شوکت خانم ہسپتال کے قریب پیٹرول پمپ سے زاہد اسلم نامی ایک کاروباری شخص کو ایسے ہی بڑی گاڑی میں نیلی یونیفارم میں ملبوس کچھ افراد نے اغوا کیا۔
یہ ساری مشق ان کے ساتھ بھی دہرائی گئی۔ تھانہ نواب ٹاؤن میں درج ایف آئی آر کے مطابق گینگ نے ان سے 70 لاکھ روپے ہتھیائے۔
پولیس نے کرپٹوکرنسی کے ان تینوں مقدمات میں میانوالی سے گرفتار ہونے والے پانچ ملزمان کو نامزد کیا ہے جبکہ لاہور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے تینوں مقدمات میں ملزمان کا 14 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کر لیا ہے۔
خرم خان نے عدالت میں یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ سی آئی اے پولیس اُن پر دباؤ ڈال رہی ہے کہ وہ اپنی کہانی کو تبدیل کریں۔
معاملے میں سائبر کرائم اور کرپٹو جیسے تکنیکی معاملات ہونے کی وجہ سے عدالت نے ایف آئی اے کی ٹیم کو بھی تفتیش کا حصہ بنانے کا حکم جاری کیا ہے۔
خرم خان کے وکیل عثمان ملک نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ ایک بہت بڑا گینگ ہے جو نہ جانے اب تک کتنے افراد کو اربوں روپوں سے محروم کر چکا ہے۔‘
’پاکستان میں چونکہ کرپٹوکرنسی میں کاروبار کرنا غیرقانونی ہے اس لیے یہ ایسے افراد کو ٹارگٹ کرتے ہیں جو آن لائن ڈیجیٹل ٹریڈنگ سے منسلک ہوتے ہیں۔‘
ان کے مطابق ’ان افراد کو سسٹم کے اندر سے ہی پوری سپورٹ حاصل ہے۔ جس طرح سے اس کیس کی تفتیش کی جا رہی ہے اس سے ہمیں ایسا لگ رہا ہے کہ معاملے کو سسٹم کے اندر سے دبایا جا رہا ہے۔‘