کرغزستان: ’پرتشدد واقعات‘ میں پانچ پاکستانی طلبہ زخمی، چھ ہاسٹلز پر حملے ہوئے
وسطی ایشیائی ملک کرغزستان کے دارالحکومت بشکیک میں پاکستانی سمیت کئی غیرملکی طلبہ پرہجوم تشدد کا نشانہ بنے ہیں۔
کرغزستان کی حکومت نے تصدیق کی ہے کہ غیرملکی طلبہ کے خلاف پرتشدد واقعات میں کوئی پاکستانی طالب علم ہلاک نہیں ہوا تاہم پاکستان کے سفیر نے بتایا ہے کہ پانچ طلبہ زخمی ہیں۔
پاکستان کی وزارت خارجہ نے سنیچر کی سہ پہر کرغزستان میں پاکستان کے سفیر حسن ضیغم کا ایک ویڈیو بیان جاری کیا ہے۔
حسن ضیغم نے کہا کہ ’کل رات یہاں مقامی انتہاپسند عناصر نے انٹرنیشنل سٹوڈنٹس اور پاکستان کے طلبہ کی رہائش گاہوں پر حملہ کیا۔ کم از کم چھ ہاسٹل اس حملے کی زد میں آئے ہیں۔‘
انہوں نے کرغز حکومت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’14 انٹرنیشنل طلبہ اس وقت زخمی ہیں۔ مشن کو بتایا گیا ہے کہ ایک پاکستانی طالب علم شاہزیب اس وقت نیشنل ہسپتال کرغز میں زیرعلاج ہے۔‘
’میں نے آج کرغز ہسپتال میں شاہزیب سے ملاقات کی۔ ان کی حالت خطرے سے باہر ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف اور نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے کرغزستان میں پاکستانی شہریوں کو ہر ممکن سہولیات فراہم کرنے کی ہدایات جاری کی ہیں۔‘
پاکستانی سفیر کے مطابق ’کرغز حکومت نے ہمیں یقین دلایا ہے کہ بین الاقوامی شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے گا اور اس واقعے کی تحقیقات شروع ہو چکی ہیں اور کچھ مشتبہ افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔‘
’ہم اپنے ایمرجنسی نمبرز پر تقریباً 500 فون کالز سن چکے ہیں۔ ہم نے کم از کم 10 ایسے طلبہ جن کا اپنے خاندانوں سے رابطہ نہیں ہو رہا تھا، ان کی ان کے والدین سے بات کروائی ہے۔‘
پاکستانی سفیر نے کرغزستان میں پاکستانی کمیونٹی سے اپیل کی ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر چلنے والی خبروں پر یقین نہ کریں جب تک ان کی تصدیق نہ ہو جائے۔
پاکستان کی وزارت خارجہ نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر ایمرجنسی نمبرز بھی شیئر کیے ہیں۔
بشکیک میں مختلف جامعات میں زیر تعلیم پاکستانی طلبہ نے اردو نیوز کو موجودہ صورت حال اور گذشتہ رات کے حالات سے آگاہ کیا ہے۔
انٹرنیشنل یونیورسٹی آف کرغستان میں زیر تعلیم یاسر علی پر گذشتہ کئی گھنٹے نہایت مشکل گزرے۔ ان کے بقول وہ خود ایک فلیٹ میں رہائش پذیر ہیں جبکہ یہ تمام واقعات ہاسٹلز میں رونما ہو رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’کل رات 9 بجے سے لے کر اب تک ہم اپنے اپنے کمروں میں بند ہیں۔ ہم باہر نکل سکتے ہیں اور نہ ہی ہمارے پاس اتنا راشن ہے کہ ہم مزید وقت بند کمروں میں گزار سکیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے کورونا کے دن آگئے ہیں۔ کورونا وبا میں پھر بھی ہم باہر جا سکتے تھے لیکن اس وقت باہر نکلنے کا مطلب ہے کہ یا تو زخمی پو جائیں گے یا کچھ پتا نہیں چلے گا کہ کہاں گئے۔‘
کرغستان میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ مختلف عمارتوں میں رہتے ہیں۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک طالب علم اظہار گل (فرضی نام) بتاتے ہیں کہ ’یہاں سرکاری ہاسٹلز نہیں ہوتے بلکہ مختلف عمارتوں کو ہاسٹلز ڈیکلئیر کر دیا جاتا ہے۔ پاکستانیوں سمیت دیگر غیر ملکی طلبہ انہی ہاسٹلز اور اپارٹمنٹس میں مقیم ہیں۔‘
پاکستانی طلبہ سمیت دیگر غیر ملکی طلبہ بھی نشانہ بن رہے ہیں۔ اس وقت صورت حال کنٹرول میں آچکی ہے تاہم طلبہ و طالبات خوف و ہراس میں ہیں۔
طالب علم تنویر احمد کے بقول ’یہاں صرف پاکستانیوں کو نہیں بلکہ جتنے بھی غیر ملکی طلبہ ہیں انہیں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ہمارے کئی دوست ہیں جن کا تعلق مصر، انڈیا، بنگلہ دیش اور دیگر ممالک سے ہے، ان میں زیادہ تر زخمی بھی ہوئے ہیں۔ تشدد کرنے والے کسی سے نہیں پوچھ رہے کہ وہ کہاں سے ہے؟ بس جیسے ہی معلوم ہوتا ہے کہ غیر ملکی ہے تو معلوم نہیں کس چیز کا غصہ نکال دیتے ہیں۔‘
مقامی لوگ کیوں مشتعل ہوئے؟
احسان اللہ جان بھی بشکیک کی ایک یونیورسٹی میں میڈیکل کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ان کے گھر والے نہایت پریشان ہیں اور ہر وقت ان سے رابطہ کر کے اسے کمرے میں رہنے کی تلقین کر رہے ہیں۔
انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ 13 مئی کو کرغستان کے مقامی لوگ غیر ملکیوں (مصریوں) کے ہاسٹل میں داخل ہوئے تھے جہاں دونوں جانب سے تشدد ہوا، جس کے بعد مقامی لوگوں کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئیں۔ 17 مئی کو تمام مقامی افراد اکھٹے ہوئے اور تمام غیرملکی طلبہ پر تشدد کا آغاز کیا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’مقامی لوگوں نے جہاں بھی غیر ملکی طلبہ کو دیکھا انہیں تشدد کا نشانہ بنایا۔ رات تک لوگوں پر تشدد کیا جا رہا تھا جبکہ سفارتخانے کی طرف سے ہماری کوئی امداد نہیں کی جا رہی تھی۔ اس کے بعد وہ تمام لوگ مختلف اپارٹمنٹس اور ہاسٹلز میں داخل ہوئے اور طلبہ پر تشدد کرنے لگے۔‘
ایک اور طالب نے اردو نیوز کو بتایا کہ انہوں نے ایک جگہ مار تو کھائی ہے لیکن انہیں وجہ نہیں معلوم۔
ان کے بقول ’ہمیں صرف اتنا معلوم ہو سکا ہے کہ یہ سب 13 مئی کو ہوا اور آج یہ مشتعل ہوئے۔ ہمیں تصدیق تو نہیں ہوئی لیکن بتایا جا رہا ہے کہ 13 مئی کو غیر ملکی طلبہ اور مقامی لوگوں کی چوری کی واردات پر لڑائی ہوئی جس کے بعد مقامی لوگ غیر ملکیوں کے ہاسٹل میں داخل ہوئے اور توڑ پھوڑ کے ساتھ ساتھ تشدد بھی کیا گیا۔ اس ہاسٹل میں طالبات بھی تھیں۔‘
کرغستان حکومت نے بھی مصر کے چند طلبہ اور مقامی لوگوں کے جھگڑے کی تصدیق کی ہے جس کے مطابق غیر ملکی طلبہ کے ہاسٹلز اور رہائش گاہوں میں جا کر طلبہ پر تشدد کیا گیا ہے۔
پاکستانی طلبہ نے رات کیسے گزاری؟
پاکستانی طلبہ اس وقت ایک دوسرے سے رابطے میں ہیں اور سب کو محفوظ رہنے کے لیے پیغامات بھیجے جا رہے ہیں۔ ایک طالب علم جس کا تعلق لاہور سے ہے، وہ اس وقت شدید صدمے سے دوچار ہیں۔ ان سے جب رابطہ کیا گیا تو وہ ڈر و خوف کے مارے کچھ بھی کہنے سے قاصر تھے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ بالکل محفوظ ہیں اور ان کی حفاظت میں ایک کرغستان کے ایک شخص کا ہاتھ ہے۔
انہوں نے اپنا نام ظاہر کیے بغیر بتایا کہ ’مجھے اس پورے واقعہ کا اندازہ نہیں تھا لیکن کل رات کو جونہی میں کمرے سے باہر نکلا تو لوگوں کا ایک جتھا آیا اور مجھ پر حملہ آور ہوا لیکن میری خوش قسمتی یہ رہی کہ وہاں ایک دودھ فروش موجود تھے جن سے ہم روزانہ دودھ خریدتے ہیں۔ انہوں نے مجھے پہچان لیا اور مجھے بھیڑ سے نکال کر کہا کہ یہاں سے نکل جاؤ ورنہ یہ لوگ تمہیں نہیں چھوڑیں گے۔‘
تنویر احمد بتاتے ہیں کہ ان کو ان واقعات کا علم سوشل میڈیا سے ہوا۔ ان کے مطابق ’ہمیں بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ ہمارے آس پاس کیا چل رہا ہے۔ ہم نے جیسے ہی سوشل میڈیا کھولا تو مختلف ویڈیوز دیکھیں پھر خبروں میں بھی یہ سب رپورٹ ہوا۔ اس کے بعد ہم سب محتاط ہوگئے۔‘
احسان اللہ جان بتاتے ہیں کہ ان کے لیے کل رات نہایت مشکل رہی۔ ’ہمارے گھر والے پوری رات ہم سے رابطے میں تھے۔ ہم جہاں رہتے ہیں یہاں ہاسٹلز کم ہیں۔ ہم گھر والوں کو بتاتے رہے کہ ہم محفوظ ہیں لیکن ان کو تسلی نہیں ہو رہی تھی۔ ہم خود یہاں دیگر طلبہ کو بچانے کی سوچ رہے ہیں۔‘
یاسر علی کے بقول رات بھر وہ سو نہیں پائے کیونکہ انہیں ڈر تھا کہ کہیں مشتعل افراد نہ آجائیں۔ ’ہم نے سارے دروازے بند کر دیے تھے لیکن پھر بھی پوری رات ہمیں ڈر تھا کہ کہیں کوئی اندر نہ آجائے کیونکہ یہاں کے اپارٹمنٹس سے نکلنا بھی بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ اب تک تو ہم سب محفوظ ہیں لیکن ہاسٹلز میں مقیم ہمارے دوست اس وقت غیر محفوظ ہیں۔ انہیں مقامی پولیس والوں سے بھی ڈر لگتا ہے۔‘
احسان اللہ جان کے مطابق انہوں نے رات بخیر و عافیت گزاری لیکن ہاسٹلز میں مقیم طلبہ شدید پریشانی میں مبتلاء رہے۔
انہوں نے اپنے دوستوں کے متعلق بتایا کہ ’ہم اپنے دوستوں کے ساتھ رابطے میں تھے وہ بتا رہے تھے کہ کہیں معمولی شور بھی اٹھتا تو وہ ڈر جاتے کیونکہ مشتعل افراد ہر جگہ گھوم رہے تھے اور انہیں خدشہ تھا کہ کہیں ان پر دوبارہ حملہ نہ کر دیا جائے۔ اس وقت مقامی مشتعل افراد واپس چلے گئے ہیں اور طلبہ کو بار بار کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنے کمروں تک ہی محدود رہیں۔‘
یاسر علی نے حکومت پاکستان سے درخواست کرتے ہوئے کہا کہ ’ہماری گزارش ہے کہ ہمیں یہاں سے نکالا جائے۔ ویسے بھی ایک ماہ بعد ہمیں چھٹیاں ہوجانی ہیں ہمارے لیے کھانے پینے کا انتظام کرنا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ یہاں کے ایجوکیشن ایڈوائزر سے رابطہ کر کے ہمارے نکلنے کا بندوبست کیا جائے۔‘
دارالحکومت بشکیک میں تعینات پاکستانی سفیر حسن علی ضیغم نے طلبہ کو ہدایت کی ہے کہ وہ حالات معمول پر آنے تک گھروں میں ہی رہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے بشکیک میں پاکستانی طلبہ کی صورتحال پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پاکستانی سفیر کو تمام ضروری مدد فراہم کرنے کی ہدایت کی ہے۔
سوشل میڈیا پر ان واقعات کے دوران پاکستانی طلبہ کی مبینہ ہلاکت اور ریپ کا دعویٰ کیا جا رہا ہے، تاہم پاکستانی سفارت خانے نے اور وہاں بشکیک میں زیر تعلیم طلبہ نے ہلاکت اور ریپ کی تصدیق نہیں کی۔