Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شادی شدہ خاتون کے پاسپورٹ پر شوہر کے بجائے والد کا نام، حل کیسے نکلے گا؟

مصطفیٰ جمال قاضی کے مطابق ’اگر کوئی خاتون طلاق یافتہ نہیں بھی ہے تب بھی پاسپورٹ پر شوہر کا نام ہی لکھا جائے گا۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)
’میری عمر سات سال تھی جب میرے والد کا انتقال ہو گیا۔ یوں والد کی کمی ہمیشہ محسوس ہوئی اور اس کمی کو پورا کرنے کے لیے ایک شعوری کوشش میں نے یوں کی کہ اپنی والدہ کے شناختی کارڈ پر اپنے والد کا نام دیکھ کر فیصلہ کر لیا کہ میں جب بھی شناختی کارڈ بنواؤں گی، تو ہمیشہ وہ نام میرے ساتھ رہے گا، یہاں تک کہ شادی کے بعد بھی اسے جاری رکھنا چاہوں گی۔ لیکن شادی کے بعد جب مجھے پاسپورٹ بنوانا پڑا تو مجھے اپنے اس فیصلے سے پیچھے ہٹنا پڑا۔
یہ کہنا ہے راولپنڈی سے تعلق رکھنے والی صفیہ خاتون کا، جو شادی کے بعد اپنے والد کے نام والا شناختی کارڈ لے کر پاسپورٹ دفتر گئیں تو انہیں یہ کہہ کر واپس بھیج دیا گیا کہ پہلے اپنے شناختی کارڈ پر والد کی جگہ شوہر کا نام لکھوا کر لائیں۔
اردو نیوز سے گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ ’مجھے یہ بتایا گیا کہ شادی کے بعد نادرا کے نظام میں ایک نیا خاندان تشکیل پاتا ہے اور اس خاندان کا ایک الگ سے ٹری جنریٹ ہوتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ آپ والد کی جگہ شوہر کے نام کا اندراج کروائیں۔ اس کے بغیر پاسپورٹ بن ہی نہیں سکتا کیونکہ سسٹم کے اندر درخواست ہی آگے بڑھ نہیں سکتی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’مجبوراً مجھے پہلے نادرا سے اپنا ترمیم شدہ شناختی کارڈ بنوانا پڑا اور بعد ازاں میرا پاسپورٹ بنا۔ کچھ عرصے بعد معلوم ہوا کہ نادرا نے والد یا شوہر دونوں میں سے کسی کا نام بھی لکھوانے کی اجازت دے دی ہے۔ اس وقت بھی سوچا کہ تبدیل کروا لوں لیکن معلوم ہوا کہ ایسا کرنے کی صورت میں پاسپورٹ کی تجدید نہیں ہو سکے گی۔
صفیہ خاتون تو اسے ایک تلخ یاد سمجھ کر تقریباً بھول ہی گئی تھیں لیکن لاہور سے تعلق رکھنے والی بیرسٹر خدیجہ صدیقی نے ان کی اس خواہش کو ایک بار پھر جگا دیا ہے۔
خدیجہ صدیقی نے نادرا کی جانب سے شناختی کارڈ پر والد اور شوہر کے نام میں سے کسی ایک کا اندراج کرنے کے آپشن میں سے والد کا نام شناختی کارڈ پر لکھوانے کو ترجیح دی، لیکن جب پاسپورٹ بنوانے گئیں تو پاسپورٹ دفتر نے ان کا پاسپورٹ پروسیس کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ شناختی کارڈ پر شوہر کے نام کا ہونا ضروری ہے۔
بیرسٹر خدیجہ کا موقف ہے کہ نادرا اور پاسپورٹ اینڈ امیگریشن کی پالیسی میں تضاد نہیں ہونا چاہیے۔ اگر نادرا شادی شدہ خاتون کو اپنے والد کا نام شناختی کارڈ پر لکھنے کی اجازت دیتا ہے تو پھر پاسپورٹ اینڈ امیگریشن کی پالیسی بھی نادرا کی پالیسی کے مطابق ہی ہونی چاہیے۔
انہوں نے اس سلسلے میں لاہور ہائی کورٹ میں پٹیشن بھی دائر کر رکھی ہے جہاں پر پاسپورٹ اینڈ امیگریشن کی جانب سے جواب بھی داخل کیا گیا ہے لیکن اس درخواست پر کوئی فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔

بیرسٹر خدیجہ صدیقی کا موقف ہے کہ نادرا اور پاسپورٹ اینڈ امیگریشن کی پالیسی میں تضاد نہیں ہونا چاہیے۔ (فائل فوٹو: فیس بک بیرسٹر خدیجہ صدیقی)

خدیجہ صدیقی نے وزیر داخلہ محسن نقوی کے نام ایک خط بھی لکھا ہے جس میں انہوں نے نادرا اور پاسپورٹ اینڈ امیگریشن کی پالیسیوں میں تضاد کی نشاندہی کرتے ہوئے اسے ہم آہنگ کرنے کی درخواست کی ہے، اور مطالبہ کیا ہے کہ نادرا شناختی کارڈ کی طرح پاسپورٹ پر بھی شادی شدہ خاتون کو والد نام لکھنے کا اختیار دیا جائے۔
وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے اس مسئلے کے حل کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔ سیکریٹری داخلہ خرم علی آغا کمیٹی کے سربراہ ہوں گے۔ 
وزیر داخلہ نے قابل عمل حل طلب کرتے ہوئے ہدایت کی کہ کمیٹی تمام مسئلے کا جائزہ لے کر بہترین حل تجویز کرے۔ اس سلسلے میں شادی شدہ خواتین کی سہولت اور آسانی کو مدنظر رکھ کر سفارشات تیار کی جائیں۔
اس صورت حال پر اردو نیوز سے گفتگو میں ڈی جی پاسپورٹ اینڈ امیگریشن مصطفیٰ جمال قاضی نے کہا کہ ’ہر معاشرے کی اپنی روایات اور اقدار ہوتی ہیں اور قوانین بناتے وقت ان کو سامنے رکھا جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں شادی کے بعد خاتون کا تعلق اس کے والدین کے بجائے شوہر سے جڑ جاتا ہے۔ اسی وجہ سے نکاح رجسٹرڈ کیا جاتا ہے۔ بچوں کے ناموں کا اندراج ہوتا ہے۔ جب ان کا پاسپورٹ بننا ہوتا ہے اور اگر ان کی عمر 18 سال سے کم ہو تو اس وقت پاسپورٹ دفتر میں والد اور والدہ دونوں کا ہونا لازمی ہوتا ہے۔‘
’اس کے پیچھے مقصد یہ ہے کہ تمام کام شفاف طریقے سے ہو کہیں ایسا نہ ہو کہ والد یا والدہ پاسپورٹ بنوا کر ایک دوسرے سے بچوں کو دور نہ کر رہے ہوں یا کوئی تیسرا فرد یا خاتون کسی اور کے بچے کا پاسپورٹ اپنے نام کے ساتھ بنوا کر اسے اغوا کر کے بیرون ملک نہ لے کر جا رہا ہو۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں بچوں کی ٹریفکنگ کے واقعات ہوتے رہے ہیں، بڑی مشکل سے جا کر ان کا راستہ روکا گیا ہے۔

وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے اس مسئلے کے حل کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔ (فوٹو: ایکس)

مصطفیٰ جمال قاضی کے مطابق ’اگر خاتون طلاق یافتہ ہو اور وہ بچوں کے شناختی کارڈ بنوانا چاہے تو اس پر کوئی قدغن نہیں ہے، وہ پاسپورٹ دفتر میں رجسٹرڈ طلاق سرٹیفکیٹ دکھا سکتی ہے۔ لیکن اگر اس کے اپنے شناختی کارڈ پر بچوں کے والد کے بجائے ان کے نانا کا نام لکھا ہوگا تو امیگریشن میں مسائل ہو گے۔ اگر پاکستان میں کسی نے نہ بھی پوچھا تو بیرون ملک ان کو روک لیا جائے گا۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’اگر کوئی خاتون طلاق یافتہ نہیں بھی ہے تب بھی پاسپورٹ پر شوہر کا نام ہی لکھا جائے گا، کیونکہ پاسپورٹ کسی سافٹ ویئر کے مطابق نہیں بنتا بلکہ پاسپورٹ ایکٹ 1974 اور سیٹیزن ایکٹ 1951 کے تحت بنتا ہے، اور یہ تمام باتیں اس میں درج ہیں کہ شادی شدہ خاتون کے پاسپورٹ پر اس کے شوہر کا نام لکھا جائے گا، بلکہ طلاق کے بعد بھی سابق شوہر کا نام پاسپورٹ پر موجود رہے گا کیونکہ اگر ان کے بچے ہوں گے تو ان کی حفاظت کے لیے پاسپورٹ پر باپ کا نام موجود رہنا ناگزیر ہے۔
ڈی جی پاسپورٹ اینڈ امیگریشن کا کہنا تھا کہ ’شناختی کارڈ مقامی دستاویز ہے لیکن پاسپورٹ بین الاقوامی سفری دستاویز ہے، اس لیے ان دونوں کا موازنہ مناسب نہیں۔ شناختی کارڈ پر شادی شدہ خاتون کے نام کے آگے شوہر کی جگہ والد کے نام سے شاید فرق نہیں پڑتا لیکن پاسپورٹ پر ایسا کرنے سے ویزہ، امیگریشن سمیت کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
وزیر داخلہ کی جانب سے بنائی گئی کمیٹی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ’ہم کمیٹی کو معاونت فراہم کریں گے۔ تاہم اگر شادہ شدہ خاتون کے پاسپورٹ پر شوہر کے بجائے والد کا نام لکھنا ہے تو اس کے لیے پاسپورٹ ایکٹ 1974 میں ترمیم کرنا پڑے گی۔‘

شیئر: