فلم ’دھوم‘ سے متاثر انڈیا کی سب سے بڑی ڈکیتی جس نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا
فلم ’دھوم‘ سے متاثر انڈیا کی سب سے بڑی ڈکیتی جس نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا
پیر 27 مئی 2024 7:45
راحِل مرزا -نئی دہلی
چوروں کے سرغنہ نے اعتراف کیا کہ انہوں نے ’دھوم‘ فلم دیکھ کر اس ڈکیتی کو انجام دینے کا منصوبہ بنایا (فوٹو: انڈین ایکسپریس)
سینما سماج کا آئینہ دار ہوتا ہے اور اس میں وہی پیش کیا جاتا ہے جس کے تخم سماج میں ہوتے ہیں۔ لیکن یہ پورا سچ نہیں ہے بلکہ سینما سماج کو تیار بھی کرتا ہے اور نئے سماج کی بنا بھی ڈالتا ہے۔
اس کی آپ کو ایک نہیں سینکڑوں مثالیں مل جائیں گی۔ لیکن ہم بات انڈیا کے مبینہ اس سب سے بڑے ڈاکے کی کر رہے ہیں جس کے بارے میں ڈاکہ زنوں نے اعتراف کیا کہ انھوں فلم دیکھ کر اس ڈاکے کی منصوبہ بندی کی اور اسے انجام دیا۔
انڈین میڈیا کے مطابق یہ انڈیا کی سب سے بڑی بینک ڈکیتی تھی۔ یہ 30 دسمبر 2007 کی صبح تڑکے کی بات ہے جب ڈاکوؤں نے انڈیا کی جنوبی ریاست کیرالہ کے ملاپورم ضلعے کے چیلمبارا بینک کو لوٹ لیا تھا۔
مودی ویب سائٹ کے مطابق آج سے کوئی 16 یا 17 سال قبل 2007 میں ڈاکے کی اتنی بڑی واردات ہوئی تھی جس کی مثال نہیں ملتی۔ اس نے ریاست کو ہی نہیں پورے ملک کو ہلا کر کے رکھ دیا تھا۔
چوروں کے ایک گروپ نے 80 کلو سونا اور 25 لاکھ روپے کیرالہ کے گرامین (دیہی) بینک سے اڑا لیے تھے۔ کہیں کہیں یہ رقم 50 لاکھ بتائی جاتی ہے۔ اس ڈکیتی کے ملزم کو پکڑنے کے لیے پولیس کی ایک 16 رکنی ٹیم 56 دن کی طویل مہم جوئی کے بعد ہی چین کی نیند سو پائی تھی۔
انھوں نے ملک کے پانچ بڑے شہروں میں جانچ کی اور چھاپے مارے اور آخر کار تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ کے عزم اور ان کے ساتھیوں کی ہمت رنگ لے آئی۔
نیو انڈین ایکسپریس کے مطابق ملاپورم کے ایس پی وجین اور ڈی ایس پی کے کے ابراہیم کی سربراہی میں بنی ٹیم نے آٹھ نو ہفتوں کی جی توڑ کوشش کے بعد کوزی کوڈ کے ایک گھر کو نشان زدہ کیا اور وہاں چھاپہ مارا۔
انھوں نے وہاں سے اس چوری کے سرغنہ جوزف عرف جیسن عرف بابو، اور ایک خاتون سمیت تین دیگر افراد کو گرفتار کیا اور چوری شدہ سونا اور رقم کا 80 فیصد حصہ برآمد کیا۔
یہ کیرالہ کی جرائم کی تاریخ میں اتنی بڑی چوری شدہ نقد اور سونے کی پہلی بازیابی تھی۔
پولیس نے باقی ماندہ اشیاء کا کچھ دنوں میں سراغ لگا لیا کیونکہ ملزمان پہلے ہی اپنے جرائم کا اعتراف کر چکے تھے۔ سرکاری گرفتاری کا باضابطہ اعلان 28 فروری 2008 کو کیرالہ پولیس کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل کے ایس جنگپنگی نے کیا۔
اسے بڑے پیمانے پر کیرالہ پولیس کے ایک بڑے کارنامے کے طور پر دیکھا گیا کہ انہوں نے ریاست کی سب سے بڑی ڈکیتی کو اتنی کم مدت میں حل کیا اور اتنی مقدار میں چوری شدہ مال کی بازیابی بھی۔
لوگوں کو حیرت اس وقت زیادہ ہوئی جب چوروں کے سرغنہ بابو نے اعتراف کیا کہ انہوں نے ’دھوم‘ فلم دیکھ کر اس ڈکیتی کو انجام دینے کا منصوبہ بنایا تھا۔
اس وقت تک اداکار جان ابراہم، ایشا دیول اور ابھیشیک بچن کی ’دھوم‘ اور ریتک روشن، ایشوریہ رائے اور ابھیشیک بچن کی ’دھوم ٹو‘ آ چکی تھی۔ جبکہ دھوم تھری میں عامر خان اہم رول میں نظر آئے جو کہ 2013 میں آئی۔
ریتک روشن کی ’دھوم ٹو‘ تازہ تازہ 2006 میں ریلیز ہوئی تھی اس لیے عین ممکن ہے کہ وہی ان کے لیے ترغیب بنی ہو۔
انگریزی نیوز ویب سائٹ ڈی این اے کے مطابق فلم میں نقب زن ایک بینک کے گراؤنڈ فلور میں سوراخ کرتے ہیں اور نئے سال کی تقریب کے دوران قیمتی سامان لے کر فرار ہو جاتے ہیں۔ لیکن کیرالہ کی چوری کے معاملے میں ان کا منصوبہ ان کے پلان کے مطابق نہیں ہوا کیونکہ انھوں نے فلور کو اڑانے کے لیے جو دھماکہ خیز مواد استعمال کیا تھا وہ پھٹ نہ سکا اس لیے انھوں نے دوسرا راستہ اپنایا۔
ڈکیتی کے اس سچے واقعے کو انڈین بیسٹ سیلر مصنف انربن بھٹا چاریہ نے ’انڈیاز منی ہائیسٹ: دی چیلمبرا بینک روبری‘ نامی کتاب میں تفصیل سے لکھا ہے۔
یہ کتاب انھوں نے اس پولیس افسر کے ساتھ لکھی ہے جنھوں نے ڈاکہ ڈالنے والوں کو پکڑا تھا اور نقد کے ساتھ ساتھ سونے کی بازیابی کرائی تھی۔ کتاب کی تحریر کے وقت تک پی وجین کیرالہ کے آئی جی کے عہدے پر پہنچ گئے تھے۔
اس کتاب کو پینگوئن رینڈم ہاؤس نے 2022 میں شائع کیا ہے۔ اس کا رسم اجرا جنوبی انڈیا کے معروف اداکار موہن لال نے کیرالہ کے شہر کوچی کے لولو انٹرنیشنل شاپنگ مال میں کیا۔
اس کے فوراً بعد یہ اطلاع سامنے آئی کہ اس کتاب پر فلم بنانے کے حقوق فروخت ہو چکے ہیں جس میں اطلاعات کے مطابق ادکار موہن لال افسر پی وجین کا کردار ادا کر رہے ہیں جبکہ مجرم بابو کا کردار فہد فاصل ادا کریں گے۔
جرم کیسے انجام دیا گیا؟
عینی شاہدین کے پاس بھی بہت زیادہ تفصیلات نہیں تھیں۔ چور کیسے کیسے نظر آتے تھے۔ جبکہ مجرموں نے پولیس کو گمراہ کرنے کے لیے ماؤ نوازوں کے نعرے ’جے ماؤ‘ کا استعمال کیا تھا اور وہ انھیں پڑوسی ریاست آندھر پردیش کے دارالحکومت حیدرآباد کی طرف لے جانا چاہتے تھے۔
کیرالہ پولیس کے لیے تحقیقات شروع کرنا ایک چیلنجنگ کام تھا کیونکہ اس کے پاس کوئی ثبوت نہیں تھا اور نہ ہی کوئی لیڈ دستیاب تھی۔ بہت سے دوسری بینک ڈکیتیوں کی طرح اسے اتوار کی صبح انجام دیا گیا تھا اور ڈاکے کی واردات کا علم اگلے دن سوموار کو ہی ہو سکا تھا۔
بہرحال پولیس نے اس علاقے کے لوگوں سے پوچھ گچھ شروع کی اور ان کا ایک سکیچ تیار کرایا۔
کہتے ہیں کہ ہر جرم اپنا سراغ چھوڑتا ہے لیکن ان لوگوں نے تو پولیس کو گمراہ کرنے کے لیے فلمی انداز میں سراغ بنانا شروع کر دیا۔ پولیس حکام کے مطابق مجرموں نے جان بوجھ کر حیدرآباد کے ایک ہوٹل کے کمرے میں لوٹا ہوا ایک کلو سونا چھوڑ دیا اور تحقیقات کو گمراہ کرنے کے لیے انڈیا کے مختلف شہروں سے ٹیلی فون کالز کی تھیں۔
لاکھوں موبائل فونز کے کال کو ٹریک کرنا ایک مشکل امر تھا لیکن پولیس کی ایک ٹیم رات دن اس پر لگی رہی۔ انھوں نے اطلاعات کے مطابق تقریباً 20 لاکھ کالز ریکارڈ کیں اور پھر انھیں ایک فون نمبر مل گیا جس سے دوسرے لوگوں کو کال کی جا رہی تھی، اور اتفاق سے یہ اس گروپ کے سرغنہ کا فون تھا جو وہ اپنے ساتھیوں سے رابطے میں رہنے کے لیے استعمال کر رہا تھا۔ انہوں نے اس دوران اس موٹر گاڑی کی تلاش میں بھی کوئی ڈھائی ہزار ماروتی کاروں کا جائزہ لیا تاکہ یہ پتا چلایا سکے کہ انھوں نے کون سی گاڑی استعمال کی تھی۔
اور پھر انھوں نے جب بابو کو ایک خاتون اور تین ديگر افراد کے ساتھ گرفتار کیا تو ساری گتھیاں ایک ساتھ کھل گئیں اور اس طرح پولیس نے فلم کے برعکس ایک ناقابل یقین کامیابی حاصل کی۔