Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’شرما ہوٹل‘ جس کی پراسرار کہانی نے لوگوں کو خوف میں مبتلا رکھا

پولیس نے دری اٹھانے کا حکم دیا تو نیچے سے کنواں برآمد ہوا جس میں انسانی اعضا موجود تھے (فائل فوٹو: اے پی)
کہتے ہیں کہ شیر جب آدم خور ہو جاتا ہے تو اُسے دوسرے جانوروں کا گوشت پسند نہیں آتا۔
اسی طرح سنہ 1964 میں انڈیا کی شمالی ریاست بہار کے ’گیا‘ شہر کے ایک ہوٹل کے کھانے کا بہت شہرہ تھا۔ دُور دُور سے لوگ وہاں مٹن یعنی بکرے کا گوشت کھانے آتے۔ یہ ہوٹل ’شرما ہوٹل‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔
یہ ایک عام سا ہوٹل تھا جہاں رات کو ٹھہرنے کا انتظام بھی تھا۔ اسی زمانے میں گیا سے بعض افراد کی گمشدگی کی خبریں بھی آنے لگی تھیں، تاہم لاپتہ افراد کا کوئی سُراغ نہیں مل پا رہا تھا۔
اُس زمانے میں ’گیا‘ کے کوتوالی تھانے میں مرزا اسرافیل بیگ سب انسپکٹر کے عہدے پر تازہ تازہ تعینات ہوئے تھے اور اُن کو ایک شخص کی گمشدگی کا کیس سونپا گیا تھا۔
شکایت میں اتنا کہا گیا تھا کہ ایک تاجر کا بیٹا ’گیا‘ شہر پہنچا تھا اور پھر اُس کے بعد سے وہ لاپتہ ہے۔ انہوں نے اُس کے متعلق بس سٹینڈ، ریلوے سٹیشن اور اس زمانے کے معمولی سے معمولی ہوٹلوں میں بھی تفتیش کی لیکن انہیں کوئی سُراغ نہیں ملا۔
اتفاق سے مئی کے پہلے ہفتے میں کچھ لوگ ’شرما ہوٹل‘ میں دوپہر کا کھانا کھانے پہنچے۔ انہوں نے وہاں کے مشہور مٹن کی فرمائش کی۔ دُور سے کھانا کھانے کے لیے آنے والوں نے جوں ہی کھانا شروع کیا انہیں کھانے میں ایک انسانی اُنگلی ملی۔
اُن کے ہوش گم ہو گئے اور انہوں نے ہنگامہ برپا کر دیا۔ یوں بھیڑ جمع ہوتی گئی اور بات پولیس کے کانوں تک پہنچ گئی۔ جب پولیس تفتیش کرنے پہنچی تو وہاں انہیں کچھ لاوارث جُوتے اور چپل بھی ملے۔
پولیس نے ’شرما ہوٹل‘ کے مالک اور اُن کے بیٹے کو حراست میں لے کر پکے ہوئے گوشت کو ضبط کر لیا۔ اس واقعے کی خبر جب عام ہوئی تو پورے شہر میں خوف و ہراس پھیل گیا۔
اس بار جب ہم اپنے گاؤں گئے تو اس بارے میں اپنے نانا مرزا مقصود عالم بیگ سے دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ ’ہاں اسرافیل بھائی اس وقت وہیں تعینات تھے اور انہیں اس کی وجہ سے کافی شہرت بھی ملی تھی اور اُن کی شاید ترقی بھی ہوئی تھی۔‘
بہرحال انہوں نے اس پر زیادہ روشنی نہیں ڈالی کہ کیس کس طرح سُلجھا اور یہ سب کب سے ہو رہا تھا۔ اب جبکہ مرزا اسرافیل بیگ اس دنیا میں نہیں تو مجھے اس ہوٹل میں ہونے والے جرم کے بارے میں جاننے کا خیال پیدا ہوا۔

پولیس کو ہوٹل میں کچھ لاوارث جُوتے اور چپل ملے تھے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

اور جب ہم نے انٹرنیٹ پر سرچ کیا تو پتا چلا کہ ’آج تک‘ ٹی وی چینل نے آج سے کوئی 15 سال قبل اس واقعے پر ’بھوک‘ نام سے ایک سیریز چلائی تھی جس میں واقعے کو ڈرامائی انداز میں پیش کیا گیا تھا۔
یہ واقعہ دراصل انڈیا میں ٹھگی کا ایک نیا رُوپ تھا۔ بعد میں یہ بات سامنے آئی کہ ’شرما ہوٹل‘ کے مالک دیوندر شرما اور اُن کے بیٹے وشانت شرما وہاں رُکنے والے مسافروں کا سامان لوٹ لیتے تھے۔
یہ لوگ اپنی لُوٹ مار کو راز رکھنے کے لیے ہوٹل میں ٹھہرنے والے مسافروں کو قتل بھی کر دیتے تھے۔ یہاں تک کہ اُن کا گوشت پکا کر ہوٹل میں آنے والے گاہکوں کو پیش کرتے تھے۔
یہ واقعات کئی دنوں سے ہو رہے تھے، تاہم اس کے بارے میں کوئی حتمی رپورٹ سامنے نہیں آئی تھی، صرف دونوں باپ بیٹا اور ہوٹل سٹاف کے چند خاص ملازمین ہی اس کے بارے میں جانتے تھے۔
سب انسپکٹر اسرافیل بیگ نے جب ہوٹل کی تلاشی لی تو انہیں کوئی خاص مشتبہ چیز نظر نہیں آئی بلکہ ایک دری کے گرد کئی چپل پڑے تھے جبکہ فرش پر خون کے دھبے دھوئے جا چکے تھے۔ 
مکان کے عقب میں ایک جگہ پُرانی سی دری بچھی تھی۔ جب انہوں نے اسے اٹھانے کا حکم دیا تو اس کے نیچے سے ایک کنواں برآمد ہوا جہاں جانوروں کی باقیات کے علاوہ انسانی اعضا بھی موجود تھے۔

ہوٹل کا مالک عمر قید کی سزا کاٹنے کے بعد گمنامی کے عالم میں ہی اس دنیا سے رخصت ہو گیا (فائل فوٹو: اے ایف پی)

’آج تک‘ کی رپورٹ کے مطابق شرما اور اُن کے ساتھیوں نے لاشوں کو ٹھکانے لگانے کا جو طریقہ اپنایا تھا وہ اپنے آپ میں شاید دنیا میں انوکھا تھا۔ 
وہ ایک کمرے میں لاش کی بوٹیاں بناتے اور انہیں پکا کر دوسرے مسافروں کو پیش کر دیتے تھے۔
’آج تک‘ کے مطابق اس واقعے کے بعد وہاں موجود رہائشی نریندر کمار اگروال نے بتایا کہ ہنگامے کے دوسرے دن ہوٹل کے پاس موجود میونسپل نالی میں خون بہتا دیکھا گیا۔ 
جب یہ خبر ایک گمشدہ شخص کے والد کو ملی تو انہوں نے وہاں پر موجود کوتوالی تھانے میں رپورٹ درج کرائی۔
اسرافیل بیگ کو پہلے سے ہی ’شرما ہوٹل‘ پر شکوک و شبہات تھے۔ نریندر کمار کے مطابق پولیس فوراً ہی حرکت میں آئی اور انہوں نے سختی سے پوچھ گچھ کی تو ان دونوں (باپ اور بیٹے) نے کئی قتل کرنے کا اعتراف کر لیا۔
صحافی تسنیم حیدر نے بتایا کہ اس غیر معمولی واقعے نے ’گیا‘ کے رہائشیوں کے دلوں میں دہشت کا ماحول پیدا کر دیا اور یہ واقعہ ایک زمانے تک لوگوں کی خوفناک یادوں میں بسا رہا۔
رپورٹ کے مطابق ہوٹل کے مالک کو بعد میں عدالت نے عمر قید کی سزا سنائی اور وہ اپنی سزا کاٹنے کے بعد گمنامی کے عالم میں ہی اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔

شیئر: