’ابھی زندہ ہوں مرا نہیں‘، معروف پشتو کامیڈین ’میراوس‘ ہسپتال میں زیرِعلاج
جمعہ 31 مئی 2024 19:21
فیاض احمد، اردو نیوز۔ پشاور
پشتو زبان کے لیجنڈ مزاحیہ فنکار میراوس کی موت کی خبر سوشل میڈیا پر زیر گردش رہنے کے بعد ہسپتال میں زیرِعلاج فنکار نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ ’ابھی زندہ ہوں۔‘
سوشل میڈیا پر خیبر پختونخوا کے نامور پشتو کامیڈین میراوس کے انتقال کی خبروں نے پشتو شوبز انڈسٹری سے وابستہ افراد اور اُن کے مداحوں کو افسردہ کردیا تھا مگر گزشتہ رات حیات آباد میڈیکل کیمپلیکس سے میراوس کی ویڈیو سامنے آ گئی۔
ویڈیو پیغام میں انہوں نے اپنی موت کی خبر پر کہا کہ ’یہ دیکھیں میں زندہ ہوں ابھی مرا نہیں، مردہ تو نہیں بول سکتا ، اگر میں مرگیا ہوتا تو کیا میں باتیں کرتا۔‘
میراوس نے انتقال کی خبریں پھیلانے والوں پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ ’میں بہت جلد صحتیاب ہو کر لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیروں گا۔‘
انہوں نے مداحوں سے اپنی صحتیابی کے لیے دعاؤن کی درخواست بھی کی۔
میراوس تنگی وال کون ہے؟
میراوس کا شمار پشتو شوبز انڈسٹری کے نامور مزاحیہ فنکاروں میں ہوتا ہے۔
انہوں نے پشتو سٹیج، تھیٹر، ریڈیو، ٹیلی وژن کے علاوہ بے شمار سی ڈی ڈراموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔
پشتو زبان کے فنکار سجاد خلیل نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’میراوس ایک عظیم انسان اور بہترین اداکار ہیں۔ میراوس نے ستر کی دہائی میں فن کا آغاز کیا۔ انہوں نے 6 ہزار سے زائد آڈیو ٹیپ کیسٹ میں پشتو کامیڈی ریکارڈ کروائے۔ اسی طرح سینکڑوں ڈراموں میں بھی کام کیا۔‘
آرٹسٹ سجاد خلیل نے بتایا کہ ’میراوس نے پاکستان ٹیلی وژن کے نامور مزاحیہ فنکاروں کے سامنے سٹیج پر پُرفارم کیا۔ ایک بار معین اختر نے میراوس خان صاحب کہہ کر اپنے پاس بلایا اور ان کی پرفارمنس کی تعریف کی۔‘
سجاد خلیل کے مطابق میراوس سولو سٹینڈنگ کامیڈی کے بادشاہ ہیں، وہ بغیر سکرپٹ کے گھنٹوں تک ڈرامےکی ریکارڈنگ کرتے تھے اسی لیے انہیں پشتو انڈسٹری کا معین اختر کہا جاتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ میراوس نے ہمیشہ نئے فنکاروں کی حوصلہ افزائی کی، متعدد فنکاروں کو کراچی، دبئی اور ملائشیا کے سٹیج شوز میں لے گیا اور ان کو کام دلوایا۔
فنکار سجاد خلیل نے بتایا کہ اپنے گاؤں میں دشمنی نے میراوس کی زندگی کو متاثر کیا اور وہ کئی برس تک گھر سے دور رہے اور بیماریوں میں مبتلا ہو گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ پشتو انڈسٹری کا یہ بڑا فنکار گزشتہ کئی دنوں سے حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں زیرعلاج ہے اور کسمپرسی کی حالت میں ہے لیکن حکومت کا کوئی نمائندہ یا محکمہ ثقافت کا کوئی عہدیدار اُن کی عیادت تک کے لیے نہیں گیا۔