کھلی ہوا میں پلنے بڑھنے سے جسم چاق و چوبند رہتا ہے،جسمانی کام کاج کرنے سے قوت مدافعت میں اضافہ ہوتا ہے، آدمی نڈر اور بہادر بنتا ہے
* * *اُم مزمل ۔ جدہ* * *
وہ 50ویں روٹی تنور سے نکالنے کے بعد کہنے لگی کہ ساری روٹیو ں کو ایک ایک چنگیر پر رکھ کر ایک ایک پھانک آم کے اچارکی رکھتے جانا، پھر لسی کی ایک ایک تھیلی کے ساتھ،وہ اسٹرا جوبازار سے منگوائی ہے، وہ بھی دیتے جانا۔ پڑوسی کے دونوں بچوں نے کہا کہ خالہ اماں! آپ روز ہی ایک بات دہراتی ہیں۔ ہم ہر مسافر کو اسی طرح روزانہ پہنچاتے ہیں۔ وہ دعا دیتے ہوئے بولیں کہ تم سب بچے اپنے والدین کیلئے صدقہ جاریہ بنوگے، ان شاء اللہ۔ باہر سے چند بچے دوڑتے ہوئے آئے اور کہنے لگے کہ جب ہم لوگ اسٹیشن سے واپس آئیں گے تو پھر ہماری روٹی بھی تیار ہوگی ناں! وہ جلدی جلدی پیڑے بناتی ہوئی یقین دلاتے ہوئے کہنے لگی کہ کیوں نہیں، تمہارے ہم جماعت کا آج قرآن شریف مکمل ہوگیاہے یعنی وہ حافظ کے رتبے پر پہنچ گئے ہیں۔ بچوں کے ہمراہ پچیسیوں طلباء وطالبات کا گروہ وہاں پہنچا تو اس نے خوش ہوتے ہوئے خوش آمدید کہا اور روایتی مہمان داری کے طور پر کہا کہ آج ہمارے گاؤں میں بڑی دعوت ہے۔ بچے نے قرآن کریم حفظ کیا ہے اور جب کوئی بچہ حافظ کے رتبے پر پہنچ جاتا ہے تو پھر پوری برادری خوشی کے طور پر وہ دن تہوار کی طرح مناتی ہے۔ آپ لوگ بھی ہماری خوشی میں شریک ہوجائیں۔ وہ گرم جوشی کے مظاہرے پر خوش ہوکر بتانے لگی کہ ہم نے آپ کی بنائی ہوئی روٹی ، اچار کے ساتھ مزے لیکر ختم کی۔
اب آپ لوگوں سے ملنے آئے ہیں۔ کم عمر بچوں نے اپنا دسترخوان بچھا لیا تھا۔ دور موجود لوگ بھی کھانا ختم کرنے کے بعد قہوہ کی فرمائش کررہے تھے جو ان کے قریب بیٹھے تھے۔ تنور پر چائے کیلئے دیگ چڑھا دی گئی تھی کہ پوری بستی کے لوگ ہی اس دن فرمائش کرتے تھے جب کوئی اجتماعی خوشی منائی جاتی تھی۔ گروپ میں موجود لڑکوں نے اس بہترین بستی کے لوگوں سے ملاقات کی اور حال چال پوچھنے کے بعد پڑھائی لکھائی کے سلسلے کے بارے میں معلوم کیا تو پتہ چلا کہ یہ لوگ اپنے بچوں کو مدرسے میں پڑھاتے ہیں پھر جب مڈل کا امتحان دینے کی عمر کو پہنچ جاتے ہیں تو اس وقت اسکول کا امتحان دلاکر شہر کے اسکول میں داخل کرادیتے ہیں۔ جب تک ان کے یہاں کا ہر بچہ حافظ ِ قرآن کریم بن چکا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم لوگ اپنی زمینوں پر اگائے اناج ، سبزیاں اور پھل استعمال کرتے ہیں۔ خوراک کا معاملہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اسکا انتظام اپنی ہی زمین پر کرنا چاہئے۔ جو لوگ جہاں رہتے ہیں اسی مٹی، ہوا اور پانی کے مرکب سے پھلتے پھولتے ہیں لہٰذا ان ہی جگہوں کی نباتات ان کے لئے بہترین ہوتی ہیں۔
جانوروں سے جو فوائد حاصل کئے جاتے ہیں وہ بھی مقامی ہونے چاہئیں۔ وہ طلباء بزرگوں کی بات سن تو رہے تھے مگر سوالات بھی ذہن میں گردش کررہے تھے کہ آجکل دنیا گلوبل ولیج بن گئی ہے ۔ہر جگہ ایک سے ایک چیز پوری دنیا سے منگوا سکتے ہیں بلکہ منگواتے ہی رہتے ہیں ۔ خوراک، ادویات، مشروبات اور ڈھیروں چیزیں جو انسانی ضروریات میں شامل ہیں۔ ایک بزرگ نے کہا کہ آج ہم نے اپنی عمر گزارنے کے بعد جو سبق سیکھا ،تمہیں بتا دیا کہ جو لوگ اپنے رزق، آب و دانے کا اپنی مٹی، اپنی زمین پر اپنے ہاتھ میں انتظام رکھتے ہیں وہ دوسروں کے محتاج نہیں ہوتے ۔وہ اپنی زمین پر اپنی محنت سے لگائے ایک ایک پھلدار درخت سے پھل کھاتے ہوئے شکر کے کلمات ادا کرتے ہیں او راس سے میسرآنے والی قوت کو بہترین کاموں میں صرف کرتے ہیں۔ کھلی ہوا میں پلنے بڑھنے سے جسم چاق و چوبند رہتا ہے۔ جسمانی کام کاج کرنے سے قوت مدافعت میں اضافہ ہوتا ہے۔ آدمی نڈر اور بہادر بنتا ہے۔ نصف صدی گزرنے کے بعد آج وہ سب ہی ایک جگہ جمع ہوئے تھے۔ آپس میں بڑھاپے کی خوش و خرم زندگی گزارتے ہوئے وہ ایک دوسرے کو بستی کے لوگوں کے مشورے پر عمل کرنا یاددلارہے تھے کہ انہوں نے کتنا مفید مشورہ ہمیں دیا تھا۔
آج ہماری بسائی ہوئی بستیوں میں شہر کے گرد ویسی ہی فصل موجود ہے جو پہلے زمانے کے لوگ بناتے تھے اور ہماری اس مضبوط چہار دیواری کے اندر پورا شہر آباد ہے جس میں چٹانیں بھی ہیں اور اس میں صحت افزاء صاف و شفاف آبشار بھی ہیں۔ لوگوں میںیہ شوق اور جذبہ اُجاگر کرنا چاہئے کہ اپنا وطن آباد کرو ، زمین پر اپنا رزق اگاؤ اور اپنی ضرورتوں کو پورا کرو۔ جب اپنے لوگ اجتماعیت کا احساس کرلیتے ہیں توخوشحالی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔ وطن میں اور قوم میں ایسی ہی خوشحالی آتی ہے جس کا درس ہم طلباء وطالبات کو نصف صدی پہلے کسی دانشور نے دیا تھا۔
آج ہم پر کوئی بیرونی دباؤ نہیں۔ ان کے یہاں جاکر اپنی خدمات انجام دینے کی ضرورت نہیں۔ آج ہمارا ملک خود اتنا طاقتور ہے کہ ایک ہزار کی درخواست پر اجتماعیت کا ثبوت دینے کے لئے ایک لاکھ فرزندانِ وطن پہنچ جاتے ہیں۔ کسی کی مجال نہیں کہ ہمارا رز ق ہم سے چھین سکے۔ بلا شبہ انسانوں کی طرح دوسرے جاندار وں میں بھی اجتماعیت فائدہ مند ہوتی ہے۔