Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

صحت، کسان اور ہمّت کارڈ: ’ڈیجیٹل سیاست‘ کا عوام کو کتنا فائدہ؟

حکومت پنجاب نے صوبے میں ہمت کارڈ اور کسان کارڈ لانچ کیے ہیں۔ فوٹو: فیس بک مریم نواز
پاکستان کی سیاست میں اس بات کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے کہ کون سی سیاسی جماعت عوامی مفاد میں زیادہ کارگر رہی ہے۔ ہر سیاسی جماعت کے خیال میں ان ہی کی حکومت نے غیر معمولی کام کیے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کی سابق حکومت جب وفاق، پنجاب اور خیبرپختونخوا میں صحت کارڈ منصوبے کو اپنا سب سے بڑا کارنامہ بتاتی ہے تو وہیں ن لیگ کا دعویٰ ہے کہ اس کا باقاعدہ آغاز تو نوازشریف کی حکومت میں ہوا تھا۔ 
تاہم بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام شروع کرنے والی پیپلزپارٹی اور اس ’ڈیجیٹل سیاست‘ کی بانی جماعت نے فی الحال صوبائی سطح پر سندھ میں کوئی نیا کارڈ نہیں متعارف کروایا شاید وہ ایک مرتبہ پھر وفاقی حکومت میں آنے کا انتظار کر رہی ہے۔
جبکہ دوسری جانب صوبہ پنجاب میں مریم نواز کی حکومت نے بیک وقت کسان کارڈ اور ہمت کارڈ کے نام سے دو پروگرام لانچ کر دیے ہیں۔ 
کسانوں کو کسان کارڈ سے ڈیڑھ لاکھ روپے کا آسان قرضہ ملے گا تو ہمت کارڈ سے معذور افراد کو ماہانہ 7500 روپے کا وظیفہ دیا جائے گا۔ یہ بالکل بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام کی طرز پر ہوگا۔
پنجاب حکومت کے مطابق پہلے فیز میں 30 ہزار سپیشل افراد کے اعداد و شمار اکھٹے کر لیے گئے ہیں جن کو اگلے تین سال ہر مہینے 7500 روپے کا وظیفہ گھر بیٹھے ملے گا۔ 
یہ ڈیجیٹل سیاست صرف کارڈز تک محدود نہیں ہے بلکہ سیاسی حکومتوں کی طرف سے مختلف موبائل ایپلیکیشنز بنانے کا رجحان بھی بہت تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صرف پنجاب میں 270 سرکاری خدمات مختلف اپلیکشنز کے ذریعے دی جا رہی ہیں اور ان میں سب سے زیادہ تیزی 2012 سے 2017 میں آئی جب ڈیجیٹلائزیشن پر سب سے زیادہ کام ہوا۔

صوبہ پنجاب میں کسان کارڈ پر ڈیڑھ لاکھ روپے کا آسان قرضہ ملے گا۔ فوٹو: اے ایف پی

الیکٹرانک ایف آئی آر سے لے کر ہوٹل آئی اور پنک بٹن جیسی موبائل ایپلیکیشنز دستیاب ہیں جو حکومت نے متعارف کروائی ہیں۔ 
سوال یہ ہے کہ اس ڈیجیٹلائزیشن سے عوام کو کس حد تک فائدہ پہنچا رہا ہے؟ اس حوالے سے مختلف آرا موجود ہیں۔ جو لوگ تو مستفید ہو رہے ہیں ان کے خیال میں اس سے بہتر کام ہو ہی نہیں سکتا۔ 
لاہور سے تعلق رکھنے والے 30 سالہ نوجوان ابو بکر کو حال ہی میں ایک صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔
اُردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ وہ لوئر مال کے اشارے پر کھڑے تھے کہ اچانک دونوں طرف سے ٹریفک وارڈنز آئے اور گاڑی سائیڈ پر کرنے کو کہا۔
’میں نے گاڑی سائیڈ پر لگائی تو انہوں نے بتایا کہ آپ کی گاڑٰی کے 22 ای چلان ہو چکے ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے مجھے اپنی ڈیوائس پر بھی دکھائے۔ ایک دفعہ تو سترہ ہزار کے چالان دیکھ کر مجھے پسینہ آ گیا۔‘ 
سیف سٹی کیمرے نے آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی مدد سے سسٹم کو آگاہ کیا تھا کہ ایک ڈیفالٹر گاڑی گزر رہی ہے اور وہ گاڑی ابوبکر کی تھی۔
’یہ گاڑی بینک کی ملکیت تھی اور مجھے کبھی بھی چالان موصول نہیں ہوا نہ فون پر اور نہ ہی ایڈرس پہ۔ ٹریفک وارڈن نے مجھے اسی وقت ای پے کے نام سے ایپلیکیشن انسٹال کروائی اور کہا کہ میں صرف اپنی گاڑی کا نمبر ڈال کر اپنے چالان نہ صرف دیکھ سکتا ہوں بلکہ کسی بھی آن لائن بنکنگ سروس سے اسی ایپلیکشن سے ادا بھی کر سکتا ہوں۔ تو میں نے پھر خود ہی اپنے موبائل سے سارے چالان ادا کیے۔ اور نام ڈیفالٹ لسٹ سے نکل گیا۔‘ 

پنجاب حکومت 270 ایپس کے ذریعے مختلف خدمات دے رہی ہے۔ فوٹو: مریم نواز فیس بک

خیال رہے کہ پنجاب حکومت کی تمام سرکاری فیسز چاہے وہ پولیس چالان ہو، اشٹام پیپر یا اور کوئی ادائیگی سب کچھ ایک ہی ایپ سے ہو جاتا ہے۔ 
تاہم حال ہی میں لانچ ہونے والے کسان کارڈ کے حوالے سے کسانوں کے بہت زیادہ تحفظات ہیں۔
ضلع مریدکے سے تعلق رکھنے والے محمد شفقت نے اپنے تحفظات کا ذکر کرتے ہوئے کہا ’مجھے دو مسئلے ہیں ایک تو اس کارڈ کے لیے چھ ایکڑ کے کسان کو منتخب کیا گیا ہے اور صرف ڈیڑھ لاکھ روپے کا قرضہ دیا جائے گا جو چاول کی فصل کے لیے ایک مہینے کا بجلی کا بل ہے۔ اگر حکومت نے واقعی کسانوں کا کوئی فائدہ کرنا ہوتا تو اس ریلیف کا تعلق زمینی حقائق سے ہونا چاہیے تھا۔‘
’اب خبریں تو لگ رہی ہیں کہ کسان کارڈ بن گیا ہے لیکن اس کے اندر کچھ نہیں ہے۔ کسانوں کو بجلی ہی سستی دے دیں فلیٹ ریٹ پر تو سارے کارڈ بیچ میں آ جائیں گے۔‘
اقتصادی امور کے ماہر ڈاکٹر قیس اسلم کا کہنا ہے کہ حکومت بہت زیادہ معاشی دباؤ میں جکڑی ہوئی ہے لیکن ساتھ میں سیاست کو بھی زندہ رکھنا ہے۔
’ایسا نہیں ہے کہ ان چیزوں کا فائدہ نہیں ہوتا۔ کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی تو ضرور فائدہ اُٹھا رہا ہوتا ہے۔ لیکن پنجاب کی ایک بڑی آبادی ابھی موبائل کے استعمال سے اس قدر واقف نہیں ہے۔ سمارٹ فون سے بات ابھی ٹک ٹاک تک ہی پہنچی ہے۔ اس سے کام کیسے لیا جائے ابھی اس کی نوبت آنی ہے۔  ٹھوس بنیاد تو اس وقت بنے گی جب ترقی اور خوشحالی کے ساتھ قدرتی طور پر ڈیجیٹلائزیشن ہو گی جیسے انڈیا میں ہو رہا ہے۔ ہمارے ہاں تو صرف سیاسی فریم لگتے ہیں۔‘

شیئر: