Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

واٹس ایپ کے 15 سال، دنیا کو ایک دوسرے سے منسلک کرنے کے خواب سے تعبیر تک

سنہ 2013 تک واٹس ایپ کے استعمال کنندگان کی تعداد 20 کروڑ سے تجاوز کر چکی تھی۔ (فوٹو: روئٹرز)
خواب پورے نہ ہونے کے ڈر سے خواب دیکھنا چھوڑ دینا ایسا ہی ہے جیسے موت کے خوف سے آپ زندگی سے منہ موڑ لیں۔ خواب دیکھنا سانس لینے کی طرح ہی ضروری ہے کہ سانس لینے سے آپ زندہ رہتے ہیں اور خواب دیکھنے سے زندگی کو اک نیا مفہوم ملتا ہے۔
ان دونوں نے بھی ایک خواب دیکھا تھا۔ فیس بک میں ملازمت کرنے کا خواب۔ درخواست دی مگر رَد کر دی گئی۔
جین کوم اس وقت 16 برس کے تھے جب وہ اپنی والدہ کے ساتھ سوویت سوشلسٹ ریپبلک یوکرین سے امریکہ آئے، اور کیلیفورنیا میں ایک سوشل سکیورٹی پروگرام کے تحت ان کو دو کمروں کا ایک چھوٹا سا اپارٹمنٹ الاٹ ہوا۔ خیال تھا کہ ان کے والد جلد امریکہ آ جائیں گے مگر یہ ممکن نہ ہو سکا اور وہ یوکرین میں ہی چل بسے۔ ان کی ماں بے بی سٹر اور ازاں بعد ایک گروسری سٹور میں کلینر کا کام کرتی رہیں۔ وہ چند ہی سال بعد سنہ 2000 میں کینسر کے موذی مرض کا مقابلہ کرتے ہوئے چل بسیں۔
جین کوم کے لیے زندگی آسان نہ تھی مگر انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور بالآخر ارنسٹ اینڈ ینگ لمیٹڈ میں انفراسٹرکچر انجینیئر کے طور پر ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ یہیں ان کی ملاقات برائن ایکٹن سے ہوئی۔ ان دونوں نے ایک ساتھ ’یاہو‘ میں ملازمت اختیار کی اور اگلے نو برس تک اس ادارے سے منسلک رہے۔ ستمبر 2007 میں دونوں نے اس ملازمت کو ایک ساتھ خیرباد کہا اور ایک سال تک جنوبی امریکہ کی سیاحت اور فرسبی کے کھیل میں اپنی مہارت دکھاتے رہے۔
طویل چھٹیوں سے واپس لوٹے تو فیس بک میں ملازمت کے لیے درخواست دی۔ فیس بک میں کام کرنا خواب تھا مگر پورا نہیں ہوا۔ اس وقت برائن ایکٹن اور جین کوم نے اپنی اپنی راہ لی۔
ان دنوں سٹیو جابز آئی فون بنا چکے تھے۔ جین کوم نے بھی جنوری 2009 میں آئی فون خریدا تو ان پر یہ ادراک ہوا کہ سات ماہ قبل لانچ کیے گئے ایپ سٹور کے باعث ایپ تخلیق کرنے کی مکمل طور پر ایک نئی صنعت وجود میں آ چکی ہے۔ اس وقت جین کوم نے ایک ایپ شروع کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کا نام واٹس ایپ رکھا جو بہت حد تک ’واٹس اَپ‘ کی طرح سنائی دیتا ہے جس کے اُردو میں معنی ’کیا ہو رہا ہے؟‘ کے ہیں۔ جین نے ایک ہفتے بعد ہی اپنی 33 ویں سالگرہ کے موقع پر 24 فروری 2009 کو واٹس ایپ کے نام سے کیلیفورنیا میں کمپنی رجسٹرڈ کروا لی اور یہ ایپ اسی برس اگست میں آئی فون کے ایپ سٹور پر جاری کر دی گئی۔

یان کوم نے اپنی 33 ویں سالگرہ کے موقع پر 24 فروری 2009 کو واٹس ایپ کے نام سے کیلیفورنیا میں کمپنی رجسٹرڈ کروا لی۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)

واٹس ایپ ابتدا میں کامیاب نہیں ہو سکی مگر کوم نے ہمت نہیں ہاری۔ انہوں نے اس وقت بھی خواب دیکھنا نہیں چھوڑے تھے جب فیس بک میں ملازمت نہیں ملی تھی اور وہ اب بھی پرامید تھے، اور جلد ہی ان کے علاقے میں لوگ ایس ایم ایس کی جگہ واٹس ایپ کو پیغام رسانی کے لیے استعمال کرنے لگے۔ ایکٹن اس وقت تک بے روزگار تھے، کوم کے اصرار پر نئی کمپنی میں شمولیت اختیار کر لی اور کمپنی کے شریک بانی بن گئے، کیوںکہ انہوں نے کمپنی کے لیے اڑھائی لاکھ ڈالر کی ابتدائی فنڈنگ کا بندوبست کیا تھا اور یہ کچھ آسان نہیں تھا مگر ایکٹن ’یاہو‘ کے زمانے کے اپنے پانچ دوستوں کو یہ سرمایہ کاری کرنے پر قائل کرنے میں کامیاب رہے تھے۔
جین کوم کی اس ایپ نے کمیونیکیشن کی دنیا میں ایک ایسا انقلاب برپا کیا جس نے پوری دنیا کو متاثر کیا۔ واٹس ایپ کے آغاز کے دو سال بعد چین کی پیغام رسانی کی مقبول ایپ ’ووئی چیٹ‘ لانچ ہوئی۔
سنہ 2013 تک واٹس ایپ کے استعمال کنندگان کی تعداد 20 کروڑ سے تجاوز کر چکی تھی اور اس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا تھا۔ اس دوران واٹس ایپ نے بہت سی تبدیلیاں دیکھیں، جیسے تصویریں بھیجنا ممکن ہوا جبکہ وائس مسیجنگ کا آغاز ایک انقلابی پیش رفت تھی۔ ایک اور اہم پیش رفت یہ ہوئی کہ واٹس ایپ کے پہلے ایک سال کے دوران اس کو سبسکرائب کرنے کی سالانہ ایک ڈالر فیس ختم کر دی گئی اور اس کی تمام خدمات بلامعاوضہ ہو گئیں۔

مارک زکربرگ نے ایک روز یان کوم کو رات کے کھانے پر مدعو کیا اور واٹس ایپ خریدنے کی پیشکش کی۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)

اور وہ جین کوم جنہیں کبھی فیس بک نے ملازمت دینے سے انکار کیا تھا، اسی فیس بک کے مالک مارک زکربرگ نے ایک روز انہیں رات کے کھانے پر مدعو کیا اور واٹس ایپ خریدنے کی پیشکش کی۔ یوں 10 روز بعد فیس بک کی جانب سے واٹس ایپ کو 19 ارب ڈالر میں خریدنے کا معاہدہ طے پا گیا جو فیس بک کی اب تک کی سب سے بڑی کاروباری ڈیل قرار دی جاتی ہے۔ جین کوم فیس بک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں شامل ہو گئے اور آنے والے برسوں میں واٹس ایپ کی حیران کن ترقی کا مشاہدہ کرتے رہے۔
یاہو نیوز پر شائع ہونے والے ایک مضمون میں مصنف پرانوو ڈکشت لکھتے ہیں کہ ’سنہ 2014 میں ٹیکسٹ میسیجنگ ان چند چیزوں میں سے ایک تھی جو آپ واٹس ایپ پر کر سکتے تھے۔ اس پر کوئی ایموجی نہیں تھی جس کے ذریعے آپ اپنا ردعمل ظاہر کر سکتے، نہ ہی آپ ایچ ڈی ویڈیوز، جی آئی ایف یا سٹیکرز بھیج سکتے تھے، اس سال کے اختتام تک آپ کو اپنا میسیج پڑھے جانے کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہوتا تھا اور وائس یا ویڈیو کالنگ کی سہولت بھی دستیاب نہیں تھی۔ اور اس کے باوجود دنیا بھر میں 50 کروڑ سے زیادہ لوگ واٹس ایپ استعمال کر رہے تھے، وہ موبائل کمپنیوں کو ایک ایک میسیج پر رقم ادا کرنے کی بجائے دوستوں اور رشتہ داروں کو کوئی رقم ادا کیے بغیر لاتعداد میسیجز کر رہے تھے۔‘
رواں برس واٹس ایپ کو لانچ ہوئے 15 برس سے زیادہ ہو چکے ہیں۔ یہ اب صرف عام لوگوں کی زندگی کا ہی اہم ترین حصہ نہیں بلکہ یہ انڈیا اور برازیل سمیت بہت سے ملکوں میں سیاسی جماعتوں کی پروپیگنڈا مشینری کا اہم ترین جزو بن چکی ہے۔

ہفنگٹن پوسٹ کے مطابق ’دنیا بھر میں ایک ارب افراد واٹس ایپ کو روزانہ استعمال کرتے ہیں۔‘ (فوٹو: روئٹرز)

دنیا بھر میں کروڑوں کاروبار واٹس ایپ کے ذریعے صارفین تک رسائی حاصل کر رہے ہیں، یہ لوگوں اور کاروباری اداروں کو رقم ارسال کرنے کا ایک اہم ذریعہ بن چکی ہے اور اشاعتی ادارے، برانڈز اور انفلوئنسرز اسے اپنے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ اور یہ اب دو مختلف دنیائوں میں رہنے والوں کے لیے رابطے کا ایک اہم ترین ذریعہ ہے۔
ہفنگٹن پوسٹ کے برطانوی ایڈیشن میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق ’دنیا بھر میں ایک ارب افراد اس ایپ کو روزانہ استعمال کرتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ دنیا میں 25 ممالک ہی ایسے ہیں جہاں واٹس ایپ میسیجنگ ایپس میں سب سے آگے نہیں ہے۔ برطانیہ کی 58 فی صد آبادی اپنے فون پر واٹس ایپ استعمال کرتی ہے، یوں یہ ملک میں فیس بک مسینجر سے بھی زیادہ مقبول چیٹ سروس ہے۔ دوسری سروسز جیسا کہ وائبر نے مارکیٹ میں اسی طرح اثرانداز ہونے کی کوشش کی مگر وہ زیادہ دیر اپنی بقا قائم نہیں رکھ سکی۔‘
واٹس ایپ اگرچہ ایک فرد کے خواب کی تعبیر تھی مگر یہ اب دنیا بھر کے لوگوں کی اہم ترین ضرورت بن چکی ہے، اس نے دنیا کو گلوبل ویلیج بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور حقیقت تو یہ ہے کہ عہد حاضر میں واٹس ایپ کے بغیر زندگی گزارنے کا تصور کرنا بھی مشکل دکھائی دیتا ہے۔

شیئر: