Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایک آم کا نام چونسا کیونکر پڑا اور اورنگزیب نے دو آموں کے کیا نام رکھے؟

چوسا آم اب پاکستان کے شہر رحیم یار خان اور ملتان میں بھی بڑے پیمانے پر پایا جاتا ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
گرمیوں کا موسم برصغیر میں آم کا سیزن ہے اور ہندوستان میں تو دنیا کا نصف سے زیادہ آم پیدا ہوتا ہے۔
اگر یہ کہا جائے کہ اردو شاعری میں کسی پھل کی سب سے زیادہ تعریف و توصیف ہوئی ہے تو وہ آم ہے۔ اس کا اظہار انڈیا کے ایک مزاحیہ شاعر ساغر خیامی  نے ان الفاظ میں کیا ہے:
پھل کوئی زمانے میں نہیں آم سے بہتر
کرتا ہے ثنا آم کی غالب سا سخنور
اقبال کا ایک شعر قصیدے کے برابر
چھلکوں پہ بھنک لیتے ہیں ساغر سے پھٹیچر
وہ لوگ جو آموں کا مزا پائے ہوئے ہیں
بورانے سے پہلے ہی وہ بورائے ہوئے ہیں
یہاں ہم بات آموں کے متعلق شاعری پر نہیں کر رہے ہیں بلکہ یہاں پھلوں کے راجہ کے متعلق بادشاہوں کے قصے بیان کرنا مقصود ہے۔
تو سب سے پہلے چوسا آم کے نام کا ذکر کرتے ہیں۔ چوسا آم انڈیا میں بہار اور مشرقی اترپردیش کا مخصوص آم ہوا کرتا تھا، لیکن اب پاکستان کے شہر رحیم یار خان اور ملتان میں بھی بڑے پیمانے پر پایا جاتا ہے۔
مشرقی اترپردیش سے اس کے خاص تعلق کی بنیاد پر اسے پہلے غازی پوریا کہتے تھے، جیسے کہ آج کل آم کی ایک خاص قسم بمبیا اور ایک دوسری کلکتیا کہلاتی ہے۔ بمبیا آم موسم کے شروع میں آتا ہے جبکہ کلکتیا زیادہ بڑا اور گودے دار ہوتا ہے، وہ دیر سے برسات میں آتا ہے۔ اس کا ذائقہ کوئی خاص تو نہیں لیکن میٹھا اور پیٹ بھرنے والا ہوتا ہے، شاید یہ مرزا غالب کو زیادہ پسند آتا جو آموں کے بارے میں کہتے ہیں کہ زیادہ ہوں اور میٹھے ہوں۔
تو زرد رنگ کے جون میں آنے والے اس غازی پوریا آم کا نام افغان بادشاہ شیر شاہ سوری نے چوسا رکھا۔ دراصل جب انہوں نے سنہ 1539 کی جنگ میں ہمایوں کو بہار کے علاقے چوسا میں شکست دی تو انہوں نے جیت کا جشن اپنے پسندیدہ آم سے منایا اور اس آم کا نام ’چوسا‘ رکھا جسے اب ’چونسا‘ بھی کہا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے جیت کے تحفے کے طور پر یہ آم دوسرے سرداروں کو بھی بھیجے۔

غازی پوریا آم کا نام افغان بادشاہ شیر شاہ سوری نے چوسا رکھا۔ (فائل فوٹو: پاکستان ٹریول)

چوسا کی جنگ نے جہاں شیر شاہ سوری کی بادشاہت کو مستحکم کیا وہیں چوسا کی اہمیت بھی بڑھ گئی۔

اورنگزیب کو آم کے لیے ڈانٹ پھٹکار

جب مغل بادشاہ شاہ جہان دکن میں برہان پور میں گورنر تھے تو انہوں نے دو آم کے باغات لگائے تھے جن میں سے دو آم کے درخت انہیں بہت پسند تھے۔
جب وہ بادشاہ بنے تو دکن کی ذمہ داری ان کے بیٹے اورنگزیب کے حصے میں آئی۔ اورنگزیب کو سخت ہدایت تھی کہ اس آم کی خاص طور پر نگرانی کی جائے اور اس کا پھل انہیں وہ جہاں کہیں بھی ہوں آگرے یا دہلی بھیجا جائے۔
چنانچہ بادشاہ کی ہدایت پر اس کی نگرانی کے لیے آم کے سیزن میں خاص طور پر محافظ تعینات کیے جاتے تھے اور دوسرے دنوں میں ان درختوں کا خاص خیال رکھا جاتا تھا تاکہ اچھے پھل آئیں۔
ایک بار جب انہیں ان درختوں کا پھل بھیجا گیا تو وہ مقدار اور تعداد میں کم تھا اور قدرے خراب بھی ہو گیا تھا تو شاہجہاں نے اپنے بیٹے کی سرزنش کی۔
آداب عالمگیری کے مطابق اورنگزیب نے جواب میں جو خط تحریر کیا اس میں انہوں لکھا کہ ’موسم کی خرابی، آندھی اور اولے کی وجہ سے پھل خراب آئے اس میں ان کی کوئی تقصیر نہیں ہے۔‘

گرمیوں کا موسم برصغیر میں آم کا سیزن ہے۔ (فوٹو: روئٹرز)

ویسے شاہجہاں کے زمانے میں آم کے بڑے بڑے باغات بہار اور بنگال میں لگائے گئے اور بہت ساری قسمیں بھی تیار ہوئیں۔ ویسے آج ہندوستان میں ڈیڑھ ہزار سے زیادہ اقسام موجود ہیں، اور اب تو ایک ایک درخت کی مختلف شاخوں میں مختلف اقسام کے پھل لگائے جاتے ہیں اور ان کی نمائش بھی ہوتی ہے۔

اورنگزیب نے سنسکرت میں نام رکھے

شاہجہاں کی طرح اورنگزیب کو بھی آم بہت پسند تھے اور انہیں تحفے میں آم بھیجے جاتے تھے۔ ایک بار ان کے بیٹے نے اورنگزیب کو دو نئی اقسام کے آم بھیجے اور ان سے ان کا نام رکھنے استدعا کی۔
اگرچہ انڈیا میں اورنگزیب کو ہندوؤں سے نفرت کرنے والوں کے طور پر پیش کیا جاتا ہے لیکن ایسا نہیں تھا کیونکہ ان کے دربار میں سب سے زیادہ ہندو جاگیردار ہی تھے۔
بہرحال انہون نے بیٹے کی درخواست پر ان دونوں آموں کے نام سنسکرت زبان میں رکھے۔
ایک آم کا نام سُدھا رس رکھا تو دوسرے کا رسنا وِلاس رکھا۔
سنسکرت لفظ ’سُدھا‘ کا مطلب امرت ہے اور دوسرا لفظ رس یعنی جوس ہے۔ اس طرح یہ آم امرت کا جوس ٹھہرا۔ امرت کو اردو میں آپ آب حیات کے طور پر سمجھ سکتے ہیں۔

جب مغل بادشاہ شاہ جہان دکن میں برہان پور میں گورنر تھے تو انہوں نے دو آم کے باغات لگائے تھے۔ (فائل فوٹو: دی فری پریس جرنل)

سنسکرت لفظ ’رسنا‘ کا مطلب ہندی میں زبان ہوتا ہے جس سے آپ کو ذائقے کی پہچان ہوتی ہے جبکہ ولاس کا مطلب فرحت خوشی یا مزا ہے۔ یعنی اس طرح دوسرے آم کے نام کا مطلب زبان کا مزا ٹھہرا۔
واضح رہے کہ اورنگ زیب سنسکرت زبان بہت اچھی طرح جانتے تھے اور بعض اوقات ان کے چنندہ الفاظ کا استعمال بھی کرتے تھے۔
اب پھر سے ساغر خیامی کی نظم کی جانب آتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں:
کیا بات ہے آموں کی، ہوں دیسی ہو کہ بدیسی
سُرخی ہو، سرولی ہو کہ تخمی ہو کہ قلمی
چوسے ہوں، سفیدے ہوں کہ خجری ہوں کہ فجری
اک طرفہ قیامت ہے مگر آم دسہری
فردوس میں گندم کے عوض آم جو کھاتے
آدم کبھی جنت سے نکالے نہیں جاتے

شیئر: