Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’پرندوں کی قبرگاہ‘، آسام میں چڑیوں کی ہلاکت ایک معمہ

انڈین حکام نے ملک بھر میں پرندوں کے بے دریغ قتل کو روکنے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
انڈیا میں مون سون کی آمد آمد ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ جنوبی ریاست کیرالہ میں اس کا وُرُود ہو چکا ہے جبکہ باقی حصوں میں اس کا بے صبری کے ساتھ انتظار کیا جا رہا ہے کیونکہ درجہ حرارت اپنی ریکارڈ بلندیوں پر ہے۔
گرمی ایسی ہے کہ اگر دانہ زمین پر گر پڑے تو بھن جائے اور کچھ ویڈیوز تو ایسی آ رہی ہیں جس میں دھوپ میں لوگ آملیٹ بناتے نظر آ رہے ہیں۔
لیکن ہم آج مون سون کے اختتام کی بات کرنے جا رہے ہیں۔ انڈیا کی شمال مشرقی ریاست آسام میں ایک ایسی جگہ ہے کہ جب مون سون ہمالیہ سے ٹکرا کر اور شمالی انڈیا میں بارش برسا کر لوٹ رہا ہوتا ہے یعنی ستمبر اکتوبر کے مہینے میں تو وہاں چڑیاں سینکڑوں کی تعداد میں آ کر جان دیتی ہیں۔
آپ نے چاند اور چکور کی کہانی سنی ہوگی کہ وہ چاندنی رات میں مدہوش ہوکر چاند کی جانب اڑتا ہے یا اپنے جوڑے کے ساتھ محبت کے نغمے گاتا ہے اسی طرح بلبل بھی چاندنی رات میں نغمہ سرائی کرتا ہے لیکن آسام کے جتِنگا علاقے میں اندھیری راتوں میں سینکڑوں کی تعداد میں چڑیاں راغب ہوتی ہیں اور اپنی جان دے دیتی ہیں۔
یہ ایک ایسا معمہ ہے جو آج تک حل نہیں ہو سکا۔
ریاست آسام کے ماہر علم طیور انورالدین چودھری کے مطابق ان میں زیادہ تر نونہال یا کم عمر کی چڑیاں ہوتی ہیں اور جتِنگا وادی میں کوئی مخصوص چڑیا ہی موت کو گلے نہیں لگاتی بلکہ اس میں تقریبا ڈیڑھ درجن اقسام کی چڑیاں شامل ہیں۔
چڑیوں کے ماہر کے مطابق خودکشی کا یہ رجحان مون سون کے اختتام پر خاص طور پر بغیر چاندنی اور دھند والی اندھیری راتوں میں شام 6 بجے سے رات 10 بجے کے درمیان ہوتا ہے۔
مقامی قبائلیوں نے پہلے پہل چڑیوں کی خودکشی کے اس رجحان کو آسمان سے آنے والی بد روحوں کی آمد اور بدشگونی سمجھا اور اس سے خوفزدہ اور سراسیمہ رہا کرتے تھے۔
دی ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق اس کی جانب سب سے پہلے اپنے زمانے کے ماہر فطرت ای پی جی نے 1960 کی دہائی میں توجہ دلائی اور ان کے بعد ہی انڈیا کے معروف ماہر طیور یعنی آرنیتھولوجسٹ مرحوم سالم علی جتِنگا گئے اور انھوں نے اس اجتماعی موت کے اسباب جاننے کی کوشش کی۔

آسام میں چڑیوں کی ہلاکت پر تحقیق ہوئی۔ (فائل فوٹو)

ان کے مطابق اس کی ممکنہ وجہ اس وادی کی اونچائی اور اس موسم میں چلنے والی تیز رفتار ہوائیں تھیں جس کی وجہ سے وہاں ایک قسم کی کُہر کی چادر پھیل جاتی تھی اور گاؤں سے آنے والی روشنی ہوتی تھی جس کی طرف چڑیاں متوجہ ہوتی تھیں۔
لیکن اس کے بعد ہندوستان کے زولوجیکل سروے نے سدھیر سینگپتا کو اس راز سے پردہ اٹھانے کے لیے بھیجا۔
اس واقعے کی تازہ ترین تفصیل اور ملائیشیا، فلپائن اور میزورم میں اسی طرح کے واقعات کے ساتھ اس کے موازنے کی تفصیل انورالدین چودھری کی کتاب ’دی برڈز آف آسام‘ میں موجود ہے۔
ان کی کتاب میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ اس موسم میں زیادہ تر نوجوان پرندے جن میں مقامی اور مہاجر دونوں قسم کے پرندے شامل ہیں وہ تیز ہواؤں کی وجہ سے اپنے گھونسلوں سے پریشان ہو کر جب پناہ کے لیے روشنیوں کی طرف اڑتے ہیں تو وہ بانس کے کھمبوں سے ٹکرا کر ہلاک یا زخمی ہو جاتے ہیں۔
انڈیا میں پرندوں اور دوسرے جاندراوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیموں اور وائلڈ لائف کے اہلکاروں نے ملک بھر میں پرندوں کے بے دریغ قتل کو روکنے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ ان علاقوں میں جہاں مہاجر پرندوں کی آمد میں کمی آ رہی ہے وہیں ان کی ہلاکتوں میں بھی کمی آئی ہے۔
چڑیوں کی ہلاکت کے اسباب
ایک موسم میں اتنی بڑی تعداد میں چڑیوں کی ہلاکت کی وجوہات معلوم کرنے پر تحقیقات ہوئیں۔ ان کے مطابق ستمبر سے نومبر کے دوران پرندوں کی اموات میں اضافے کی وجہ آسام میں آبی ذخائر میں سیلاب سے پرندوں کی قدرتی رہائش میں خلل ہے۔ سیلاب کی وجہ سے جب ان کے گھونسلے ٹوٹتے ہیں تو ہجرت ان کی ضرورت بن جاتی ہے، اور جتِنگا ان کے ہجرت کے راستے پر آتا ہے۔
جتنگا دارالحکومت گوہاٹی سے تقریبا 330 کلومیٹر جنوب میں دیماسا ہساؤ ضلعے میں شمال براک وادی میں واقع ہے۔ یہ شمال مشرقی ہندوستان کی قدیم ترین آبادیوں میں سے ایک ہے جہاں دیماسا قبائل رہتے تھے۔ یہ نیلی پہاڑیوں، سبز وادیوں، دھودھ جیسے آبشار اور بہتے چشموں کا خوبصورت مسکن ہے۔ یہاں دھان کی کاشت ہوتی ہے جبکہ بانس بڑی تعداد میں اُگائے جاتے ہیں۔ یہاں سے ہوا سرسراتی ہوئی گزرتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ قدرت یہاں پر نہال ہے۔
اس وادی میں تقریبا 2500 گھرانوں کی آبادی ہے لیکن یہ پرندوں کی قبرگاہ بھی ہے۔

حکام کے مطابق مہاجر پرندوں کی آمد سے ہلاکتوں میں بھی کمی آئی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

بہت سے لوگوں کا کہنا کہ گاؤں والے اونچے بانسوں پر روشنی لگا کر پرندوں کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں اور ان کا شکار کرتے ہیں لیکن وہاں جا کر دیکھنے والوں نے اس مفروضے کو باطل قرار دیا ہے۔
بعض نظریات میں کہا گیا ہے کہ اونچائی، ہواؤں اور دھند کے امتزاج سے پرندے اپنے سمت و رفتار کھو بیٹھتے ہیں اور قریبی دیہات کی روشنیاں ان کے لیے مستقل کشش کا کام کرتی ہیں۔
قاضی رنگا نیشنل پارک آسام کی ویب سائٹ کے مطابق ایک اور نظریہ بتاتا ہے کہ علاقے کی آب و ہوا زیرِ زمین پانی کی مقناطیسی خصوصیات میں تبدیلی لاتی ہے، جس سے پرندوں کی حیران کن ہلاکت میں اضافہ ہوتا ہے۔
اس پُراسرار رجحان کی ایک ممکنہ وضاحت پہاڑی چوٹیوں پر ہائی پاور سرچ لائٹس کا استعمال بھی ہے، جو اس وقت اڑنے والے پرندوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں۔ پرندے روشنیوں کے لالچ میں بانسوں پر اترتے ہیں، جس کے نتیجے میں ہلاکتیں ہوتی ہیں۔ لیکن یہ بھی دیکھا گيا ہے کہ ہجرت کرنے والے پرندے اس واقعے سے متاثر نہیں ہوتے ہیں۔
مقامی توہمات نے کبھی پُراسرار پرندوں کی خودکشی کی وجہ بُری روحوں کو قرار دیا تھا لیکن ماہرین حیوانات اور اس کے تحفظ کے لیے کام کرنے والوں کی کوششیں ان عقائد کو دور کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔
پرندوں کی آمد کو اب ایک قدرتی واقعہ سمجھا جاتا ہے جو چاند کے بغیر راتوں میں مخصوص موسمی حالات کے دوران قریبی گھروں کی روشنیوں اور فلڈ لائٹس کا رُخ کرتے ہیں تاہم اب تک قطیعت کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ آخر وہاں پرندے کیوں جا کر جان دیتے ہیں۔

شیئر: