Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’تحریک تحفظ آئین‘ میں مزید سیاسی جماعتوں کی شمولیت کا امکان، رابطے تیز

اپزیشن اتحاد مولانا فضل الرحمان کی سربراہی میں حزب اختلاف کی کچھ جماعتوں سے بھی رابطہ کرے گا (فائل فوٹو: سکرین گریب)
پاکستان کی اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد ’تحریک تحفظ آئین پاکستان‘ نے اتحاد میں مزید جماعتوں کی شمولیت کے لیے کوششیں تیز کردی ہیں۔ اتحاد کے رہنماؤں نے بلوچستان اور سندھ کی سیاسی جماعتوں سے اس سلسلے میں رابطے کیے ہیں۔
تحریک تحفظ آئین پاکستان میں شامل بلوچستان کی قوم پرست جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی کے قائم مقام صدر ساجد ترین ایڈووکیٹ نے اردو نیوز کو بتایا کہ بی این پی کے سربراہ سابق وزیراعلٰی بلوچستان سردار اختر مینگل نے سندھ کی قوم پرست جماعتوں سے رابطے کیے ہیں۔
’سندھ عوامی تحریک کے ایاز لطیف پلیجو، جئے سندھ اور دیگر جماعتوں کے رہنماؤں سے ملاقاتوں میں پیش رفت ہوئی ہے اور اصولی طور پر ان جماعتوں نے ہمارے اتحاد کا حصہ بننے پر اتفاق کیا ہے۔‘
تحریک تحفظ آئین پاکستان کے نام سے حزب اختلاف کا اتحاد رواں سال اپریل میں تشکیل دیا گیا تھا۔ اس میں حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت تحریک انصاف کے ساتھ ساتھ بلوچستان کی قوم پرست جماعتیں بھی شامل ہیں۔
پشتونخوا ملی عوامی پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی، سنی اتحاد کونسل اور مجلس وحدت المسمین بھی اس اتحاد کا حصہ ہیں۔ اس تحریک کے سربراہ پشتونخوا میپ کے سربراہ محمود خان اچکزئی ہیں۔
ساجد ترین کے مطابق ’اسلام آباد میں جلسے کے بعد تحریک تحفظ آئین پاکستان کے رہنما سندھ جائیں گے تاکہ اس پیش رفت کو عملی شکل دی جاسکے۔‘
’دوسرے مرحلے میں ہم سندھ میں گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس سے بھی رابطے کریں گے۔ بلوچستان میں بھی ہم مختلف سیاسی جماعتوں سے رابطے کر رہے ہیں تاکہ تحریک تحفظ آئین پاکستان کو وسعت دے سکیں۔‘
اپوزیشن رہنما کا کہنا تھا کہ ’ہم ایک نکاتی ایجنڈے یعنی آئین کی مکمل بحالی پر سب کو یکجا کر رہے ہیں تاکہ ایک مضبوط اتحاد تشکیل دے کر مشترکہ اور منظم تحریک چلا سکیں۔‘
’مولانا فضل الرحمان کی سربراہی میں حزب اختلاف کی کچھ جماعتیں الگ اتحاد بنانے کی کوشش کر رہی ہیں، ہم اس اتحاد کے ساتھ بھی مل بیٹھ سکتے ہیں۔‘
ان کے مطابق ’ہماری کوشش ہے کہ مشترکہ تحریک چلائیں تاکہ ملک میں آئین کی بحالی کو یقینی بنائی جاسکے۔‘
ساجد ترین نے بتایا کہ پہلے مرحلے میں ہم جلسے کریں گے تاکہ عوام کو متحرک کیا جاسکے اور اس کے بعد بھرپور تحریک چلائی جائے گی۔

شیئر: