جاپان کی سیاست میں اُبھرتی خواتین، چیلنجز کم کیوں نہیں ہو رہے؟
جاپان کی سیاست میں اُبھرتی خواتین، چیلنجز کم کیوں نہیں ہو رہے؟
منگل 9 جولائی 2024 9:29
یوریکو کویکی اتوار کو تیسری مدّت کے لیے ٹوکیو کی گورنر منتخب ہوئی ہیں (فوٹو: اے پی)
یوریکو کویکی نے آٹھ برس قبل اپنے مدمقابل مرد اُمیدوار کو شکست دے کر ٹوکیو کی قیادت کرنے والی پہلی خاتون بننے کا اعزاز اپنے نام کیا تھا اور اب وہ اتوار کو تیسری مدّت کے لیے (ٹوکیو کی) گورنر منتخب ہوئی ہیں۔
خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق صنفی مساوات کے اعتبار سے جاپان عالمی درجہ بندی میں کافی پیچھے ہے جہاں اعلیٰ سیاسی عہدے کے لیے متعدد خواتین کا مقابلہ اب بھی شاذ ہے۔
تاہم یوریکو کویکی کی جیت طاقتور خواتین حکام میں بتدریج اضافے اور ایک ایسے معاشرے کی عکاسی کرتی ہے جو سیاست میں صنفی توازن پر آمادہ ہے۔
اس کے باوجود اگر کوئی خاتون بالآخر وزیراعظم بن جاتی ہے تب بھی یہاں کی سیاست پر مردوں کا غلبہ ہے اور ماہرین کا خیال ہے کہ مساوی نمائندگی کے لیے ایک بہت بڑی کوشش کی ضرورت ہے۔
جاپان کی مرکزی حزب اختلاف کی آئینی ڈیموکریٹک پارٹی کے ایک سینیئر عہدیدار رکن پارلیمنٹ چنامی نیشیمورا نے کہا کہ ’سیاست میں خواتین سے زیادہ کردار ادا کرنے کی توقعات بڑھ رہی ہیں۔ سیاست یا پارلیمنٹ میں، جسے اب بھی زیادہ تر مردوں کا کام سمجھا جاتا ہے، خواتین کے لیے یہ بہت معنی رکھتا ہے کہ وہ اپنی موجودگی کا اظہار کریں اور ہماری آوازیں سُنی جائیں۔‘
چنامی نشیمورا جو حزب اختلاف کی جماعت کی صنفی مساوات کو فروغ دینے والی ٹیم کی سربراہ بھی ہیں، کو امید ہے کہ آئندہ انتخابات میں ان کی پارٹی امیدواروں میں 30 فیصد خواتین ہوں گی۔
وزیراعظم فومیو کیشیدا کی قدامت پسند لبرل ڈیموکریٹک پارٹی نے گزشتہ سال 10 برس میں خواتین کی 30 فیصد نمائندگی حاصل کرنے کا عزم ظاہر کیا تھا اور ان کی پارٹی مزید خواتین اُمیدواروں کو بھرتی کرنے کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔
تاہم، خواہشمند خواتین امیدواروں کو تلاش کرنا آسان نہیں ہے۔ جاپان میں خواتین سے اب بھی بچوں کی پرورش، بزرگوں کی دیکھ بھال اور دیگر خاندانی ذمہ داریاں پوری کی توقع کی جاتی ہے۔
قومی پارلیمنٹیرینز سے بھی توقع کی جاتی ہے کہ وہ باقاعدگی سے ٹوکیو اور اپنے آبائی حلقوں کے درمیان سفر کریں، جس کی وجہ سے خواتین قانون سازوں کے لیے کیریئر اور خاندان میں توازن قائم کرنے کی کوشش کرنا خاص طور پر مشکل ہو جاتا ہے۔ چنامی نشیمورا کا کہنا ہے کہ ’سابق خواتین ساتھیوں نے ایسے مطالبات کی وجہ سے سیاست چھوڑ دی ہے اور مقامی اسمبلیوں میں واپس آ گئی ہیں۔‘
انہوں نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز 1999 میں اپنے آبائی شہر نیگاتا کی اسمبلی سے کیا، جو کئی دہائیوں میں وہاں خدمات انجام دینے والی پہلی خاتون تھیں۔ 53 رکنی اسمبلی میں اب پانچ خواتین ہیں۔