Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سابق سوویت یونین سے افغانستان تک مکیش کی آواز کا جادو

مکیش نے اپنے معاصرین کی نسبت بہت کم محض 1300 گیت گائے۔ (فائل فوٹو: ریڈیو سٹی)
’آوارہ ہوں
آوارہ ہوں
یا گردش میں ہوں
آسمان کا تارا ہوں
آوارہ ہوں‘
سنہ 1951 میں ریلیز ہونے والے بالی ووڈ فلم ’آوارہ‘ کا یہ گیت سوویت ریاستوں اور چین میں غیرمعمولی طور پر مقبول ہوا اور اس نے حقیقت میں یہ ثابت کیا کہ موسیقی کی کوئی سرحد نہیں ہوتی۔ یہ عظیم چینی رہنما ماؤزے تنگ کے پسندیدہ گیتوں میں سے ایک تھا۔
لیجنڈ اداکار اور ہدایت کار راج کپور پر پکچرائز ہوا یہ گیت مکیش چند ماتھر نے گایا تھا جو بعد میں مکیش کے نام سے جانے گئے۔ ان کی گائیکی کا بے فکرا انداز اس عہد سے ہٹ کر تھا۔ سامعین اب تک کے ایل سہگل کی آواز کی چاشنی کو فراموش نہیں کر سکے تھے جبکہ محمد رفیع کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا تھا۔ ایسے میں مکیش کا یہ گیت تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوا جس کے بعد وہ ایک ایسے گلوکار کے طور پر ابھرے جن کی گائیکی کا اپنا منفرد انداز تھا کیونکہ اس سے قبل ان کے گائے گئے زیادہ تر گیتوں پر کے ایل سہگل کا اثر دکھائی دیتا ہے۔
اس فلم کے بول معروف نغمہ نگار شیلندر نے لکھے تھے۔ راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے اس عظیم نغمہ نگار نے مکیش کے آنے والے بہت سے گیت لکھے۔ اس فلم کی موسیقی اس دور کی موسیقاروں کی معروف جوڑی شنکر جے کشن نے دی تھی۔ شنکر کئی برسوں تک لیجنڈ خواجہ خورشید انور کے شاگرد رہنے کے علاوہ ان کے آرکیسٹرا کے ساتھ پرفارم کر چکے تھے۔
بہت سے تخلیقی دماغ یکجا ہو گئے تھے جنہوں نے ہمیشہ کے لیے زندہ رہ جانے والی موسیقی تخلیق کی۔ شیلندر گیت لکھتے رہے، شنکر جے کشن موسیقی ترتیب دیتے رہے اور مکیش گاتے رہے اور یہ تمام تخلیق کار ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہو گئے۔ پردے پر مگر سمندری کے راج کپور ہی دکھائی دیتے تھے۔
مکیش آج ہی کے روز سنہ 1923 کو غیرمنقسم ہندوستان کی راجدھانی دہلی کے ایک تعلیم یافتہ خاندان میں پیدا ہوئے۔ والد انجینیئر تھے۔ ان کی موسیقی میں دلچسپی اس قدر بڑھی کہ میٹرک کے بعد ان کا تعلیمی سلسلہ منقطع ہو گیا اور انہوں نے پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ میں سرکاری ملازمت اختیار کر لی۔ مکیش کے لیے مگر موسیقی سے دوری اختیار کرنا ممکن نہیں تھا۔ ان کی موسیقی میں دلچسپی برقرار رہی۔
ان کا یہ جنوں چھپ نہیں سکا۔ وہ اپنی بہن کی شادی پر گیت گا رہے تھے۔ سامعین میں اداکار موتی لال بھی شامل تھے جو اس وقت بالی وڈ اداکار کے طور پر اپنی پہچان بنا چکے تھے۔ یہ وہ موتی لال ہی ہیں جنہوں نے فلم ’دیوداس‘ میں چنی لال کا کردار ادا کیا تھا جس پر انہیں بہترین معاون اداکار کے فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ انہوں نے مکیش کی آواز سنی تو بہت زیادہ متاثر ہوئے اور انہیں اپنے ساتھ بمبئی لے آئے۔
بہت کم لوگ یہ جانتے ہوں گے کہ مکیش نے سال 1941 میں ریلیز ہونے والی اپنی پہلی فلم ’نردوش‘ میں اداکاری کی تھی اور اسی فلم کے لیے اپنا پہلا گیت ’دل ہی بھجا ہوا ہو تو‘ گایا تھا۔
سنہ 1945 میں فلم ’پہلی نظر‘ کا موتی لال پر پکچرائز ہوا گانا ’دل جلتا ہے تو جلنے دو‘ نے زبردست پذیرائی حاصل کی مگر مکیش چوں کہ کے ایل سہگل کے فین تھے تو ان کی گائیکی پر بھی ان کا گہرا اثر تھا۔ آنے والے کئی برسوں تک لوگ ان کو کے ایل سہگل کا متبادل خیال کرتے رہے۔ یہ وہ گیت ہے جسے سننے کے بعد کے ایل سہگل پریشان ہو گئے تھے اور انہوں نے کہا تھا، ’حیرت ہے، مجھے نہیں یاد میں نے یہ گیت کب گایا تھا۔‘
اور صرف کے ایل سہگل ہی کنفیوژ نہیں ہوئے بلکہ سامعین کی بڑی تعداد نے بھی یہ گمان کیا کہ یہ گیت غالباً کے ایل سہگل نے ہی گایا ہے اور اس مہان گائیک کی طرح گانا کوئی چھوٹی کامیابی نہیں تھی مگر دوسری جانب مکیش جی کی اپنی کوئی آزادانہ شناخت نہیں بن پا رہی تھی جس کا گلوکار کو بھی جلد ہی ادراک ہو گیا۔
اس وقت عظیم موسیقار نوشاد نے مکیش کی مدد کی اور ان کو اپنے منفرد طرز گائیکی کی جانب راغب کیا۔ یہ وہ نوشاد ہی ہیں جنہوں نے کے ایل سہگل کے علاوہ رفیع، لتا اور اس عہد کے بہت سے گلوکاروں کے کیریئر کو نیا آہنگ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔
ایس آر ملہوترہ ’روٹری نیوز آن لائن‘ کے لیے اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ ’نوشاد اور کے ایل سہگل پہلی بار سال 1946 میں فلم ’شاہجہاں‘ میں یکجا ہوئے۔ نوشاد عموماً گیت ریکارڈ کروانے سے قبل دو گھونٹ پی لیا کرتے تھے۔ نوشاد کے کہنے پر مگر انہوں نے گیت ’جب دل ہی ٹوٹ گیا‘ شراب پینے سے قبل اور بعد میں ریکارڈ کروایا۔

مکیش نے راج کپور کے لیے سب سے زیادہ 120 گیت گائے جو تقریباً سب کے سب ہی سپرہٹ رہے۔ (فوٹو: ٹائمز ناؤ)

نوشاد نے سہگل سے کہا کہ وہ دونوں ورژن سنیں اور ان میں سے کوئی ایک منتخب کریں۔ سہگل نے مدہوشی کے عالم میں گیت کا پہلا ورژن منتخب کیا اور نوشاد سے کہا، ’کاش، مجھے آپ کے ساتھ پہلے کام کرنے کا موقع ملا ہوتا۔‘
کہا جاتا ہے کہ نوشاد مکیش جی کے ساتھ مل کر ان کی آواز اور ان کے طرز گائیکی پر کام کرتے تھے تاکہ ان کے گیت سہگل کے گیتوں سے مختلف نظر آئیں۔
اور یہ تبدیلی سال 1949 میں ہدایت کار محبوب خان کی ریلیز ہونے والی فلم ’انداز‘ میں نظر آئی۔ یہ ایسی واحد فلم ہے جس میں راج کپور اور دلیپ کمار نے ایک ساتھ کام کیا۔ اس فلم کی موسیقی نوشاد نے ترتیب دی تھی جو مکیش کے طرز گائیکی کو تبدیل کرنے میں بڑی حد تک کامیاب رہے تھے۔
اس فلم کا یادگار گیت
’تو کہے اگر جیون بھر
میں گیت سناتا جاؤں
من بین بجاتا جاؤں‘
میں مکیش کے طرز گائیکی میں بدلاؤ کا آغاز ہو چکا تھا۔ اس فلم میں انہوں نے دلیپ کمار کے لیے پس پردہ گائیکی کی تھی جبکہ راج کپور کے لیے محمد رفیع نے اپنی آواز دی تھی۔ یہ بدلاؤ مگر بہت واضح نہیں تھا۔
اس سے قبل سال 1947 میں کے ایل سہگل کی وفات کے بعد بہت سے لوگوں کا یہ خیال تھا کہ مکیش اب اپنی آزادانہ شناخت بنانے میں کامیاب رہیں گے مگر ایسا نہیں ہوا اور لوگ ان کی آواز کو کے ایل سہگل کا خلا پُر کرنے کے لیے استعمال کرنے لگے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ آنے والے برسوں میں دلیپ کمار کے لیے رفیع اور راج کپور کے لیے مکیش نے پس پردہ گائیکی کی۔
مکیش نے سنہ 1951 میں ایک فلم ’ملہار‘ پروڈیوس کی جو باکس آفس پر بری طرح پٹ گئی اور گلوکار دیوالیہ ہو گئے۔ یہ ان کی زندگی کا مشکل ترین وقت تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت ان کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں ہوا کرتے تھے کہ وہ اپنے بچوں کے سکول کی فیس ادا کر سکیں۔
راج کپور جو پہلے ہی مکیش کے طرز گائیکی کو پسند کرتے تھے، اور وہ ان کی فلموں ’آگ‘، ’برسات‘ اور ’آوارہ‘ میں اپنے سُروں کا جادو جگا چکے تھے، انہوں نے اس مشکل وقت میں مکیش کا ہاتھ تھاما اور وہ راج کپور کی آنے والی فلموں کا لازمی حصہ بن گئے۔ اس دور کے مکیش کے گائے زیادہ تر یادگار گیت راج کپور پر ہی پکچرائز ہوئے ہیں۔ آگے بڑھنے سے قبل فلم ’آگ‘ کے بارے میں بتاتے چلیں جس میں راج کپور اور نرگس پہلی بار ایک ساتھ دکھائی دیے تھے اور یہ ان کی طویل فنی رفاقت کا نقطۂ آغاز تھا۔
سال 1955 میں ریلیز ہونے والی فلم ’شری 420‘ میں مکیش نے اپنی گائیکی سے سب کو حیران کر دیا۔ اس فلم کے لیے ان کا گیت
’میرا جوتا ہے جاپانی
یہ پتلون انگلستانی
سر پہ لال ٹوپی روسی
پھر بھی دل ہے ہندوستانی‘
ایک بار پھر سرحدوں کے پار سوویت ریاستوں میں غیرمعمولی طور پر مقبول ہوا۔ مکیش کی گائیکی میں جذبات کے بے فکرے پن کو پسند کیا گیا جو راج کپور کے کردار کے مطابق تھا اور یہ وہ وقت تھا جب وہ سہگل صاحب کے اثر سے مکمل طور پر باہر آ چکے تھے۔
کہا جاتا ہے کہ گلوکار کو جب اس گیت کے بول پہلی بار سنائے گئے تو انہوں نے ناراضی کا اظہار کیا کیونکہ انہوں نے اس سے قبل جو گیت گائے تھے، ان میں سنجیدگی تھی، گہرائی تھی، رچاؤ تھا مگر اس گیت کے بارے میں ان کا خیال مختلف تھا جسے انہوں نے ایک مزاحیہ گانا خیال کیا اور یہ گمان کیا کہ یہ ان کے ٹیلنٹ کی توہین ہے۔
اس گانے کی ریکارڈنگ کے دوران راج کپور غالباً اس بات کو بھانپ گئے تھے۔ چناںچہ وہ ریکارڈنگ کو درمیان میں ہی روک کر گلوکار کے پاس گئے اور ان کے شانے پر ہاتھ رکھا اور کہا ’مکیش جب یہ گیت گاؤ تو خود کو Imagine نہ کرو۔ میرے ہنستے مسکراتے چہرے کو Imagine کرو۔ یہ گیت تمہاری پسند کے بارے میں نہیں ہے۔ یہ گانا ہے میری Screen Presence کے بارے میں، اور میں بڑے پردے پر ہمیشہ ہنستا مسکراتا رہتا ہوں۔ اور اس لیے میں یہ چاہتا ہوں کہ تم بھی اس گانے کو مسکراتے ہوئے گاؤ۔ اس کے بعد جب بھی تم میرے لیے گاؤ، یہ Combination ہو گا تمہاری آواز کی گہرائی اور میری مسکراہٹ کا۔ اور میں تم سے ایسا ہی چاہتا ہوں کہ جب بھی لوگ تھیٹر سے باہر نکلیں تو ساتھ لے جائیں ایک دھن پیار کی، خمار کی جس سے ان کو زندگی جینے کی ایک نئی طاقت مل جائے۔ مشکلوں بھری زندگی میں ہوں گا میں لوگوں کی امنگ اور تم ہو گے میری آواز۔‘
اور بالی وڈ کے شومین کے یہ الفاظ درست ثابت ہوئے کیوںکہ اس کے بعد مکیش اور راج کپور لازم و ملزوم ہو گئے۔ یوں سال 1955 سے 1970 کے برسوں کے دوران گلوکار نے راج کپور کی آواز بن کر اور شنکر جے کشن کی موسیقی میں ایسے یادگار گیت گائے جو آج بھی سامعین کے کانوں میں رَس گھولتے ہیں۔

مکیش نے اپنے معاصرین کی نسبت بہت کم محض 1300 گیت گائے۔ (فائل فوٹو: یوٹیوب)

سنہ 1959 میں مکیش کو پہلا فلم فیئر ایوارڈ ملا۔ یہ ایوارڈ ان کو فلم ’اناڑی‘ کے اس گانے پر ملا۔ 
’سب کچھ سیکھا ہم نے
نہ سیکھی ہوشیاری
سچ ہے دنیا والو
کہ ہم ہیں اناڑی‘
1970 میں جب بالی وڈ تبدیلی کے دور سے گزر رہا تھا، راجیش کھنہ، سنجیو کمار، امیتابھ بچن اور منوج کمار جیسے فنکار بڑے پردے پر نظر آنے لگے تھے تو مکیش نے دوسرے اداکاروں کے لیے بھی گانا شروع کیا۔
راجیش کھنہ پر پکچرائز ہوا ان کا یہ گیت ہمیشہ کے لیے اَمر ہو گیا،
’کہیں دور جب دن ڈھل جائے
سانجھ کی دلہن بدن چرائے
چپکے سے آئے‘
اور سال 1974 میں ریلیز ہوئی فلم ’رجنی گندھا‘ کے لیے مکیش جی کو ان کی زندگی کا پہلا نیشنل ایوارڈ ملا۔ یہ وہ زمانہ ہے جب ان کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا تھا۔
اور اسی زمانے میں ان کا یہ گیت
’کبھی کبھی میرے دل میں
خیال آتا ہے
کہ جیسے تجھ کو بنایا گیا ہے میرے لیے
توں اب سے پہلے ستاروں میں بس رہی تھی کہیں
تجھے زمین پہ بلایا گیا ہے میرے لیے‘
نصف صدی گزر جانے کے باوجود آج بھی محبت کرنے والوں کے دل کی آواز ہے۔

مکیش کے پوتے نیل نیتن مکیش نے ایک اداکار کے طور پر اپنی پہچان بنائی۔ (فوٹو: کوئی موئی)

فلم ’کبھی کبھی‘ کا یہ گیت امیتابھ بچن پر فلمایا گیا تھا جس کی موسیقی خیام نے دی تھی۔ وہ ایک پنجابی مسلمان خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور فلموں میں کام کرنے کے لیے لاہور آئے تو ان کی ملاقات لیجنڈ موسیقار بابا چشتی سے ہوئی جن کے ساتھ انہوں نے کچھ عرصہ معاون کے طور پر بھی کام کیا۔ وہ مگر جلد ہی لدھیانہ واپس لوٹ گئے اور اپنا فنی سفر جاری رکھا۔ فلم ’کبھی کبھی‘ پر خیام کو فلم فیئر ایوارڈ ملا تھا جبکہ اس کے بول ساحر لدھیانوی نے لکھے تھے۔
فلمی موسیقی کے ماہر راجیو سریواستو کی گلوکار پر کتاب ’مکیش: انڈیا کے پہلے عالمی گلوکار‘ کے پیش لفظ میں خیام نے کچھ ان لفظوں میں مکیش جی کو خراج تحسین پیش کیا ہے، ’کبھی کبھی میرے دل میں…… صدی کے بہترین گانوں میں سے ایک ہے۔ مکیش کی رینج بھی خوب تھی۔ دھن یا سر کیسے بھی ہوتے، اونچے ہوتے یا نیچے، آہستہ ہوتے یا تیز، یا مختلف موڈ کے ہوتے، انہوں نے سب طرح کے نغموں کو جس طرح گایا، اسے آج بھی یاد کرتا ہوں تو لگتا ہے کہ ایسے سدا بہار گانے صرف وہی گا سکتے تھے۔‘
مکیش جی اپنے اس گیت کی غیرمعمولی کامیابی کو دیکھ نہیں سکے کیوںکہ اسی برس وہ امریکی ریاست مشی گن کے شہر ڈیٹرائٹ میں 27 اگست کو چل بسے۔ وہ امریکہ ایک کنسرٹ میں پرفارم کرنے گئے تھے۔ وہ صبح اٹھے، شاور لیا مگر اس دوران ان کا سانس رکنے لگا، انہوں نے سینے میں درد کی شکایت کی جس پر انہیں فی الفور ہسپتال لے جایا گیا مگر راستے میں ہی ان کی موت ہو چکی تھی۔
لتا جی ان کی لاش انڈیا واپس لائیں جہاں ان کی آخری رسومات ادا کی گئیں جس میں فلم انڈسٹری کے ارکان اور ان کے چاہنے والوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔
راج کپور کو جب ان کی وفات کی خبر ملی تو ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور انہوں نے بے ساختہ کہا، ’آج میں نے اپنی آواز کھو دی۔‘

لتا منگیشکر گلوکار مکیش کی لاش انڈیا واپس لائیں جہاں ان کی آخری رسومات ادا کی گئیں۔ (فائل فوٹو: ریڈف)

مکیش جی کی وفات کے کئی برسوں بعد ریلیز ہونے والی فلموں میں ان کے گیت شامل تھے۔ انہوں نے اپنے معاصرین کی نسبت بہت کم محض 1300 گیت گائے، یہ تعداد رفیع، کشور کمار اور مناڈے کے گائے گیتوں سے کہیں کم ہے۔ رفیع جی نے تو 25 ہزار سے زیادہ گانے گائے جو ایک ریکارڈ ہے۔
مکیش جی نے چار فلم فیئر ایوارڈ حاصل کیے جن میں سے تین گیتوں کے لیے موسیقی شنکر جے کشن نے ترتیب دی تھی۔ مکیش جی نے راج کپور کے لیے سب سے زیادہ 120 گیت گائے جو تقریباً سب کے سب ہی سپرہٹ رہے۔
لتا اور مکیش جی نے کئی دو گانے گائے اور ان میں سے زیادہ تر ہٹ رہے۔ فلم فیئر ڈاٹ کام پر شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق لتا جی نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’مکیش کا گایا ان کا پسندیدہ گیت ’جانے کہاں گئے وہ دن‘ ہے جو مجھے پس پردہ گائیکی کے گزر چکے زمانے کی یاد دلاتا ہے۔‘
مکیش جی کے بیٹے نتن مکیش نے پس پردہ گائیکی میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا تو ان کے پوتے نیل نیتن مکیش نے ایک اداکار کے طور پر اپنی پہچان بنائی ہے۔ اپنی وفات کے کئی برسوں بعد بھی مکیش کے گیت اور ان میں موجود رچاؤ سامعین کو سر دھننے پر مجبور کر دیتا ہے۔
مکیش انڈیا کے وہ پہلے اور غالباً واحد گلوکار ہیں جن کی آواز کا جادو سوویت یونین سے چین، اور ترکی سے افغانستان تک چلا۔ ان کا گیت ’آوارہ ہوں‘ آج بھی روس میں ذوق و شوق سے گایا جاتا ہے اور یہ وہ واحد گیت ہے جس کا 15 سے زیادہ زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔
مکیش کو رخصت ہوئے اگرچہ نصف صدی ہونے کو ہے مگر ان کا فن ہمیشہ کے لیے امر ہو چکا ہے اور ان کے ذکر کے بغیر بالی وڈ میں پس پردہ گائیکی کی روایت کا احاطہ کرنا ممکن نہیں۔

شیئر: