Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مارکسسٹ ہدایت کار مرینل سین اور ستیہ جیت رے میں اختلافات کی وجہ کیا تھی؟

’بھوون شومے‘ مرینل سین کی کامیاب ترین فلموں میں سے ایک ہے۔ (فوٹو: یوٹیوب)
یہ رابندرناتھ ٹیگور کی دھرتی ہے جو لفظوں سے ایسا فسوں طاری کر دیا کرتے تھے کہ قاری ان کے پنہاں معنوں کے سحر میں کھو جاتا۔
ذکر بنگال کا ہو اور زین العابدین کی بات نہ ہو تو یہ ممکن نہیں۔ انہوں نے رنگوں سے بنگال کی قحط سالی کی ایسی منظر کشی کی جو ایک حساس دل رکھنے والے مصور کا ہی خاصا تھا۔
وہ آج سے ایک روز قبل 29 دسمبر 1914 کو ڈھاکہ میں پیدا ہوئے۔ تقسیم کے دنوں میں مشرقی پاکستان چلے گئے اور سقوط ڈھاکہ کے بعد بنگالی شہری بن گئے۔ ان کی شناخت کی اس تبدیلی نے ان کے فن پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے اور وہ بنگال کے عظیم ترین مصور قرار پائے۔
بنگال کے ہی ایک ہندو برہمن گھرانے میں پیدا ہونے والے پنڈت روی شنکر نے موسیقی کی دنیا میں ایک منفرد مقام حاصل کیا جو 20ویں صدی میں ہندوستان کی کلاسیکی موسیقی کے عالمی شہرت یافتہ فنکار تھے۔
بولتی تصویروں میں ستیہ جیت رے نے اپنی ’آپو‘ سیریز کی فلموں کے ذریعے وہ جادوگری دکھائی جس نے عالمی سنیما میں نیوریئلزم کی تحریک کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ستیہ جیت رے کو ان کی خدمات پر اعزازی آسکر ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔
سوامی ویوک آنند کے ذکر کے بغیر بنگال کی فلسفیانہ روایت تشنہ رہے گی۔ وہ بنگال کا ایک ایسا چہرہ ہیں جو آج بھی پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا ہے۔ 
ستیہ جیت رے ان دنوں مقبولیت کی بلندیوں پر تھے جب بنگال کی تخلیقی سرزمین میں ایک اور ہدایت کار مرینل سین نے اپنے منفرد اسلوب سے خود کو بنگالی فلمی صنعت کا اہم اور معتبر حوالہ ثابت کیا۔
رواں برس 14 مئی کو اس عظیم فلم میکر کی صد سالہ یومِ پیدائش پر دنیا بھر میں تقاریب منعقد ہوئیں اور ان کے فن کے مختلف پہلوؤں پر ایک بار پھر بات ہوئی۔ وہ فرید پور (بنگلہ دیش) میں پیدا ہوئے اور تقسیم کے ہنگامے میں کولکتہ کا رُخ کیا۔

مرینل سین نے اپنے منفرد اسلوب سے خود کو بنگالی فلمی صنعت کا اہم اور معتبر حوالہ ثابت کیا۔ (فوٹو: مرینل سین ڈاٹ کام)

مرینل سین کی سنہ 1969 میں ریلیز ہونے والی کامیاب ترین اور کلاسیکی فلم ’بھوون شومے‘ میں وِیوک آنند، رابندر ناتھ ٹیگور، ستیہ جیت رے اور پنڈت روی کا ایک مونٹیج دکھایا گیا ہے جس کے پسِ پردہ آواز کہتی ہے، ’بنگال، سنہرا بنگال، عظیم بنگال، منفرد بنگال‘ اور اس پس منظر میں بم دھماکے کی آواز کے ساتھ ہی بدامنی، تشدد اور احتجاج کے مناظر دکھائی دیتے ہیں۔
دی ہندو اخبار ان کے فن کا احاطہ کچھ ان الفاظ میں کرتا ہے، ’اپنی ڈیبیو فلم رات بھور (1955) جسے انہوں نے خود ’ناکام ترین فلموں میں سرفہرست‘ رکھا اور 54 برس قبل ریلیز ہونے والی ان کی شاہکار فلم ’بھوون شومے‘ نے غیرمعمولی کامیابی حاصل کی۔‘
اخبار اپنے اس مضمون میں مزید لکھتا ہے کہ ’مرینل سین کی یہ فلم انڈیا کی سماجی، ثقافتی اور سیاسی دنیا سے ماضی کی نسبت آج زیادہ جَڑت رکھتی ہے۔ اس حقیقت میں کوئی دو رائے نہیں کہ انہوں نے اپنی فلموں میں اپنے عہد کا روزنامچہ پیش کیا ہے، وہ اپنے وقت کے فنکار تھے، وہ بلاشبہ جدید انڈین سنیما کے معمار تھے اور ان کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ انڈین سنیما کے ایسے پہلے ’سیاسی‘ ہدایت کار تھے۔‘
مرینل سین اپنی سوانح عمری ‘Always Being Born: A Memoir’  میں لکھتے ہیں کہ ’میں حادثاتی طور پر فلم میکر جبکہ مصنف شوق سے بنا۔‘
60 کی دہائی میں جنوبی کولکتہ کے پیراڈائز کیفے میں سلیل چوہدری، فلم میکر رتوک گھاٹک اور انڈین تھیٹر کا معتبر حوالہ تپس سین گھنٹوں چائے کی ایک پیالی پر فلم، ادب، موسیقی اور زندگی پر باتیں کیا کرتے۔

ستیہ جیت رے کی فلموں میں حقیقت نگاری، ان کی کلاسیکی روح اور انسانی حالات کو پیش کرنے کا ڈھنگ ہی ان کی انفرادیت ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

مرینل سین کی یادداشتوں میں کولکتہ ایک شہرِ بے مثل کے طور پر جا بجا موجود ہے جس نے انہیں ان کی فلموں کے لیے موضوعات دیے۔
ان کے فن کا ادراک کرنا ہے تو ان کی زیست اور فلموں کی گہرائی میں جائے بغیر یہ ممکن نہیں جس کے لیے ان کے معاصر ہدایت کاروں ستیہ جیت رے اور رتوک گھاٹک کا ذکر بھی گاہے گاہے آتا رہے گا۔
انڈین ایکسپریس کے ایک مضمون کے مطابق ’ستیہ جیت رے، رتوک گھاٹک اور مرینل سین میں اس حقیقت کے سوا کوئی مماثلت نہ تھی کہ یہ تینوں ہی بنگال کے کلاسیکی فلم میکرز تھے جنہیں غیرمعمولی مقام حاصل ہے اور دنیا بھر میں سنیما شائقین اور فلم کے طالب علم ان کا احترام کرتے ہیں اور ان کے فنی محاسن کے بارے میں پڑھتے ہیں۔‘
’ستیہ جیت رے، رتوک گھاٹک اور مرینل سین کا فلم بنانے کا ایک اپنا منفراد انداز تھا اور ان کے موضوع بھی مختلف تھے جس کے باعث یہ تینوں ایک دوسرے سے مختلف تھے۔‘
ستیہ جیت رے کو بنگال کی ان تینوں مہان فلمی ہستیوں میں سب سے زیادہ شہرت حاصل ہوئی جن کی فلموں میں حقیقت نگاری، ان کی کلاسیکی روح اور انسانی حالات کو پیش کرنے کا ڈھنگ ہی ان کی انفرادیت ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ وہ انڈین سنیما کے ناقابلِ اصلاح انسان دوست تھے۔
رتوک گھاٹک کی فلموں میں ہجرت اور وطن سے دوری کا درد ہے اور تقسیم کے بعد کے بنگالی سنیما کے حوالے سے امید کی جھلک نظر آتی ہے۔

مرینل سین نے بنگالی سے ہندی کا رُخ کیا تو یہ ثابت کیا کہ ان کے اندر کا مارکسسٹ زندہ ہے۔ (فوٹو: مرینل سین ڈاٹ کام)

مرینل سین بنگالی سنیما کے عظیم ترین فلم میکر تھے۔ انڈین ایکسپریس اس حوالے سے لکھتا ہے کہ ’مرینل سین کی صد سالہ پیدائش کی تقریبات بھی اسی جوش و جذبے سے منائی جانی چاہییں تھیں جس طرح 2021 میں ان کے معاصر ستیہ جیت رے کی منائی گئی تھیں۔ مرینل سین نے سیاسی طور پر باغیانہ فلمیں بنائیں جنہوں نے مرکزی دھارے کے روایتی فلسفوں کو چیلنج کیا۔ ان کی فلموں نے محنت کش اور بورژوا طبقے کی زندگیوں، فکر اور اعتقادات کو گہرائی سے بڑے پردے پر پیش کیا۔‘
’بھوون شومے‘ مرینل سین کی کامیاب ترین فلموں میں سے ایک ہے جس نے بہترین ہدایت کار، اداکار اور فلم کے نیشنل ایوارڈز حاصل کیے۔ یہ فلم شہری اور دیہی تقسیم کے ایک اہم موضوع کا احاطہ کرتی ہے جو سنہ 1969 میں ریلیز ہوئی۔
ہدایت کار نے 1971 سے 1973 کے دوران ’کلکتہ‘ سیریز پر تین فلمیں بنائیں جن میں پہلی فلم ’انٹرویو‘ 1971 میں ریلیز ہوئی۔ اس فلم کا موضوع بے روزگاری تھا جو اپنی اختراع سازی اور سینما تیکنیک کی وجہ سے فلم بینوں کے ذہنوں سے کبھی محو نہیں ہو سکے گی۔
فلم کے مرکزی کردار کا ایک معروف انڈو برٹش کمپنی میں انٹرویو ہے۔ ظاہر ہے، انٹرویو میں ظاہری تاثر کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ شومئی قسمت کہ انٹرویو والے دن ہی فلم کے مرکزی کردار کا واحد پہننے کے لائق سوٹ لانڈری میں ہے اور اس دن لانڈریوں کی ہڑتال ہے۔ فلم کا اختتام ایک مایوس کن انٹرویو پر ہوتا ہے۔

مرینل سین کو انڈین حکومت کی جانب سے دادا صاحب پھالکے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

کلکتہ سیریز کی دوسری فلم ’کلکتہ 71‘ غربت، تکلیف اور موت کے موضوعات کو چار مختلف کہانیوں کے ذریعے پیش کرتی ہے۔ اس فلم نے بہترین سینماٹوگرافی کا نیشنل ایوارڈ حاصل کیا تھا۔
اس سیریز کی تیسری فلم ’پداٹک‘ 1973 میں ریلیز ہوئی۔ یہ موضوعاتی اعتبار سے مرینل سین کی گذشتہ فلموں کا تسلسل ہی تھی جس میں یہ دکھایا گیا ہے کہ ایک سیاسی کارکن پولیس وین سے فرار ہونے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ اس کو شہر کے ایک پوش اپارٹمنٹ میں رہنے کی جگہ مل جاتی ہے جو ایک حساس نوجوان خاتون کا ہے اور وہ سماجی کارکن ہے۔ دونوں کرداروں کی جدوجہد کی وجہ یہ ہے کہ وہ دونوں حکومت سے مایوس ہو چکے ہیں۔ سیاسی کارکن جب خاتون کی جانب متوجہ ہونے لگتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ وہ صرف سماجی ترجیحات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اس کی مدد کر رہی تھی اور یوں فلم کے اختتام پر سیاسی کارکن اپنی علیل والدہ کی عیادت کے لیے اپنے گھر واپس لوٹ جاتا ہے۔ یہ فلم بھی بہترین سکرین پلے کا نیشنل ایوارڈ حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔
مرینل سین کی ایک اور اہم فلم ’اک دن پرتدن‘ ہے۔ سنہ 1979 میں ریلیز ہونے والی یہ فلم ہدایت کار کی انسانی نفسیات پر گرفت کو ظاہر کرتی ہے۔ گھر کی بیٹی اور واحد کفیل ایک روز کام سے واپس نہیں لوٹی۔ خاندان میں بے چینی دوڑ جاتی ہے۔ رات بھر تلاش کی جاتی ہے جس کی اخلاقی وجہ ہونے کے علاوہ معاشی وجہ بھی ہے۔ یہ فلم مایوسی میں امید کا دیا روشن رکھتی ہے۔ اس فلم نے بہترین بنگالی فلم کے علاوہ بہترین ہدایت کار اور ایڈیٹنگ کا ایوارڈ بھی حاصل کیا تھا۔

مرینل سین ایک ایسے مارکسٹ تخلیق کار تھے جنہوں نے اپنی فلموں میں ان موضوعات کو چھیڑا جن پر بات کرنا آسان نہیں تھا۔ (فوٹو: مرینل سین ڈاٹ کام)

مرینل سین نے بنگالی سے ہندی کا رُخ کیا تو یہ ثابت کیا کہ ان کے اندر کا مارکسسٹ زندہ ہے۔ انہوں نے ’اک دن اچانک‘ اور ’کھنڈر‘ بنا کر انسانی نفسیات کو اس خوبصورتی سے پیش کیا جس کی کوئی دوسری مثال تلاش کرنا مشکل ہے۔
مرینل سین اور ستیہ جیت رے کے درمیان خطوط کے تبادلوں نے شہ سرخیوں میں جگہ پائی کیوںکہ دونوں ہی بنگالی سنیما کے ’اَن داتا‘ تھے۔
مرینل سین کی یادگار فلم ’بھوون شومے‘ کو کامیابی ملی، بہت سے ایوارڈز حاصل کرنے کے علاوہ اسے عالمی سطح پر بھی پذیرائی ملی۔ ستیہ جیت رے کا اس فلم پر تبصرہ حیران کن تھا جنہوں نے لگے لپٹے بغیر کہا کہ ’یہ محض ایک ایسے کرپٹ بیوروکریٹ کی کہانی ہے جسے گاؤں کی الہڑ دوشیزہ نے بدل ڈالا۔‘
ایسا پہلی بار نہیں ہوا تھا بلکہ اس لڑائی کا آغاز مرینل سین کی سنہ 1965 میں ریلیز ہونے والی فلم ’آکاش کسم‘ سے ہوا تھا جس کے بعد اخبار ’سٹیٹسمین‘ میں اس بارے میں خطوط شائع ہوتے رہے اور دونوں ہدایت کاروں کے درمیان یہ چپقلش اگلی تین دہائیوں تک جاری رہی۔
ان دونوں میں اس اختلاف کی بنیادی وجہ دونوں ہدایت کاروں کے درمیان موجود نظریاتی تفاوت تھا جو بنگالی سنیما کی تاریخ میں ایک طویل مخاصمت کا باعث بنا رہا۔
مرینل سین اور ستیہ جیت رے میں ان اختلافات نے دوریاں تو پیدا کیں مگر وہ ایک دوسرے سے ہمیشہ گرم جوشی سے ملا کرتے تھے۔

مرینل سین اپنی سوانح عمری میں لکھتے ہیں کہ ’میں حادثاتی طور پر فلم میکر جبکہ مصنف شوق سے بنا۔‘ (فوٹو: گوتم بھاٹہ چاریہ)

مرینل سین کو ملنے والے ایوارڈز کی فہرست کے بیان کو دفتر کے دفتر درکار ہوں گے تاہم کچھ اہم ایوارڈز کا ذکر کرنا ضروری ہے جن میں حکومت انڈیا کی جانب سے دادا صاحب پھالکے ایوارڈ، فرانسیسی صدر کی جانب سے ’کمانڈر آف دی آرڈر آف آرٹس اینڈ لیٹرز‘، یونین آف سوویت سوشلسٹ ریپبلکس کی جانب سے عالمی سنیما میں خدمات پر نہرو سوویت لینڈ ایوارڈ کے علاوہ 1998-2003 میں راجھیہ سبھا کا اعزازی رُکن منتخب کیا گیا۔ 2000 میں روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی جانب سے آرڈر آف فرینڈشپ کے علاوہ 2005 میں انڈیا میں فلمی صنعت کے سب سے بڑے دادا صاحب پھالکے ایوارڈ سے نوازا گیا۔
وہ ایک ایسے مارکسٹ تخلیق کار تھے جنہوں نے اپنی فلموں میں ان موضوعات کو چھیڑا جن پر بات کرنا آسان نہیں تھا۔ ان کا اپنی فلموں کے کردار کی نفسیات پیش کرنے کا ڈھنگ ان کے غیرمعمولی تخلیق کار ہونے پر دلالت کرتا ہے۔
یہ بے مثل تخلیق کار 30 دسمبر 2018 کو کولکتہ میں اپنے گھر میں دل کا جان لیوا دورہ پڑنے کے باعث چل بسا۔ اس وقت ان کی عمر 95 برس تھی۔ یہ ایک ایسے تخلیق کار کی موت تھی جس کا خلا صدیوں پورا نہیں ہو سکے گا۔

شیئر: