Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چمن دھرنا 9 ماہ بعد ختم تاہم سرحد پر آمدروفت کی اجازت نہ ملنے پر شہری پریشان

چمن میں سرحد سے چند سو قدم کی دوری پر اس دھرنے کا آغاز 21 اکتوبر 2023 سے  ہوا تھا۔ (فوٹو: عرب نیوز)
بلوچستان کے ضلع چمن میں 9 ماہ سے احتجاج پر بیٹھے دھرنے کے شرکاء نے پاکستان افغان سرحد پر آمدروفت کے لیے پاسپورٹ اور ویزے کی شرط کے خاتمے کی یقین دہانی پر 274 دنوں بعد اپنا احتجاج اتوار کی شام کو ختم کر دیا۔
تاہم اعلانات کے باوجود سرحد پر پہلے کی طرح آمدروفت بحال نہ ہو سکی۔ پیر کی صبح جب سرحد کے دونوں جانب سے سینکڑوں افراد سرحدی گیٹ ’باب دوستی‘ پہنچے تو انہیں سرحد پار کرنے کی اجازت نہیں ملی جس کی وجہ سے انہیں مایوس ہوکر لوٹنا پڑا۔ دھرنا کمیٹی نے آئندہ کا لائحہ عمل طے کرنے کے لیے اجلاس طلب کر لیا۔
اتوار کو دھرنے کی قیادت کرنے والے غوث اللہ اچکزئی اور  صادق اچکزئی سمیت پانچ گرفتار افراد کو تقریباً ڈیڑھ ماہ بعد رہا کیا گیا۔
حکومت اور مظاہرین کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرنے والے بلوچستان کے سابق نگراں وزیر داخلہ ملک عنایت کاسی رہا ہونے والے قائدین کے ہمراہ دھرنے کے مقام پر پہنچے اور اعلان کیا کہ حکومت نے دھرنے کے شرکاء کے مطالبات منظور کر لیے ہیں۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ چمن کے لوگوں کو دوبارہ پہلے کی طرح پاکستانی شناختی کارڈ اور افغان سرحدی علاقے سپین بولدک کے رہائشیوں کو افغان تذکرہ پر آمدروفت کی اجازت ہو گی۔
دھرنا کمیٹی کے ترجمان صادق اچکزئی نے بھی ان کی بات کی تائید کی اور کہا کہ حکومت اور دھرنا کمیٹی کے درمیان سمجھوتہ طے پا گیا ہے جس کے تحت آمدروفت کے لیے میکنزم بنایا جائے گا۔
ملک عنایت کاسی اور صادق اچکزئی کے اعلان کے بعد دھرنے کے شرکاء نے اپنا 9 ماہ سے جاری دھرنا ختم کر دیا۔ شرکاء نے اپنا سارا سامان اٹھا لیا اور وہ خیمے بھی اکھاڑ دیے جہاں وہ رات کو قیام کرتے تھے۔
چمن کے ڈپٹی کمشنر راجہ اطہر عباس نے احتجاج ختم ہونے کی تصدیق کی تاہم انہوں نے حکومت اور مظاہرین کے درمیان مذاکرات  سے متعلق کوئی  بات کرنے سے انکار کیا۔

اتوار کو غوث اللہ اچکزئی اور  صادق اچکزئی سمیت پانچ گرفتار افراد کو تقریباً ڈیڑھ ماہ بعد رہا کیا گیا۔ (فوٹو: نعمت سرحدی)

ان کا کہنا تھا کہ اس صورتحال پر بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند پالیسی بیان دیں گے  تاہم بلوچستان حکومت کے ترجمان نے بھی رابطہ کرنے پر کوئی مؤقف دینے سے انکار کیا ہے۔
پاکستان  فوج اور سرحد کی سکیورٹی کے لیے ذمہ دار فرنٹیئر کور بلوچستان   کی جانب سے بھی اب تک  کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔ تاہم گورنر بلوچستان  شیخ جعفر خان مندوخیل نے  اپنے بیان میں کہا ہے کہ  ’حکومت کی کوششوں اور وفاقی حکومت کے ساتھ رابطوں سے مسئلہ حل ہو گیا ہے۔
سرحد کے دوسری جانب افغان صوبہ قندھار کے حکام  نے بھی لا علمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں تازہ پیشرفت پر اعتماد میں نہیں لیا گیا اس لیے افغان حکومت کی جانب سے اعلان ہونے تک لوگ افغان تذکرہ اور پاکستانی شناختی کارڈ پر آمدروفت  کی کوشش نہ کریں۔
چمن کے مقامی صحافیوں کے مطابق پیر کی صبح سرحد پر معمول سے زیادہ رش تھا اورسرحد کے دونوں جانب چمن اور سپین بولدک کے سینکڑوں رہائشی اس امید پر سرحد پہنچے تھے کہ انہیں پہلے کی طرح شناختی کارڈ اور افغان تذکرہ پر آنے جانے کی اجازت دی جائے گی  لیکن سرحد پار کرنے کی اجازت نہ ملنے پر انہیں  پریشان اورمایوس ہوکر واپس لوٹنا پڑا۔
’پتہ نہیں چل رہا کہ واقعی مذاکرات کامیاب ہو گئے ہیں یا ہمارے ساتھ کوئی دھوکہ ہوا ہے‘
چمن کے صحافی نور زمان اچکزئی کے مطابق بڑی تعداد میں سرحد پر لوگوں کے جمع ہونے کی وجہ سے پاسپورٹ پر آمدروفت بھی متاثر ہوئی ہے اور حکام نے عارضی طور پر ہر قسم کی آمدروفت بند کردی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ افغان سرحدی پولیس کا کہنا ہے کہ انہیں  پاکستانی حکام اور دھرنے کے شرکاء کے مابین معاہدے پر اعتماد میں نہیں لیا گیا ہے اور اس سلسلے میں پاکستانی حکومت کو افغان حکومت کے ساتھ فلیگ میٹنگ  کرنی چاہیے۔
چمن کے رہائشی عبدالرحمان نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میری سرحد پر ویش منڈی میں دکان ہے اور گزشتہ نو ماہ سے میں اپنی دکان پر نہیں جا سکا ہوں کیونکہ دھرنے کے شرکاء نے فیصلہ کیا تھا کہ جب تک حکومت دوبارہ شناختی کارڈ پر آمدروفت کی اجازت نہیں دے گی ہم پاسپورٹ پر کسی صورت افغانستان نہیں جائیں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’کل جب مطالبات منظور ہونے کا اعلان ہوا تو میں بہت خوش تھا لیکن آج صبح سرحد پہنچا تو ہمیں ایف سی اہلکاروں نے آگے جانے نہیں دیا۔ اب ہمارے ذہنوں میں دوبارہ خدشات پیدا ہو رہے ہیں۔‘
اطلاعات کے مطابق فریقین میں  طے پایا ہے کہ افغان سرحدی شہر سپین بولدک کے رہائشیوں کو پاکستان کی حدود میں سرحدی گیٹ کے قریب صرف ٹیکسی سٹینڈ تک آنے جانے کی اجازت ہوگی۔
پاکستانی باشندوں کو افغانستان میں سرحد کے قریب تجارتی مرکز ’ویش منڈی‘ تک جانے کی اجازت ہو گی۔ حکومت شناختی کارڈ کے اجراء کے لیے چمن میں نادرا کا اضافی عملہ تعینات کرے گی، تعلیم اور صحت کے شعبے کی بہتری کے لیے اقدامات اٹھائے گی۔
بدلے میں دھرنے کے منتظمین نے یقین دلایا ہے کہ وہ ریاست اوراس کی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کا حصہ نہیں بنیں گے۔
تاہم حکومت اور نہ ہی دھرنے کے منتظمین میں سے کسی نے اب تک ان نکات کی تصدیق کی ہے۔ دھرنا کمیٹی کے ترجمان صادق اچکزئی سے  بار ہار کوشش کے باوجود رابطہ نہیں ہو سکا۔ دھرنے کے منتظمین میں شامل عبدالخالق سنی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ہمیں معلوم نہیں کہ کیا معاہدہ طے ہوا ہے۔ کنفیوژن کی صورتحال ہے۔ اب تک حکومت کی جانب سے مطالبات کی منظوری سے متعلق کوئی اعلان کیا گیا ہے اور نہ ہی سرحد پرپابندیوں کو ختم کیا گیا ہے۔‘

مظاہرین نے 274 دنوں بعد اپنا احتجاج ختم کرنے کا اعلان کیا۔ (فوٹو: نعمت سرحدی)

ان کا کہنا تھاکہ ’آج لوگوں کو سرحد سے واپس کیا گیا ہے۔ ہم نے صورتحال پر دھرنے کے باقی منتظمین کے ساتھ مل کر ایک اجلاس طلب کر لیا ہے جس میں مطالبات کی عدم منظوری کی صورت میں دوبارہ احتجاج کرنے پر بھی غور ہو گا۔‘
یاد رہے کہ چمن میں سرحد سے چند سو قدم کی دوری پر اس دھرنے کا آغاز 21 اکتوبر 2023 سے  ہوا تھا جب اس وقت کی نگراں وفاقی حکومت نے 70 سالوں میں پہلی بار پاکستان اور افغانستان کے درمیان آمدروفت کے لیے پاسپورٹ اور ویزے کی شرط عائد کی تھی۔
اس سے پہلے  روزانہ 20 سے 30 ہزار پاکستانی اور افغان باشندے پاسپورٹ اور ویزے کے بغیر سرحد عبور کرتے تھے۔ ان میں سے بیشتر چمن اور سپین بولدک کے وہ مقامی مزدور تھے جو کندھوں پر سامان کی ترسیل کر کے روزگار کماتے تھے۔ ان مزدوروں کو مقامی زبان میں ’لغڑی‘ کہا جاتا ہے۔
آمدروفت کے لیے ان نئی شرائط کے نفاذ کے خلاف لغڑیوں نے  احتجاجی دھرنا شروع کیا جو 274 دنوں تک مسلسل جاری رہا۔ شہر کی تاجر تنظیمیں اور تقریباً تمام سیاسی جماعتیں نے بھی ان کی حمایت کی۔
احتجاج کے دوران چمن میں معاملات زندگی اور دونوں ممالک کے درمیان تجارتی سرگرمیاں بھی بری طرح متاثر رہے۔ دھرنے کے ابتداء میں چار ماہ تک مظاہرین نے ہر قسم کی تجارت کو بند رکھا۔
رواں سال مئی میں  سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپوں میں دو مظاہرین کی ہلاکت کے خلاف مظاہرین نے کوئٹہ چمن شاہراہ پر بھی دھرنا دیا جس کی وجہ سے ایک ماہ تک دونوں ممالک کے درمیان تجارت معطل رہی۔ مظاہرین نے 37 دنوں تک شہر کے تمام سرکاری و نجی بینکوں، پاسپورٹ اور نادرا سمیت کئی دیگر سرکاری دفاتر کو بھی بند رکھا اور پولیو مہم بھی روک دی تھی۔
جون کے اوائل میں حکومت کی جانب سے سرکاری دفاتر اور شاہراہ کو کھلوانے کی کوشش کی گئی تو ایک بار پھر صورتحال کشیدہ ہوئی اور شہر تین روز تک بند رہا۔
جھڑپوں میں 60 سے زائد مظاہرین اور سکیورٹی اہلکار زخمی ہوئے۔ سکیورٹی فورسز نے دھرنے کی قیادت کرنے والے غوث اللہ، صادق اچکزئی سمیت درجنوں افراد کو گرفتار کر کے ان کے خلاف  مقدمات درج کیے۔
باقی مظاہرین کو حکومت نے رہا کردیا تھا تاہم دھرنے کے پانچ منتظمین  گزشتہ ماہ سے حکومت کی قید میں تھے جنہیں اتوار کو احتجاج ختم ہونے سے پہلے رہا کیا گیا۔

شیئر: