Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چمن سرحد کی بندش: افغانستان کے ساتھ متبادل سرحدی گزرگاہ بادینی کھولنے کا فیصلہ

بادینی سرحد فعال ہونے کی صورت میں دونوں ممالک کے درمیان آمدروفت اور تجارتی سرگرمیوں میں تعطل ختم ہوجائے گا۔ (فائل فوٹو: اے پی پی)
پاکستانی حکومت نے چمن میں مسلسل احتجاج کی وجہ سے افغانستان کے ساتھ  تجارت کے لیے متبادل سرحدی گزرگاہ کو فعال بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔
صوبائی حکومت نے اس سلسلے میں کسٹم اور ایف آئی اے کو  فوری اقدامات اٹھانے کی ہدایات جاری کردی ہیں۔
حکام کے مطابق یہ اقدام  ایسے وقت میں اٹھایا جارہا ہے جب پاکستان اور افغانستان کے درمیان بلوچستان میں واقع چمن کی سب سے بڑی سرحدی گزرگاہ ’باب دوستی‘ گذشتہ سات ماہ سے جاری احتجاج کی وجہ سے  متاثر ہے۔
چمن شہر میں تین دنوں سے جاری سکیورٹی فورسز اور مظاہرین کے درمیان جاری جھڑپوں میں فائرنگ، لاٹھی چارج اور آنسو گیس کی شیلنگ کے نتیجے میں  کم از کم 27 مظاہرین زخمی ہوئے ہیں۔
 سکیورٹی فورسز نے دھرنے کے قائدین سمیت درجن سے زائد مظاہرین کو گرفتار کرلیا۔ شہر میں معمولات زندگی بری طرح مفلوج ہے، کاروباری و تجارتی مراکز بنداور انٹرنیٹ سروس بھی بدستور معطل ہے۔
حکام کے مطابق جمعرات کو فرنٹیئر کور (ایف سی) اور مظاہرین کے درمیان اس وقت دوبارہ جھڑپیں شروع ہوئیں جب مشتعل  مظاہرین نے ایف سی  قلعہ کے سامنے ٹائر جلاکر سڑک بند کردی۔
چمن کے ایک پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ مشتعل افراد نے  ایف سی اور ان کی مدد کے لیے جانےوالے پولیس اہلکاروں پر پتھراؤ کیا جس کے بعد سکیورٹی فورسز نے انہیں منتشر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ کی۔ لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا بھی استعمال کیا گیا۔
مظاہرین کا الزام ہے کہ سکیورٹی اہلکاروں نے مظاہرین پر فائرنگ بھی کی جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے۔
چمن اور کوئٹہ کے ہسپتالوں سے حاصل کیے گئے اعداد وشمار کے مطابق دو دنوں کے دوران جھڑپوں میں فائرنگ، پتھراؤ اور  لاٹھی چارج  کے  نتیجے میں 27 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
زخمیوں میں عبدالنافع، امداد اللہ، نصیب اللہ، شمس اللہ، اسداللہ، حمید اللہ، فیض اللہ، عبدالہادی، قدرت اللہ، عزت اللہ، حبیب اللہ، بلال، میر علی، حمداللہ، اسداللہ اچکزئی، امیر محمد، زین اللہ، عبداللہ، عزیز اللہ، حضرت اللہ، رمضان، عصمت اللہ ، صادق، ولی محمد، غوث اللہ، عنایت اللہ، امان اللہ اور مولاداد شامل ہیں۔
وزیرداخلہ بلوچستان میر ضیاء اللہ لانگو نے جھڑپوں میں متعدد افراد زخمی ہونے کی تصدیق کی تاہم انہوں نے زخمیوں کی درست تعداد نہیں بتائی۔

جلال نورزئی کے مطابق بادینی سرحد کے دوسری جانب افغانستان کا صوبہ زابل ہے۔  (فوٹو: ڈی جی پی آر)

ان کا کہنا تھا کہ کچھ لوگ زخمی ہوئے ہیں لیکن اسے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جارہا ہے۔
چمن کے مقامی صحافیوں کے مطابق دھرنے کے قائدین کی گرفتاری کے خلاف جمعرات کو فیض محمد پشتون اور مولوی عبدالمنان کی قیادت میں ریلی نکالی گئی۔ ریلی کے شرکا ڈپٹی کمشنر دفتر کے سامنے سڑک بند کرکے دھرنا دے کر بیٹھ گئے۔
مظاہرین دھرنے کے قائدین سمیت گرفتار کئے گئے تمام مظاہرین کی رہائی اور پاک افغان سرحد پر مقامی لوگوں کے لیے آمدروفت کے لیے پاسپورٹ اور ویزے کی شرط ختم کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔
چمن کے شہری سعید احمد نے بتایا کہ شہر میں تین دنوں سے صورتحال کشیدہ ہے۔ دکانیں، مارکیٹیں، بازار اور تعلیمی ادارے بھی بند ہیں۔
شہری گھروں میں محصور ہوکر رہ گئے ہیں۔ حکومت نے موبائل انٹرنیٹ سروس معطل کر رکھی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ آج  بھی پورا دن شہر فائرنگ  سے گونجتا رہا تاہم شام کو یہ سلسلہ رک گیا۔
پاک افغان سرحد پر آمدروفت کے لیے پاسپورٹ اور ویزے کی شرط کے اطلاق کے خلاف پچھلے سال 21 اکتوبر سے دھرنا دیا جارہا ہے۔ اس سے قبل چار مئی کو بھی ایف سی قلعہ کے باہر مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے درمیان تصادم ہوا تھا جس میں دو مظاہرین ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے تھے۔
 ہلاکتوں کے خلاف مظاہرین نے ایک ماہ سے کوئٹہ کو چمن اور افغانستان سے ملانے والی شاہراہ  کو بند کر رکھا تھا جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان تجارت کو مکمل طور پر معطل رہی۔
بدھ کو انتظامیہ نے کارروائی کرکے مظاہرین کو منتشر کرکے شاہراہ بحال کردی۔ اس دوران مظاہرین کے ساتھ  تصادم ہوا۔ سکیورٹی فورسز نے مظاہرین کے خیموں کو نذر آتش کردیا۔
وزیرداخلہ بلوچستان میر ضیاء اللہ لانگو نے بتایا کہ چمن میں کئی ماہ سے احتجاج جاری ہے۔ ہم پرامن احتجاج کے خلاف نہیں لیکن جب قانون کو ہاتھ میں لیا گیا تو حکومت کو مجبوراً کارروائی کرنا پڑی۔

چمن کے شہری سعید احمد نے بتایا کہ شہر میں تین دنوں سے صورتحال کشیدہ ہے۔ (فوٹو: فیس بک)

ان کا کہنا تھا کہ منگل کو دھرنے کے شرکا نے پولیو مہم میں رکاوٹیں ڈالیں، لیویز اور پولیو ورکرز کو تشدد کیا نشانہ بنایا۔
اس کے بعد ڈپٹی کمشنر نے دھرنا کمیٹی کے ممبران کو بلاکر ان کے ساتھ مذاکرات کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے نے ڈپٹی کمشنر پر حملہ کیا اور توڑ پھوڑ شروع کردی۔ جس پر شرپسند عناصر کو گرفتار کیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ دو دنوں کے دوران اب تک درجن سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ ان میں دھرنے کے قائدین بھی شامل ہیں۔
وزیرداخلہ ضیاء اللہ لانگو کا کہنا ہے کہ  حکومت نے بارہا مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی  لیکن  دھرنے کی قیادت سنجیدہ نہیں۔ کسی کو ریاست کی رٹ چیلنج کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ قانون توڑنے والوں کے خلاف مقدمات بھی درج کیے جائیں گے۔

افغانستان کے ساتھ تجارت کے لیے بادینی سرحد فعال بنانے کا فیصلہ

چمن میں  سات ماہ سے جاری احتجاج کی وجہ سے اس  راستے سے افغانستان اور وسط ایشیائی ممالک کے ساتھ تجارتی سرگرمیاں بری طرح متاثر ہیں۔ گذشتہ ایک ماہ سےاس راستے سے سرحدی تجارت مکمل طور پر بند ہے جبکہ تجارتی سامان لانے اور لے جانے والے سینکڑوں ٹرک بھی پھنسے ہوئے ہیں۔
اس صورتحال کے پیش نظر محکمہ داخلہ بلوچستان نے  کسٹم اور فیڈرل  انویسٹی گیشن ایجنسی کو خط لکھ کر بلوچستان کے شمالی ضلع قلعہ سیف اللہ سے متصل بادینی کی سرحد کو آمدروفت اور تجارتی سرگرمیوں کے لیے فعال کرنے کی ہدایت کی ہے۔
وزیرداخلہ بلوچستان ضیاء اللہ لانگو کا کہنا ہے کہ  اس سلسلے میں متعلقہ حکام کو ہدایات جاری کردی گئی ہیں تاہم متبادل سرحدی گزرگاہ کو فعال بنانے میں کچھ تکنیکی مسائل ہیں جنہیں حل کرنے میں کچھ وقت لگے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ بادینی سرحد فعال ہونے کی صورت میں دونوں ممالک کے درمیان آمدروفت اور تجارتی سرگرمیوں میں تعطل ختم ہوجائے گا۔
بادینی سرحد پر حکومت نے تقریباً پانچ سو ایکڑ پر مشتمل بارڈر ٹریڈ ٹرمینل  قائم کیا ہے جس کا افتتاح 16 ستمبر2020  کو اس وقت کے وزیراعلیٰ  بلوچستان جام کمال خان نے کیا لیکن ساڑھے تین سال گزرنے کے باوجود یہ گزرگاہ   تجارتی سرگرمیوں کے لیے استعمال میں نہیں لائی جاسکی۔

جلال نورزئی کے مطابق  بادینی  افغانستان اور پاکستان کےد رمیان قدیم اور روایتی گزرگاہ رہی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

عام طور پر اس گزرگاہ کو غیر قانونی تارکین وطن کی  ملک بدری کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تاہم اب حکومت نے پہلی  بار اسے مکمل طور پر فعال بنانے فیصلہ کیا ہے۔

بادینی سرحد کی اہمیت

کوئٹہ کے سینئر صحافی اور تجزیہ کار جلال نورزئی کے مطابق بادینی افغانستان اور پاکستان کےد رمیان قدیم اور روایتی گزرگاہ رہی ہے جسے صدیوں سےعام لوگ، خانہ بدوش، تاجر اور عسکری مہم جو بھی استعمال کرتے رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ قلعہ سیف اللہ کی تحصیل مسلم باغ اور مرغہ فقیر زئی کے بعد بادینی کا مقام آتا ہے۔ کوئٹہ سے بادینی سرحد کا فاصلہ محض دو سو کلومیٹر بنتا ہے۔ یہ مقام لورالائی کے راستے ڈیرہ غازی خان اور ژوب کے راستے ڈیرہ اسماعیل خان کے قریب پڑتا ہے۔ یعنی چمن کے مقابلے میں یہ سرحدی راستہ پنجاب اور خیبر پشتونخوا سے کم فاصلے پر ہے۔
جلال نورزئی کے مطابق بادینی سرحد کے دوسری جانب افغانستان کا صوبہ زابل آتا ہے وہاں سے غزنی  اور پکتیکا مختصر فاصلے پر ہے اس طرح  چمن کی نسبت یہ راستہ کابل کے بھی زیادہ نزدیک ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اتنی اہم سرحدی گزرگاہ ہونے کے باوجود اسے نظرا نداز کیا جاتا رہا ہے۔
تین چار سال قبل ٹریڈ ٹرمینل کا افتتاح کیا گیا مگر مسلم باغ سے بادینی تک تقریباً ایک سو کلومیٹر سے زائد فاصلے تک پکی سڑک موجود نہیں۔ یہ راستہ دشوار گزاری اور پہاڑوں کے درمیان میں سے گزرتا ہے۔

چمن میں احتجاج کے باعث سرحدی گزر گاہ کئی مہینوں سے بند ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

سرحد کے دونوں اطراف کا بڑا علاقہ غیرآباد، بجلی، گیس، پانی، ٹیلیفون، انٹرنٹ اور دیگر سہولیات موجود نہیں۔
جلال نورزئی کا کہنا ہے کہ ان سہولیات کی عدم دستیابی  کی وجہ سے بادینی سرحد کی فعال بنانا آسان نہیں ہوگا۔ اگرسہولیات کی فراہمی پر کام کیا جائے  تو اس خطے میں تجارتی اور معاشی سرگرمیوں کو فروغ مل سکتا ہے تاہم حکومت کو چمن میں جاری احتجاج کے پائیدار حل کے لیے بھی اقدامات اٹھانے چاہیے۔
کوئٹہ چیمبر آف کامرس کےسینئر نائب صدر آغا گل خلجی کا کہنا ہے کہ افغانستان کے ساتھ چمن سرحد بند ہونے کی وجہ سے تاجروں  اور لوگوں کو بڑی مشکلات کا سامنا ہے، لاکھوں لوگ بے روزگار ہوگئے ہیں ہمیں متبادل راستے کی بڑی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ  حکومت نے کئی سال پہلے کسٹم، ایف آئی اے اور دیگر دفاتر قائم  کر دیے تھے۔ ’افغانستان کی جانب سے کام نہیں ہوا تھا اگر دونوں ممالک مل کر کام کریں تو یہ فعال  تجارتی گزرگاہ بن سکتی ہے۔‘

شیئر: