جنوبی یارکشائر کے علاقے روٹرڈیم میں پناہ گزینوں کے زیراستعمال رہنے والے ہوٹل میں نقاب پوش تارکین وطن مخالف مظاہرین نے توڑ پھوڑ کی اور شیشے اور دروازے توڑ دیے۔
برطانوی شہر ساؤتھ پورٹ میں تین بچیوں کے قتل کے بارے میں بڑے پیمانے پھیلی غلط خبروں نے ملک کے کئی شہروں اور قصبوں کو متاثر کیا ہے۔
برطانوی وزیرِاعظم نے کہا ہے کہ ان کی حکومت پولیس کو ’نفرت کے بیج بونے‘ کی کوشش کرنے والے ’انتہا پسندوں‘ کے خلاف کارروائی کے لیے ’بھرپور حمایت‘ فراہم کرے گی۔
واضح رہے کہ پیر کے روز ساؤتھ پورٹ کے ایک مقامی ڈانس سکول میں بچوں کی ڈانس پرفارمنس کے دوران چھری سے مسلح ایک شخص نے اچانک نمودار ہو کر حملہ کر دیا تھا۔ اس حملے میں تین بچیاں ہلاک ہو گئی تھیں۔
پانچ دن سے جاری فسادات اور پرتشدد مظاہرے کیئر سٹارمر کے لیے ایک چیلنج ثابت ہو رہے ہیں جو کہ صرف ایک مہینے قبل لیبر پارٹی کی قیادت کرتے ہوئے واضح اکثریت سے کنزرویٹیو کو شکست دے کر اقتدار میں آئے ہیں۔
اتوار کو برطانوی وزیراعظم نے ٹی وی پر نشر ہونے والے اپنے خطاب میں کہا کہ ’میں ضمانت دیتا ہوں کہ آپ اس فسادات میں شامل ہو کر پچھتائیں گے۔ وہ جو براہ راست اس فساد میں حصہ لے رہے ہیں یا اس کو آن لائن ہوا دے رہے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ انتہائی دائیں بازو والوں کی ’بدمعاشی‘ کا کوئی جواز نہیں۔ وزیراعظم نے وعدہ کیا کہ اس میں ملوث تمام لوگوں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
دوسری جانب تین بچیوں کے قتل کے الزام میں گرفتار 17 سالہ ملزم پر قتل کا الزام عائد کر دیا گیا ہے۔ ان پر اقدام قتل کے 10 الزامات بھی عائد کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ ان پر تیز دھار آلہ رکھنے کا بھی الزام ہے۔
ملزم کی گرفتاری کے بعد بھی ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے جاری ہیں اور اس دوران کچھ مظاہرین سکیورٹی اہلکاروں سے لڑتے ہوئے بھی نظر آئے۔
تازہ ترین فسادات اتوار کو سامنے آئے۔ اس سے قبل سنیچر کو بچیوں کے قتل کے خلاف ملک کے متعدد شہروں اور قصبوں میں انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے گروہوں کے پُرتشدد احتجاجی مظاہروں کے بعد پولیس نے 90 سے زیادہ افراد کو گرفتار کر لیا تھا۔
ہل، لیورپول، برسٹل، مانچیسٹر، بلیک پول اور بیلفاسٹ میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں کے دوران بوتلیں پھینکی گئیں، دُکانوں کو لوٹا گیا اور پولیس پر بھی حملے ہوئے۔