Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ن لیگ کی حکومت میں بھٹو کو نشان پاکستان، ’آج کی سیاست ضرورت کی سیاست ہے‘

 پاکستان کی حکومت نے سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کو نشان پاکستان عطا کرنے کا اعلان کیا ہے۔
 یہ نشان 23 مارچ 2025 کو ان کو ایک سو تین دیگر شخصیات جنہوں نے پاکستان کے لیے خدمات سر انجام دیں، کے ساتھ دیا جائے گا۔
 ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے چوتھے صدر اور نویں وزیراعظم تھے اور انہوں نے 1973 کا آئین منظور کروانے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
 ان کی حکومت کا خاتمہ آرمی چیف جنرل ضیا الحق نے مارشل لا لگا کر کیا تھا اور بعد ازاں انہیں چار مارچ 1979 کو پھانسی دے دی گئی تھی۔
 موجودہ حکومت نے ذوالفقار بھٹو کی موت کے 45 سال بعد انہیں خدمات عامہ کے شعبے میں نشان پاکستان سے نوازنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اس کی باضابطہ منظوری ذوالفقار بھٹو کے داماد آصف زرداری نے بطور صدر مملکت دی ہے۔
 لیکن اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کو یہ اعزاز مسلم لیگ نواز کے دور حکومت میں دیا جا رہا ہے۔
مسلم لیگ نواز کی بنیاد ہی بھٹو مخالف نظریے پر پڑی تھی اور اس جماعت کے سربراہ نواز شریف اور ان کے والد میاں محمد شریف کو بھٹو دور میں اپنی صنعتیں سرکاری تحویل میں لیے جانے کا ہمیشہ رنج رہا ہے۔
 تاہم مسلم لیگ ن ایک اور فوجی صدر جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں 1999 میں اپنی حکومت گنوانے کے بعد پیپلز پارٹی کے قریب آئی ہے اور 2022 سے دونوں جماعتیں ایک دوسرے کی باقاعدہ اتحادی ہیں۔
 پاکستان کی سیاست کو قریب سے دیکھنے والے ماہرین کے مطابق 1985 سے  1999تک کا دور اگرچہ پاکستان میں بھٹو اور بھٹو مخالف نظریے کا دور تھا اور مسلم لیگ ن نے اپنی بیشتر سیاست بھٹو مخالف بیانیے پر ہی کی لیکن اب اس نظریے کا خاتمہ ہو چکا ہے اور اب مسلم لیگ نواز کی سیاسی ضرورت پیپلز پارٹی کی خوشنودی اور اس سے قریبی مراسم برقرا رکھنا ہے۔

 ’نظریاتی سیاست تاریخ بن چکی، آج کی سیاست ضرورت کی سیاست ہے

 سینئر تجزیہ کار، سیاسیات کے پروفیسر اور صوبہ پنجاب کے سابق نگران وزیر اعلٰی حسن عسکری اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس وقت پاکستان میں نظریے کی سیاست کا وجود نہیں ہے۔ ’بلکہ اس کے برعکس ضرورت کی سیاست کا چلن ہے اور ذوالفقار علی بھٹو کو نشان پاکستان دینے جیسے فیصلے اسی طرز کی سیاسی حکمت عملیوں کے تحت کیے جاتے ہیں۔‘
’بھٹو اور اینٹی بھٹو سیاست اب ایک تاریخ ہے۔ وہ نظریات کی سیاست تھی اور اب پاکستان کی سیاست میں نظریات کو کوئی دخل نہیں۔ اب سیاسی دشمنیاں اور دوستیاں مفادات کے تحت بدل رہی ہیں اور یہ دونوں جماعتیں وقتی ضرورت کے تحت ایک دوسرے کی مدد کر رہی ہیں۔‘
 حسن عسکری کے مطابق یہ اعلان اگرچہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا تسلسل ہے جس میں انہوں نے بھٹو کی پھانسی کے عدالتی حکم کو کالعدم قرار دیا تھا۔

 نواز رضا کہتے ہیں کہ پیپلزپارٹی میں سافٹ کارنر پیدا کرنا اس وقت مسلم لیگ نواز کی ضرورت ہے۔( فوٹو: اے ایف پی)

’بھٹو کو نشان پاکستان دینے کی تجویز بھی غالبا صدر زرداری کی جانب سے آئی ہے جس سے مسلم لیگ ن کی حکومت نے اتفاق کیا ہے لیکن اس کا سیاسی پہلو یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کو اس وقت پیپلز پارٹی کی ضرورت ہے اور اس اعزاز کے ذریعے ان کے باہمی تعلقات مزید مضبوط ہوں گے۔‘

 عمران خان کا خوف

سینیئر صحافی حاجی نواز رضا، جو مسلم لیگ نواز کے قیام کے دن سے اس کے انتہائی قریب رہے ہیں، حسن عسکری کے تجزیے سے اتفاق کرتے ہیں۔
 نواز رضا کہتے ہیں کہ ’پیپلزپارٹی میں سافٹ کارنر پیدا کرنا اس وقت مسلم لیگ نواز کی ضرورت ہے۔‘
 نواز رضا کے مطابق ن لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں اس وقت عمران خان سے خوفزدہ ہیں اور ان کو اس بات کا ادراک ہے کہ ان کی بقا کا واحد راستہ باہمی اشتراک اور ایک دوسرے کی ضرورت کو پورا کرنا ہے۔

 

ایسا نہیں کہ اینٹی بھٹو لوگ نہیں رہے، اینٹی بھٹو لوگ اب بھی موجود ہیں۔ لیکن اس وقت ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی مشترکہ ضرورت ہے کہ یہ عمران خان کے خلاف دشمنی میں اکٹھے رہیں۔ عمران خان زیادہ مقبول ہیں، اور یہ جانتے ہیں کہ وہ دونوں آپس میں مل کر ہی ان کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔‘

 ’دوستی پھر سے دشمنی میں بدل سکتی ہے‘

 تاہم حسن عسکری کے مطابق پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی یہ مشترکہ ضرورت عارضی ثابت ہو سکتی ہے۔
’عین ممکن ہے کہ نئے انتخابات کے اعلان کے بعد یہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے آمنے سامنے آ جائیں اور پھر ایک دوسرے کے مخالف نظریے پر الیکشن میں مقابلہ کریں۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ ان کی دوستی ایک مرتبہ پھر دشمنی میں بدل جائے کیونکہ پیپلز پارٹی پنجاب میں جگہ بنانا چاہتی ہے اور مسلم لیگ انہیں ایسا کرنے سے روکے گی۔‘

شیئر: