پنجاب کی بیوروکریسی میں تبادلے، مریم نواز اپنی ٹیم لانے میں کامیاب ہوں گی؟
پنجاب کی بیوروکریسی میں تبادلے، مریم نواز اپنی ٹیم لانے میں کامیاب ہوں گی؟
منگل 13 اگست 2024 19:15
رائے شاہنواز -اردو نیوز، لاہور
مریم نواز جانی انجانی وجوہات کی بنیاد پر تاحال اپنی مرضی کی ٹیم تشکیل نہیں دے پائیں (فائل فوٹو: مسلم لیگ ن ایکس اکاؤنٹ)
پاکستان میں 8 فروری کو ہونے والے انتخابات کے بعد جس طرح سیاسی صورت حال نے کروٹ لی اس میں صوبہ پنجاب میں مریم نواز نے وزارتِ اعلٰی کا عہدہ سنبھالا۔
مریم نواز نے اقتدار سنبھالنے کے بعد کسی ایک افسر کا تبادلہ کیے بغیر نگراں حکومت میں تعینات کردہ افسران کے ذریعے ہی صوبے کا بندوبست چلانا شروع کردیا۔
عام طور پر کوئی بھی نئی حکومت سب سے پہلے اپنے افسران کو چُنتی ہے اور اپنی مرضی کی ٹیم تشکیل دیتی ہے لیکن مریم نواز جانی انجانی وجوہات کی بنیاد پر ایسا نہیں کر پائیں۔
پنجاب میں آج بھی وہی چیف سیکریٹری اور وہی آئی جی پولیس کام کر رہے ہیں جو نگراں وزیراعلٰی محسن نقوی تعینات کر کے گئے تھے۔
تاہم پیر کو پہلی بار پنجاب کی بیوروکریسی میں کچھ اکھاڑ پچھاڑ دیکھنے میں آئی جب وزیراعلٰی نے صوبے میں چھ سیکریٹریز اور ڈپٹی کمشنر تبدیل کیے۔
ان تبدیل کیے گئے افسران میں لاہور کی ڈپٹی کمشنر رافعہ حیدر اور محکمہ سپیشلائزڈ ہیلتھ کے سیکریٹری علی جان بھی شامل ہیں۔ یہ دونوں افسران موجودہ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کے نہایت قریبی گردانے جاتے ہیں۔
علی جان کی جگہ عظمت محمود خان کو پنجاب کا سپیشلائزڈ سیکریٹری ہیلتھ لگایا گیا ہے جبکہ ایڈیشنل سیکریٹری کمیونیکیشن اینڈ ورکس سید موسیٰ رضا کو لاہور کا ڈپٹی کمشنر تعینات کیا گیا ہے۔
ان تبادلوں سے قبل جب وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے لاہور کے ڈی آئی جی آپریشنز علی ناصر رضوی کو آئی جی اسلام آباد تعینات کیا تو پنجاب حکومت نے انہیں ریلیز کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
تاہم چند دنوں میں ’صُلح صفائی‘ کے بعد علی ناصر رضوی کو ریلیز کر دیا گیا اور ان کی جگہ فیصل کامران کو لاہور کا ڈی آئی جی آپریشنز تعینات کیا گیا۔
فیصل کامران لاہور میں تعینات کیے گئے پہلے افسر تھے جن کے بارے میں کہا گیا کہ وہ مسلم لیگ ن کے صدر نواز شریف کی مشاورت سے لگائے گئے ہیں۔
وزیراعلٰی مریم نواز کے دفتر کے ایک سینیئر اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ ’اب یہ سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ بہت جلد آپ کو بہت سے اور تبادلے بھی نظر آئیں گے۔‘
’ہمارا خیال ہے کہ میڈم وزیراعلٰی اب اپنی ٹیم میں ایسے افسران کو فرنٹ پر لائیں گی جنہوں نے اپنی کارکردگی ثابت کی ہے۔ آئندہ چند ہفتوں کے دوران مزید تبادلے بھی ہوں گے۔‘
سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ نگراں حکومت میں تعینات کیے گئے افسران پنجاب میں چُن چُن کر لگائے گئے تھے اور انہوں نے ’ڈیلیور‘ بھی کیا۔ اس لیے یہ تبدیلی بہت آہستہ آہستہ ہی ہو گی۔
سینیئر تجزیہ کار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ ’میرا نہیں خیال کہ مریم نواز کو پنجاب کی موجودہ بیوروکریسی سے کوئی مسئلہ ہے۔‘
’جس طریقے سے ان کی حکومت کو چلانے میں مدد کی گئی ہے اس سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ نہ تو بیوروکریسی سے انہیں کوئی شکوہ ہے اور نہ ہی افسران کو اُن سے۔‘
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ ہر وزیراعلٰی کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنی مرضی کے افسران کی ٹیم بنائے۔‘
’مریم نواز جن افسران کو لگانا چاہتی ہیں اُن کی جگہ آہستہ آہستہ بنتی جائے گی کیونکہ نگراں حکومت میں لگائے گئے افسران کی مدت ڈیڑھ ڈیڑھ دو دو سال ہوچکی ہے اور اب ویسے بھی معمول کے مطابق اُن کے تبادلے ہونے ہیں۔‘
سینیئر صحافی اجمل جامی کا کہنا ہے کہ ’مریم نواز کی بدقسمتی کہہ لیں کہ ان کو کلین مینڈیٹ والی حکومت نہیں ملی، ان کی حکومت پر بھی الیکشن کے حوالے سے اعتراض ہے۔‘
’یہ بات سب سے بڑی رکاوٹ ہے کہ وہ کُھل کر کھیلنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ انہوں نے بہت میچورٹی کا ثبوت دیا ہے کہ بلاوجہ سے کوئی مسائل کھڑے نہیں کیے۔‘
اجمل جامی کہتے ہیں کہ ’میرا خیال ہے کہ انہوں نے اس حوالے سے اپنے چچا (شہباز شریف) سے سیکھا ہے کہ جن چیزوں سے گزارہ ہو سکتا ہو اُن سے گزارہ کیا جائے۔ موقع ملے تو مرضی کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔‘
’ویسے کس وزیراعلٰی کا دل نہیں چاہتا کہ وہ اپنی مرضی سے چیف سیکریٹری، آئی جی پولیس اور دیگر سیکریٹریز لگائے اور طاقت کا پورا توازن اُن کی طرف ہو۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ تو ایک آئیڈیل صورتِ حال ہے اور وزیراعلٰی پنجاب مریم نواز اس آئیڈیل صورتِ حال سے ابھی تھوڑا دُور ہی رہیں گی۔‘