Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جب پنجابی مزدوروں نے بلوچستان کا رخ کرنا شروع کیا، ’اب بس ہو گئی‘

بلوچستان میں کام کرنے والوں کا کہنا ہے کہ 2006 میں حالات خراب ہونا شروع ہوئے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان میں 1965 کی جنگ کے بعد حالات معمول پر آ رہے تھے۔ اس جنگ میں حصہ لینے والے ایک ’عارضی فوجی‘ فلک شیر نے دوبارہ سرکاری نوکری کرنے کے لیے بلوچستان کا رخ کیا۔ فلک شیر کا تعلق وسطی پنجاب کے ضلع حافظ آباد کے گاؤں متیکی سے تھا۔
ان کے بھتیجے محمد احمد نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ان کو ڈیوٹی کے دوران ہی پتا چلا کہ بلوچستان پولیس میں بھرتی کے لیے کسی قسم کی تعلیم کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ کوئٹہ گئے اور پولیس میں بھرتی ہو گئے، اس کے بعد انہوں نے ہمارے گاؤں سے درجنوں افراد کو یہ راستہ دکھایا اور بغیر کسی تعلیم کے وہاں بھرتی ہوئے۔‘
احمد خود بھی بلوچستان پولیس میں بھرتی ہوئے اور ان کے بھائی بھی اسی طریقے سے وہاں بھرتی ہوئے، تاہم نومبر 2006 میں وہ ٹارگٹ کلنگ میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور پھر ان کی جگہ ان کی بیٹی کو اسسٹنٹ سب انسپکٹر کی نوکری بلوچستان حکومت کی جانب سے دی گئی۔
اب دونوں چچا بھتیجی بلوچستان پولیس میں نوکری کر رہے ہیں۔
احمد بتاتے ہیں کہ ’70 اور 80 کی دہائی میں ہمارے گاؤں سے 60 سے 70 افراد پولیس میں بھرتی ہوئے اور اسی دوران ہی اس گاؤں سے 50 سے 60 افراد جو حجامت اور درزی کا کام کرتے تھے وہ بھی منتقل ہو گئے۔ وجہ یہ تھی کہ کوئٹہ میں اس طرح کے کاموں کے لیے بڑا سکوپ تھا، وہاں کے مقامی افراد یہ کام نہیں کرتے تھے اور کوئٹہ ہر لحاظ سے ایک نفع بخش شہر تھا۔‘
انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’ایک وقت تھا جب ہمارے گاؤں کے کافی لوگ وہاں کام کرتے تھے۔‘

پنجاب سے بلوچستان جانے والے لوگوں میں حجام بھی شامل تھے (فوٹو: فیٹا)

ان کے مطابق ’صرف متیکی نہیں بلکہ اس کے اردگرد دیگر دیہاتوں ہزاری اور پتلی سے بھی بڑی تعداد میں لوگوں نے بلوچستان کے مختلف شہروں کا رخ کیا اور پتھروں کی رگڑائی اور دیگر قسم کے کاموں میں مہارت حاصل کی۔‘
اسی علاقے سے تعلق رکھنے والے ایک اور شہری محمد افتخار جو ایک دہائی سے زائد وقت کوئٹہ میں گزار کر واپس اپنے گاؤں آ چکے ہیں، نے بتایا کہ ’وہ بڑا اچھا دور تھا، کوئٹہ میں بہت کام تھا جو بھی جاتا تھا اس کو کچھ نہ کچھ کام مل جاتا تھا۔ میرا اپنا وہاں کاروبار تھا میں نے ایک فارمیسی میں کام شروع کیا تھا پھر اپنی فارمیسی بنا لی۔ ہمیں کبھی بھی محسوس نہیں ہوتا تھا کہ ہم کسی بیگانی جگہ پر ہیں اور وہاں کے مقامی لوگ بھی بڑے پیار کرنے والے تھے۔‘
انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’پھر حالات خراب ہونا شروع ہوئے اور2006 میں کافی خراب ہوئے مگر کوئٹہ میں پھر بھی صورت حال بہتر تھی، لیکن 2014 میں میرے ایک دوست، جو پولیس میں سب انسپکٹر تھا، کا پیچھا کر کے شہید کیا گیا، جس کے بعد میں نے سامان سمیٹ کر واپسی اختیار کر لی۔‘
احمد نے بتایا کہ 2010 کے بعد بلوچستان پولیس میں مقامی ڈومیسائل کے بغیر بھرتیوں پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
’وہ علاقہ جہاں ہماری دو نسلوں نے زندگی گزاری، وہاں حالات خراب ہونے پر گھٹن بڑھ گئی، اب صرف وہ لوگ رہ گئے ہیں جن کا گزارہ نہیں ہے، وہ یا تو سرکاری ملازم ہیں یا پھر انہوں نے شناختی کارڈز پر وہیں کے مستقبل پتے لکھوا لیے ہیں اور زبان بھی سیکھ لی ہے۔ اب تو ہم چھٹی پر آتے اور جاتے ہوئے بھی خوف زدہ رہتے ہیں۔‘

درزی کے کام میں بہت سکوپ تھا اس لیے پنجاب سے درزی بھی بلوچستان منتقل ہوئے (فوٹو: سوشل میڈیا)

وسطی پنجاب کے علاوہ جنوبی پنجاب سے بھی بڑی تعداد میں لوگوں نے کوئٹہ کا مزدوری کے لیے کا رخ کیا۔ رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والے محمد ابوبکر نے بتایا کہ ’ملک کے جنوب میں کوئٹہ اور کراچی ہی تو ہیں جہاں مزدوری اور کام آسانی سے مل جاتا تھا لیکن اب سب کچھ بدل گیا ہے۔‘
ان کے مطابق ’پچھلے کچھ عرصے سے تو ہمارے علاقے کے بڑے لوگ مارے گئے ہیں، میں نے 10 سال وہاں گزارے ہیں اب میری بس ہو گئی تھی اور میں واپس آ گیا ہوں۔‘
پنجاب سے بلوچستان کا رخ کرنے والے عمومی طور پر تین طرح کے لوگ ہوتے ہیں ایک وہ جنہوں نے مستقل نوکری اور محنت مزدوری کے لیے کوئلے کی کانوں سے لے کر حجام اور درزی جیسے کام شروع کیے۔ دوسرے وہ افراد جو ایران میں زیارتوں کے لیے بلوچستان کا بارڈر استعمال کرتے ہیں۔
جبکہ تیسری قسم ان لوگوں کی ہے جو غیرقانونی طور پر ایران اور ترکی کے راستے یورپ جانا چاہتے ہیں، دوسری اور تیسری قسم کے لوگوں کے لیے ایجنٹس کچھ روز کوئٹہ میں انہیں عارضی رہائش فراہم کرتے ہیں۔

شیئر: