Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کسی بلوچ نے پنجابی کو نہیں مارا بلکہ پاکستانیوں کو مارا ہے: وزیراعلٰی بلوچستان

وزیراعلی کے مطابق یہ کارروائیاں کرنے والے ناراض بلوچ نہیں بلکہ دہشت گرد ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
بلوچستان میں مختلف مقامات پر شدت پسندوں کے حملوں کے حوالے سے وزیراعلی بلوچستان سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ ’کسی بلوچ نے پنجابی کو نہیں مارا بلکہ پاکستانیوں کو مارا ہے۔‘
پیر کو کوئٹہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’یہ بزدلانہ فعل ہے، یہ کون سی بلوچ روایات ہیں، یہ دہشت گرد ہیں۔ ان کا کوئی مذہب اور قبیلہ نہیں ہے۔ اس وقت تک 21 دہشت گردوں کو مارا گیا ہے۔‘
’ہم ان کو ان کے سہولت کاروں اور ہمدردوں کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔ یہ ظلم اور نسل کشی ہے۔ 38 معصوم لوگوں کو شناخت کر کے شہید کیا گیا۔‘
ان کے مطابق یہ کارروائیاں کرنے والے ناراض بلوچ نہیں بلکہ دہشت گرد ہیں۔
سرفراز بگٹی نے کہا کہ ’لوگ کہتے ہیں کہ مذاکرات کرلیں، ہم کس کے ساتھ مذاکرات کریں، یہ بندوق کے زور پر مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔ جو مذاکرات کرنا چاہتے ان کے لیے دروازے کھلے ہیں۔ کسی کو بندوق کے زور پر اپنا ایجنڈا مسلط نہیں کرنے دیں گے۔ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک ان کا پیچھا کریں گے۔‘
’یہ سافٹ ٹارگٹ ڈھونڈتے ہیں اور پہاڑوں پر بھاگ جاتے ہیں، اگر اتنے بہادر ہیں تو وہیں رکیں۔‘
وزیراعلی کا کہنا تھا کہ ’لاپتہ افراد ایک مسئلہ ہے اور اس پر کام ہو رہا ہے، 84 فیصد کیسز حل کر لیے گئے ہیں، لیکن مقصد یہ نہیں ہے بلکہ ریاست کے خلاف پراپیگنڈہ کرنا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’سمارٹ کائنیٹک اپروچ کے تحت کارروائیاں ہو رہی ہیں اور اس کے لیے کی بڑے آپریشن کی ضرورت نہیں ہے۔ کارروائیاں ہو رہی ہیں۔ خفیہ ادارے بہت سے حملے روک رہے ہیں۔‘
خیال رہے بلوچستان میں مسلح افراد کی جانب سے صوبے کے مختلف مقامات پر بیک وقت کیے گئے حملوں میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 38 ہو گئی ہے۔
بلوچستان میں رات گئے حملوں میں مسلح افراد نے ریلوے کے ایک پُل کو بھی دھماکے سے اڑا دیا جبکہ درجن سے زائد گاڑیوں کو آگ لگا کر جلا دیا۔
حکام کے مطابق اتوار اور پیر کی درمیانی شب شدت پسندوں نے بیک وقت موسیٰ خیل، مستونگ، قلات، لسبیلہ، کچھی اور گوادر میں بڑے حملے کیے جن میں لیویز، پولیس تھانوں، سکیورٹی فورسز کے کیمپوں اور سرکاری املاک کو نشانہ بنایا گیا۔
درجنوں حملہ آوروں نے کوئٹہ کراچی، کوئٹہ ڈیرہ غازی خان اور کوئٹہ سکھر شاہراہوں پر بھی حملے کیے۔
انہوں نے سڑکوں کی ناکہ بندی کرکے گاڑیوں کو روک کر تلاشی لی جس کی وجہ سے صوبے کی اہم شاہراہیں رات بھر ٹریفک کے لیے بند رہیں۔

آئی ایس پی آر کے مطابق ’سکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے فوری طور پر ان دہشت گردانہ حملوں کا جواب دیا۔‘ (فوٹو اے ایف پی)

بلوچستان میں 21 دہشت گرد ہلاک، 14 سکیورٹی اہلکار جان سے گئے: آئی ایس پی آر
قبل ازیں پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے کہا کہ 25 اور 26 اگست کی رات کو دہشت گردوں نے بلوچستان میں کئی گھناؤنی سرگرمیاں انجام دینے کی کوشش کی۔
پیر کو آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری بیان کے مطابق ’دشمن اور معاندانہ قوتوں کی شہہ پر کیے جانے والے ان دہشت گرادنہ حملوں کا مقصد موسٰی خیل، قلات اور لسبیلہ کے اضلاع میں بے گناہ شہریوں کو ٹارگٹ کر کے صوبے کے پرامن ماحول کو خراب کرنا اور بلوچستان کی ترقی کو روکنا تھا۔‘
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’ان حملوں کے نتیجے میں کئی عام شہری شہید ہو گئے ہیں۔‘
آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ موسیٰ خیل ضلع کے رارا شام کے علاقے میں دہشت گردوں نے بس کو روک کر بے گناہ شہریوں کو نشانہ بنایا جو کہ بلوچستان میں محنت مزدوری کر رہے تھے۔
’سکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے فوری طور پر ان دہشت گردانہ حملوں کا جواب دیا اور دہشت گردوں کے مذموم عزائم کو ناکام بنایا اور کلیئرنس آپریشنز میں 21 دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا اور مقامی لوگوں کی حفاظت اور سکیورٹی کو یقینی بنایا۔‘
’تاہم ان آپریشنز کے دوران وطن کے 14 سپوتوں نے بہادری سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کی جن میں 10 فوجی اور چار قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار ہیں۔‘
بیان میں کہا گیا ہے کہ ’اس وقت سینیٹائزیشن آپریشنز جاری ہیں اور ان بزدلانہ کارروائیوں کو کرنے والوں، اکسانے، سہولت کاری اور ان میں مدد  دینے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔‘
آئی ایس پی آر کے مطابق سکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے ادارے قوم کے شانہ بشانہ بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال خراب کرنے والوں اور استحکام اور ترقی کو روکنے والوں کی کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے پرعزم ہیں۔

شیئر: