’کٹھن مرحلہ‘، وہ ممالک جن کا ویزا پاکستان نہیں، کہیں اور سے لگتا ہے
’کٹھن مرحلہ‘، وہ ممالک جن کا ویزا پاکستان نہیں، کہیں اور سے لگتا ہے
اتوار 1 ستمبر 2024 5:16
بشیر چوہدری، اردو نیوز۔ اسلام آباد
دوسرے ممالک میں موجود سفارت خانوں کے ذریعے ویزا کے لیے درخواست دینے کا عمل اکثر اضافی اخراجات کا باعث بنتا ہے۔ (فائل فوٹو: ایکس)
بیرون ملک تعلیم کا حصول ہو، شادی کے بعد سسرال والوں کے پاس جانا ہو یا شادی شدہ بیٹی سے ملاقات کی خواہش کسی پاکستانی کو بیرون ملک جانے پر مجبور کر دے تو ویزا کا حصول پاکستانیوں کے لیے مشکل ہو جاتا ہے۔
خاص کر اگر ویزا بھی ایسے ملک کا حاصل کرنا ہو جس کا سفارت خانہ پاکستان میں موجود نہ ہو یا اس کا ویزا سیکشن موجود نہ ہو تو یہ مشکل دوہری ہو جاتی ہے۔
نیوزی لینڈ، فِن لینڈ، سکاٹ لینڈ، کروشیا اور بلغاریہ وغیرہ شامل ہیں جبکہ آسٹریا، کینیڈا، یونان، سویڈن، ڈنمارک اور کئی دیگر ممالک ایسے ہیں جن کے سفارت خانے یا ہائی کمیشن تو پاکستان میں موجود ہیں لیکن ان کے ویزا سیکشن نہیں ہیں یا پھر بند کر دیے گئے ہیں۔
اس صورت حال کے باعث لاہور کی سارہ احمد جیسے پاکستانی شہریوں کے لیے بیرون ملک جانے کا خواب ایک مشکل اور پیچیدہ سفر میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ سارہ ایک طالبہ ہیں اور انہوں نے اعلٰی تعلیم کے لیے آسٹریا کی ایک یونیورسٹی کے لیے سکالرشپ حاصل کی ہے۔
لیکن جب انہوں نے آسٹریا کا ویزا حاصل کرنے کی کوشش کی تو انہیں پتہ چلا کہ وہ اپنی درخواست براہ راست پاکستان میں جمع نہیں کرا سکتیں۔ اس کے لیے انہیں اپنی درخواست ایران میں آسٹریا کے سفارت خانے بھیجنا ہو گی۔ جس کے لیے انہیں ایک طویل اور کٹھن مرحلے سے گزرنا پڑا۔
اردو نیوز سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ’میں نے سوچا تھا کہ پاکستان میں سفارت خانے کا مطلب یہ ہو گا کہ میں یہاں سے درخواست دے سکوں گی۔ لیکن جب پتہ چلا کہ یہ سفارت خانہ ویزا کی درخواستیں پروسیس نہیں کرتا تو ایسا لگا جیسے میرے سامنے دیوار کھڑی ہو گئی ہو، اور میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گئی کہ آگے کیسے بڑھوں۔‘
سارہ کی کہانی منفرد نہیں ہے۔ ہزاروں پاکستانی شہری ایسے ہی چیلنجز کا سامنا کرتے ہیں جب وہ ان ممالک کے ویزا کے لیے درخواست دیتے ہیں جن کے پاکستان میں ویزا سیکشن موجود نہیں ہیں۔ اس صورتحال کی وجوہات مختلف ہو سکتی ہیں، جن میں سفارتی پیچیدگیاں، لاجسٹک مسائل اور معاشی عوامل شامل ہیں۔
راولپنڈی کے ایک کاروباری محمد عارف کو بھی ایسی ہی مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔ انہیں کروشیا میں ایک کاروباری کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی، لیکن پتہ چلا کہ انہیں ویزا کے لیے درخواست دینے کے لیے پہلے متحدہ عرب امارات یا ایران جانا پڑے گا۔
اردو نیوز سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ’مجھے کروشیا کے ویزا کے لیے درخواست دینے سے پہلے یو اے ای کا ویزا حاصل کرنا پڑا۔ یہ صرف خرچ کی بات نہیں ہے۔ یہ میرے کاروبار سے دوری کا وقت اور غیریقینی صورت حال ہے۔‘
بہت سے ممالک کے پاکستان میں سفارت خانے ہیں لیکن مقامی سطح پر ویزا پروسیس نہیں کرتے کیونکہ ان کے پاس سفارتی وسائل کی کمی ہوتی ہیں۔ کچھ ممالک اپنے ویزا پروسیسنگ کو ایک ہی علاقائی مرکز میں مرکوز کرنے کو ترجیح دیتے ہیں تاکہ آپریشنز کو منظم کیا جا سکے۔
بعض ممالک کے پاس پاکستان میں ویزا درخواستوں کے بڑے حجم کو سنبھالنے کے لیے مناسب انفراسٹرکچر یا عملہ نہیں ہوتا۔ نتیجتاً، پاکستانی درخواست گزاروں کو اپنی دستاویزات دوسرے ممالک میں موجود سفارت خانوں کو بھیجنی پڑتی ہیں، جس سے اخراجات، تاخیر اور مزید پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
دوسرے ممالک میں موجود سفارت خانوں کے ذریعے ویزا کے لیے درخواست دینے کا عمل اکثر اضافی اخراجات کا باعث بنتا ہے، جو کہ بہت سے درخواست گزاروں کے لیے ناقابل برداشت ہو سکتا ہے۔ ان اخراجات میں بین الاقوامی کوریئر سروسز، زیادہ ویزا فیس (کرنسی کی تبدیلی کی وجہ سے)، بائیومیٹرک اپائنٹمنٹ کے لیے سفر، اور ممکنہ قانونی یا ترجمے کی فیسیں شامل ہیں۔
کئی پاکستانی خاندانوں کے لیے یہ اخراجات غیرمعمولی مالی بوجھ بن جاتے ہیں۔ یہ زائد اخراجات بیرون ملک تعلیم، کاروبار، یا سیاحت کے لیے سفر کو ایک مشکل ہدف بنا دیتے ہیں۔
احسن ملک ایک کاروباری آدمی ہیں۔ ان جیسے کئی لوگوں کے لیے کے لیے یہ صورتحال خاص طور پر چیلنجنگ ہے، جو کاروباری معاملات کے لیے ویزا حاصل کرنے کے خواہش مند ہیں۔ اضافی اخراجات اور تاخیر نے ان کے کاروبار کو تقریباً ناکام بنا دیا۔
’میں نے اپنے کاروبار کے سلسلے میں کچھ منصوبے بنائے تھے تاکہ پاکستان کے ساتھ ساتھ اسے بیرون ملک بھی پھیلایا جائے۔ لیکن مجھے ویزا درخواست دینے کے لیے ابوظہبی جانا پڑا۔ ابوظہبی جانے اور ہفتوں تک انتظار کرنے کے اضافی اخراجات نے میرے لیے شدید مشکلات پیدا کیں۔ مجھے اپنے خواب کو ترک کرنے کا خیال بھی آیا تھا۔‘
یہ مشکلات پاکستانی شہریوں کی زندگیوں پر گہرا اثر ڈالتی ہیں۔ سارہ اور احسن جیسے مسافر خود کو ایک ایسے دوراہے پر پاتے ہیں جہاں بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے، اپنے عزیزوں سے ملنے یا نئے مواقعوں کی تلاش کے خوابوں پر غیریقینی کی دھند چھا جاتی ہے۔
ایسے درخواست گزاروں کے لیے بطور کنسلٹنٹ کام کرنے والے آصف احمد کا کہنا ہے کہ ’دستاویزات کو بیرون ملک بھیجنے کے اضافی اخراجات، فیسوں کے لیے غیرملکی کرنسی کے مسائل اور طویل انتظار نے اس عمل کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔ بہت سے درخواست گزار اس بات پر بھی فکرمند ہیں کہ پروسیسنگ سفارت خانوں کے ساتھ براہ راست رابطے کی کمی سے وہ بے بس محسوس کرتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یہ معاشی اثرات صرف انفرادی درخواست گزاروں تک محدود نہیں رہتے۔ جب پاکستانی طلبہ، کاروباری افراد، اور سیاح آسانی سے ویزا حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو اس سے ان کے ذاتی اور پیشہ ورانہ ترقی کے مواقع محدود ہو جاتے ہیں۔ اس کا پاکستان کی معیشت پر بھی اثر پڑتا ہے، کیونکہ ملک ممکنہ ترسیلات زر، بین الاقوامی تجارتی معاہدے، آمدنی سے محروم ہو جاتا ہے۔ بیرون ملک سفر میں یہ رکاوٹیں ثقافتی تبادلے اور سافٹ ڈپلومیسی کو بھی متاثر کرتی ہیں، وہ شعبے جہاں پاکستان کو زیادہ فعال عالمی شرکت سے فائدہ ہو سکتا ہے۔‘
آصف احمد کا مزید کہنا تھا کہ ’سفارتی سطح پر بہت سے ممالک پر زور دیا جا رہا ہے کہ یہ ممالک مقامی ویزا پروسیسنگ سیکشن قائم کریں یا زیادہ قابل رسائی علاقائی مراکز بنائیں۔ ویزا درخواست کے عمل کو آسان بنانے سے نہ صرف مسافروں کو فائدہ ہو گا بلکہ سفارتی اور اقتصادی تعلقات کو بھی تقویت ملے گی۔‘