Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نئی مانیٹری پالیسی میں شرح سود میں کمی کا امکان، کیا ڈالر کا ریٹ بڑھنے جا رہا ہے؟

ایکسچینج کمپینز آف پاکستان کے سیکریٹری ظفر پراچہ کا کہنا ہے کہ اگر ادارے فعال رہیں تو ڈالر کے نرخوں کو قابو میں رکھا جا سکتا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
پاکستان میں حالیہ دنوں کے دوران شرح سود میں کمی کے مطالبات میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ ملک کے بیشتر صنعتکاروں اور تاجروں نے مرکزی بینک سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مانیٹری پالیسی میں شرح سود میں 3 سے 4 فیصد تک کمی کرے۔
ماہرین کے مطابق سٹیٹ بینک کے لیے موجودہ حالات میں شرح سود میں بڑی کمی کرنا مشکل ہوگا۔ ایک طرف، حکومت اور عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے درمیان معاہدہ حتمی شکل اختیار نہیں کر سکا ہے اور دوسری طرف اگر شرح سود میں بڑی کمی کی گئی تو اس کا براہ راست اثر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر پر پڑے گا۔
اس سے پاکستانی روپے پر دباؤ بڑھے گا جو پاکستانی معیشت کے لیے مزید مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔ اس صورتحال میں ڈالر کی قدر میں اضافے اور گرے مارکیٹ میں مصنوعی قلت کا بھی امکان ہے۔
معاشی امور کے ماہر عبدالعظیم نے بتایا کہ پاکستان میں شرح سود میں بڑی کمی آسان نہیں ہے،  پاکستان کو آئی ایم ایف سے قرض کے لیے سخت شرائط کا سامنا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ تاجروں اور صنعتکاروں کی جانب سے بھی شرح سود میں کمی کی درخواستیں کی جا رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں ایک بڑا حصہ دوست ممالک کے تعاون سے فراہم کردہ مالیات پر مبنی ہے۔ ایسی صورت میں اگر شرح سود میں بڑی کمی کی گئی تو بینکوں سے پیسہ نکلنے کا بھی امکان ہے. 
حکومت کی حکمت عملی
عبدالعظیم نے مزید کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ ملکی معیشت کو سہارا دینے کے لیے سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرے اور انہیں ایسے مواقع فراہم کرے تاکہ وہ ملک میں سرمایہ کاری کر سکیں۔
سابق بینکر اور معاشی امور کے ماہر شاہد حسن صدیقی کا کہنا ہے کہ شرح سود میں 150 بیسس پوائنٹس تک کمی کا امکان ہے اور حکومت کے لیے معاشی حالات بہت سازگار تو نہیں ہیں لیکن یہ فیصلہ ہوتا نظر آ رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرنے کے لیے مزید اقدامات کرنے ہوں گے۔ 

مانیٹری پالیسی میں شرح سود 3 سے 4 فیصد کم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

مارکیٹ کی صورتحال
ایکسچینج کمپینز آف پاکستان کے سیکریٹری ظفر پراچہ نے اردو نیوز کو بتایا کہ آئی ایم ایف اور حکومت کے درمیان مذاکرات جاری ہیں اور آئی ایم ایف نے پاکستان کو قرض دینے سے انکار نہیں کیا۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ ماضی کی طرح موجودہ مسئلے کو بھی بات چیت کے ذریعے حل کیا جا سکے گا۔
ظفر پراچہ نے کہا کہ موجودہ حالات میں پاکستانی معیشت منفی خبروں کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتی۔ انہوں نے بعض عناصر کی جانب سے مارکیٹ میں منفی خبروں کو پھیلانے اور ڈالر کی گرے مارکیٹ کو دوبارہ فعال کرنے کی کوششوں پر تشویش ظاہر کی۔
ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں آرمی چیف کے فیصلوں کی طرح اگر ادارے فعال رہیں تو ڈالر کے نرخوں کو قابو میں رکھا جا سکتا ہے۔
ٹاپ لائن سیکیورٹیز کی جانب سے کرائے گئے ایک سروے میں 98 فیصد شرکاء کا خیال ہے کہ مرکزی بینک شرح سود میں کمی کا اعلان کرے گا جبکہ پچھلے سروے میں یہ تعداد 75 فیصد تھی۔
ٹاپ لائن سیکیورٹی کے ڈپٹی ہیڈ ریسرچ شنکر تلریجا کے مطابق 98 فیصد میں سے 85 فیصد شرکاء کو توقع ہے کہ شرح سود میں 150 بیسس پوائنٹس سے زیادہ کمی ہوگی، جبکہ 15فیصد کا کہنا ہے کہ کمی 50-100 بیسس پوائنٹس کے درمیان ہوگی۔
’ہمارا خیال ہے کہ آئندہ مانیٹری پالیسی اجلاسوں میں بڑی شرح سود کی کمی کی توقعات اگست 2024 کی سنگل ڈیجٹ مہنگائی کی شرح 9.6 فیصد کی وجہ سے ہیں جو ستمبر 2024 میں بھی جاری رہنے کی توقع ہے۔‘
انہوں نے اس توقع کا اظہار کیا کہ سٹیٹ بینک شرح سود میں 150 بیسس پوائنٹس کی کمی کرسکتا ہے۔ 

پاکستان میں مہنگائی کی شرح کم ہو کر 9.6 فیصد ریکارڈ کی گئی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

یاد رہے کہ پاکستان میں اس وقت شرح سود 19.5 فیصد ہے.سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے 12 ستمبر کو نئی مانیٹری پالیسی کا اعلان کیا جائے گا۔  
پاکستان کی معیشت میں شرح سود میں کمی کا مطالبہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جس کے حل کے لیے حکومت اور مرکزی بینک کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے کے ساتھ مذاکرات، زرمبادلہ کے ذخائر کی صورتحال اور مارکیٹ کے موجودہ حالات سب ایسے عوامل ہیں جو اس مسئلے کی پیچیدگی میں اضافہ کرتے ہیں۔

شیئر: