ایم ایف حسین: سنیما کے ہورڈنگ بنانے والا مصوّر انڈیا کا ’پکاسو‘ کیسے بنا؟
ایم ایف حسین: سنیما کے ہورڈنگ بنانے والا مصوّر انڈیا کا ’پکاسو‘ کیسے بنا؟
منگل 17 ستمبر 2024 5:59
علی عباس۔ لاہور
یہ عظیم مصور 15 ستمبر 1915 کو انڈین ریاست مہاراشٹر کے شہر سولاپور کے قصبے پنڈھارپور میں پیدا ہوا (فوٹو: انڈیا ٹوڈے)
وہ اُس وقت نوجوان تھا۔ کام کی تلاش میں بمبئی کا رُخ کیا۔ جیب خالی تھی، سارا دن مہا نگری کی خاک چھاننے کے بعد رات کے سائے گہرے ہوئے تو سونے کے لیے مناسب جگہ کی تلاش کرنے لگا اور قریب ہی شہر کی ایک مصروف شاہراہ گرانٹ روڈ کے ایک باغ میں سونے کا فیصلہ کیا۔
تھکان کی وجہ سے کچھ ہی لمحوں میں نیند کی گہری آغوش میں جا چکا تھا۔ صبح ہوئی تو آنکھیں ملتے ہوئے دائیں بائیں دیکھا۔ سڑک کے دوسری جانب ایک سنیما گھر کے ہورڈنگ پر ایک ادھوری تصویر بنی ہوئی تھی جب کہ اس پر کام کر رہے مصور ناشتہ کرنے کے لیے قریبی ڈھابے پر گئے ہوئے تھے۔
وہ نوجوان ہورڈنگ بنانے کے لیے وہاں رکھے گئے لکڑی کے چبوترے پر چڑھا، رنگ اور بَرش دیکھے تو تصویر مکمل کرنے کی ٹھان لی۔ چند ہی لمحوں بعد جب اُس ہورڈنگ پر کام کر رہے مصور واپس آئے تو اُن کا حیران ہونا بجا تھا کیوں کہ نوجوان نے کسی قسم کی مدد کے بغیر تصویر کو بہت حد تک مکمل کر لیا تھا۔ انہوں نے فی الفور اسے ملازمت کی پیشکش کر ڈالی اور یوں برصغیر پاک و ہند کے عظیم مصور مقبول فدا حسین یا ایم ایف حسین کے بے مثل فنی سفر کا آغاز ہوا۔
نوجوان مقبول نے اگلے چند برس بچوں کے لیے فرنیچر بنانے والی ایک کمپنی میں کام کیا جس نے ان کے فن کو جلا بخشنے میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ فرنیچر پر بچوں کے لیے کبھی گل بُوٹے تو کبھی مناظرِ فطرت یا کارٹون مصور کیا کرتے۔
یہ عظیم مصور 15 ستمبر 1915 کو انڈین ریاست مہاراشٹر کے شہر سولاپور کے قصبے پنڈھارپور میں پیدا ہوا۔ دریائے بھیما کے کنارے آباد یہ قصبہ ہندوؤں کے لیے غیرمعمولی تقدس کا حامل ہے جہاں ہر سال لاکھوں ہندو یاتری آتے ہیں۔
نوجوان مقبول کا خاندان بنیادی طور پر انڈین ریاست گجرات سے تعلق رکھتا تھا جس نے یمن سے ہندوستان ہجرت کی تھی۔ اُن کا داخلہ کمسنی میں ہی گجرات کے شہر بروڈا (موجودہ وڈودرا) کے ایک مدرسے میں کروا دیا گیا جہاں اُن کی خطاطی کے فن پاروں کو دیکھ کر رنگوں میں دلچسپی پیدا ہوئی۔ وہ رنگوں سے کھیلنے لگے، اُن کی زباں سمجھنے لگے اور اُن سے باتیں کرتے کرتے وہ رنگوں کی دنیا کے سحر میں کھو گئے۔
شوق جب جنون میں تبدیل ہوا تو ممبئی کا رُخ کیا اور چند ہی برسوں میں سنیما ہورڈنگ بنانے والا یہ نوجوان رنگوں کی دنیا کا مستقل باسی بن چکا تھا۔
یہ تقسیم کے دنوں کا ذکر ہے جس نے مصور کے کریئر پر دوررَس اثرات مرتب کیے۔ انہوں نے سال 1948 میں پراگریسیو آرٹسٹس گروپ میں شمولیت اختیار کرلی جس کے بعد تصاویر مصور کرنے کے لیے کبھی ہمالیہ کے برف پوش پہاڑوں کا رُخ کرتے تو کبھی راجھستان کے صحرا اُن کی منزل ٹھہرتے۔ وہ اپنی اس جہاں گردی کے دوران بہت سے مناظر سے متاثر ہوئے، مختلف طرح کے لوگوں سے ملے اور انہوں نے ان کی کہانیاں سنیں اور فنکارانہ روایات کے بارے میں بھی آگہی حاصل کی۔
آن لائن پبلشنگ کے ادارے ‘میڈیم‘ کے لیے دیویا راماچندرن اپنے ایک مضمون میں لکھتی ہیں کہ ’(ایم ایف) حسین نے 30 کی دہائی میں فروغ پذیر بالی ووڈ فلم انڈسٹری کے لیے بل بورڈ بناتے ہوئے فنِ مصوری میں مہارت حاصل کی۔ وہ نوجوانوں فنکاروں کی اُس منڈلی کا حصہ تھے جو بنگالی طرز کی قوم پرست مصوری سے بغاوت کرتے ہوئے جدید انڈین مصوری کے فروغ کے لیے کوشاں تھی۔‘
دیویا راماچندرن مزید لکھتی ہیں کہ ’یہ فنکار 14 اگست 1947 کو انڈیا اور پاکستان کی ‘تقسیم‘ کو، جس میں مذہبی تصادم کے دوران بہت زیادہ جانی نقصان ہوا، دسمبر 1947 میں پراگریسیو آرٹسٹس گروپ کی تشکیل کی وجہ قرار دیتے تھے اور تقسیم کو انڈیا کے علاوہ فنِ مصوری کو جدید رجحانات سے ہم آہنگ کرنے کے تناظر میں بھی فیصلہ کن قرار دیتےتھے۔‘
انڈیا کے جریدے ’پلیٹ فارم‘ میں شائع ہونے والے ایک اور مضمون میں ایم ایف حسین کی کہانی اُن کی زبانی کچھ یوں بیان کی گئی ہے۔
’میں جب چھ برس کا ہوا تو رنگ و برش میری زندگی کا لازمی جزو بن گئے۔ میرے والد ایک ٹیکسٹائل مل میں اکاؤنٹنٹ تھے اور ہم اندور میں رہتے تھے۔ وہاں کوئی گیلری یا میوزیم نہیں تھا چناں چہ اس وقت تک تو کسی سے متاثر نہیں ہوا بلکہ صرف مصوری کرنے کا شوق تھا۔ سال 1948 میں تقسیم کے بعد میں نے اپنی پہلی تصویر فروخت کی۔‘
1950 کی دہائی نوجوان مصور کے لیے فیصلہ کن ثابت ہوئی جب انہوں نے بیرون ملک کا پہلا دورہ کیا۔ وہ سوئٹزرلینڈ کے شہر زیوریخ گئے مگر ہمیشہ کی طرح برہنہ پا۔
یہ اس عظیم مصور کے فن پاروں کی بیرونِ ملک پہلی نمائش تھی۔ اس نمائش کے دوران اُن کی اپنے عہد کے عظیم مصوروں پیبلو پکاسو، ہنری میٹسی اور پال کلِی سے ملاقات ہوئی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ آنے والے برسوں میں ’انڈیا کے پکاسو‘ کے نام سے شہرت حاصل کرنے والے ایم ایف حسین پکاسو سے زیادہ پال کلِی کے فن کے مداح تھے۔ یہ مگر الگ بات ہے کہ ایم ایف حسین کی ایک یادگار تصور پکاسو کے فن پارے ’دی اولڈ گٹارسٹ‘ سے متاثر ہے جس میں ایک خاتون ستار بجاتے ہوئے دکھائی گئی ہیں۔
’میڈیم‘ کے لیے دیویا راماچندرن لکھتی ہیں کہ ’مصور کے فن پاروں کی اولین سولو ایگزیبیشن سال 1952 میں زیوریخ میں منعقد ہوئی۔ امریکا میں ان کی پہلی نمائش سال 1964 میں نیویارک میں انڈیا ہائوس میں ہوئی۔ مصور کو سال 1966 میں گراں قدر پدما شری ایوارڈ سے نوازا گیا۔‘
ایم ایف حسین نے مصوری کے علاوہ مجسمہ سازی، ڈرائنگ اور فلم سازی میں بھی اپنی صلاحیتوں کا کھُل کر اظہار کیا جب کہ برش کے علاوہ قلم سے بھی ان کا ناتا ہمیشہ جڑا رہا۔ ان کے فن پاروں میں جابجا انسانیت اور انسان بکھرے ہوئے ہیں۔ انڈیا کی عورت کی زیست کے مختلف رنگوں کو دریافت کرنا اُن کی زندگی کا ایک اہم مقصد رہا۔
ایف ایم حسین نے ’پلیٹ فارم‘ سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’میں پوری زیست چیزوں کو ایک آرٹ فارم کے طور پر دیکھتا رہا ہوں۔ میں نے سٹول کو کبھی محض ایک سٹول کے طور پر نہیں دیکھا۔ میں اسے ایک (آرٹ) فارم کے طور پر دیکھتا ہوں۔ میری ویژول یادداشت بہت اچھی ہے، بہت سی چیزیں میرے دماغ کے نہاں خانوں میں محفوظ ہو جاتی ہیں جو کسی نہ کسی طور پر میرے فن میں ظاہر ہوتی ہے جس کے باعث میرا ذہن کبھی خالی نہیں ہوا۔ میں نہیں جانتا کہ بور ہونے کا مطلب کیا ہے کیوں میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ یہاں بہت کچھ ہے اور بہت کچھ کیا جا سکتا ہے جس کے لیے ایک زندگی ناکافی ہے۔‘
ایم ایف حسین نے زیوریخ کے بعد دنیا بھر کا سفر کیا۔ چین اور یورپی ہم عصروں سے ان کی ملاقاتوں کا سلسلہ اُسی دور میں شروع ہوا۔
یہ سال 1956 کا ذکر ہے جب مصور اپنی تصویروں کی نمائش کے لیے چیک رپبلک کے دارالحکومت پراگ گئے اور اپنی مترجم ماریہ کی محبت میں ایسا گرفتار ہوئے کہ اس کو اپنی تمام تصاویر تحفتاً پیش کر دیں۔
انہوں نے اپنی اس محبت کا اظہار اپنے فن پاروں میں عورت کے مختلف روپ مصور کر کے کیا۔
انڈین اخبار ’ڈی این اے‘ مصنف کشور سنگھ کی کتاب ’ایم ایف حسین: لیجنڈ کا سفرِ زیست‘ کے حوالے سے اپنے ایک مضمون میں اس پریم کتھا کے بارے میں لکھتا ہے، ’نمائش جب شروع ہوئی تو سب کے لیے یہ باعثِ حیرت تھا جب (ایم ایف) حسین نے یہ اعلان کیا کہ وہ یہ تصویریں فروخت نہیں کر رہے بلکہ یہ سب کی سب ماریہ کو تحفے میں دے رہے ہیں۔ سال 1957 میں ایئرانڈیا نے جب پراگ میں اپنے دفتر کی دیواروں کو مصور کرنے کے لیے مصور کی خدمات حاصل کیں تو انہوں نے فی الفور یہ پیشکش قبول کر لی اور یوں دونوں کا تعلق برقرار رہا۔ وہ پراگ آتے جاتے رہے۔ انہوں نے (ماریہ کو) شادی کی پیشکش بھی کی، جنہوں نے اس پیشکش پر غور کیا اور یوں دونوں نے طویل فاصلے کی اس محبت کو قائم رکھا اور دونوں ایک دوسرے کو محبت اور جنوں سے خطوط لکھتے رہے۔
انہوں نے اپنے ایک خط میں لکھا کہ ’آسمان کی وسعتوں کو تھام لو کیوں کہ میں اپنے کینوس کی وسعت کے بارے میں آگاہ نہیں ہوں۔‘
دونوں کی یہ پریم کہانی اس وقت دردناک انجام سے دوچار ہوئی جب ماریہ نے سال 1968 میں شادی کر لی۔ وہ دونوں مگر رابطے میں رہے۔ سال 2006 میں اس پریم کہانی کے تقریباً نصف صدی بعد ایم ایف حسین کو نئی دلی میں ایک روز ان کی رہائش گاہ پر اُن کی تصویروں کا کنٹینر موصول ہوا جس کے ساتھ ایک مختصر رقعہ تھا جس میں لکھا تھا کہ ’میں یہ تحفہ تمہیں واپس کرنا چاہوں گی جو تم نے کبھی مجھے دیا تھا۔ یہ میری نہیں ہیں بلکہ انڈیا کی ہیں۔‘
انڈیا کے مؤقر اخبار ’ٹائمز آف انڈیا‘ سے کئی دہائیوں تک منسلک رہنے والے سینیئر صحافی خالد محمد کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے ایم ایف حسین نے کہا تھا کہ ’میں نے ماریہ کے جو چھ پورٹریٹ بنائے تھے، وہ اس نے مجھے واپس نہیں کیے۔ اس نے مجھے میرا آرٹ واپس کیا ہے، میری محبت نہیں۔‘
ایم ایف حسین اگرچہ شادی شدہ تھے اور سال 1941 میں اُن کی شادی ہوئی تھی جس سے ان کے چھ بچے تھے جن میں سے اویس حسین اور شمشاد حسین نے اپنے والد کے نقشِ پا پر چلتے ہوئے مصوری کا انتخاب ہی کیا۔ اویس حسین نے تو فلم سازی میں بھی قدم رکھا مگر اس (شادی) سے ان کی ماریہ سے محبت پر کوئی فرق نہیں پڑا۔
ایم ایف حسین اگرچہ ایک مسلمان خاندان سے تعلق رکھتے تھے مگر انہوں نے دوسرے مذاہب اور ثقافتوں کو بھی اپنے فن پاروں میں پیش کیا۔ اُن کو سال 1996 میں اس وقت مشکل وقت سے گزرنا پڑا جب ان کے کچھ فن پاروں پر شدید ردِعمل آیا جس میں انہوں نے ہندو دیویوں کو مصور کیا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے یہ فن پارے 1970 میں مصور کیے تھے مگر ربع صدی تک ان پر کوئی بات نہیں ہوئی اور جب ایک ہندی جریدے نے ایم ایف حسین کے بارے میں مضمون ’ایم ایف حسین، ایک مصور یا قصائی‘ چھاپا تو ہر طرف شور مچ گیا اور تو اور مصور کے گھر پر بھی حملہ ہوا اور اس معاملے نے مصور کے دمِ آخر تک اُن کا تعاقب کیا۔
ایم ایف حسین ہمیشہ اپنے معاصرین سے آگے رہنا چاہتے تھے۔ ایس ایچ رضا (سید حیدر رضا) ان کے معاصرین میں ایک اہم مصور تھے۔
ایک نمائش میں ان کے تجریدی فن پارے نمائش کے لیے رکھے گئے، ہر فن پارے کی قیمت دو ہزار روپے تھی۔ ایم ایف حسین کو جب اس بارے میں معلوم ہوا تو انہوں نے کہا کہ ’میں اگرچہ تجریدی فن پارے تخلیق نہیں کرتا مگر اس کے دو ہزار روپے کون دے گا؟‘
وہ اگلے دن گیلری گئے، انہوں نے ایس ایچ رضا کی تصاویر ہٹائیں اور اپنی لگا دیں۔ ہر ایک کی قیمت تین ہزار روپے رکھی گئی۔ ظاہر ہے، انہوں نے یہ فن پارے رات بھر کام کر کے تخلیق کیے تھے۔ یوں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ایم ایف حسین میں ایک ہی وقت میں دو طرح کے فنکار تھے، ایک خالص اور دوسرا عوامی۔ وہ درحقیقت عوامی مصور تھے جو یہ یقین رکھتے تھے کہ مصور کے فن پاروں کو ہر ایک کے لیے ہونا چاہیے۔
یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ انڈین مصوروں میں امریتا شیرگل کے بعد ایس ایچ رضا کی تصاویر سب سے زیادہ قیمت پر فروخت ہونے کا ریکارڈ قائم کر چکی ہیں۔
ایم ایف حسین کی تصویروں کے کردار ساکت نہیں بلکہ متحرک ہیں۔ عورت اُن کے فن پاروں میں بارہا مگر ہر بار الگ ہی روپ میں نظر آتی ہے۔ اس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ وہ ابھی کم سن ہی تھے جب انہوں نے اپنی والدہ کو کھو دیا تھا۔ ان کے فن پاروں میں نظر آنے والی عورت چاہے ایک ماں، رقاصہ یا کسی اور روپ میں نظر آئے مگر وہ بے بس نہیں ہے بلکہ جرأت کا استعارہ ہے۔
ایم ایف حسین کا فن مختلف ادوار میں تبدیل ہوتا رہا۔ انہوں نے کبھی گھوڑے مصور کیے تو کبھی مہابھارت اور کبھی رامائن کو رنگوں کے ذریعے پیش کیا۔ کبھی مدرٹریسا تو کبھی گاندھی کی شخصیت کے مختلف روپ پیش کیے اور کبھی ہندوستان کی شہری اور دیہی زندگی کو کینوس پر دکھاتے نظر آئے۔
’میڈیم‘ کے لیے اپنے مضمون میں دیویا راماچندرن لکھتی ہیں، ’ایم ایف (حسین) ایک بے چین مصور کے طور پر جانے جاتے تھے۔ انہوں نے اپنی زیست کے مختلف ادوار میں متنوع قسم کا فن تخلیق کیا۔ اُن پر ایک ایسا دور بھی آیا جب انہوں نے طویل عرصے تک صرف گھوڑے ہی مصور کیے۔‘
انگریزی کے مؤقر قومی روزنامہ ’ڈان‘ میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق، ’نسوانیت ان (ایف ایم حسین) کے تقریباً ہر فن پارے میں موجود ہے اور بہت سوں کا مرکزی خیال ہے۔ مصور کہتے ہیں کہ یہ اُن کی اپنی ماں کی تلاش کا اظہار ہے، جنہیں انہوں نے نوعمری میں کھو دیا تھا۔ وہ عورت کو مصور کرکے اپنی ماں کو دیکھتے ہیں۔ وہ اپنی ماں کا چہرہ یاد نہیں کر سکتے اور وہ اپنی عورتوں کو بے چہرہ مصور کرتے ہیں۔‘
بہت سوں کے لیے وہ محض ایک مصور ہیں مگر ان کے تخلیقی سفر کا احاطہ کرنا آسان نہیں۔ حُسن اور شاعرانہ اظہار ان کی فلموں اور تحریروں میں بھی جابجا دکھائی دیتا ہے۔ انہوں نے جریدے ’پلیٹ فارم‘ کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا، ’لوگ یہ سوچتے ہیں کہ میں نے صرف گھوڑے اور بعد میں صرف برہنہ تصاویر ہی بنائیں لیکن یہ غلط ہے۔ میں ہر جگہ صرف اور صرف حُسن کی تلاش میں ہی سرگرداں رہا ہوں۔ میں ایک مصور کے طور پر جانا جاتا ہوں کیوں کہ میں مصور کے طور پر مشہور ہوا لیکن میری زیست کے کئی اور پہلو بھی ہیں۔ میں معیشت، سائنس اور ٹیکنالوجی میں بھی دلچسپی رکھتا ہوں۔‘
اور اِس میں کچھ غلط بھی نہیں ہے۔ فلم ایک ایسا میڈیم رہا جو بچپن سے ہی ایم ایف حسین کو اپنی جانب متوجہ کرتا رہا ہے جس کے باعث انہوں نے سال 1967 میں فلم ‘تھرو دی آئیز آف اے پینٹر‘ بنائی جسے بہترین تجرباتی فلم کے نیشنل ایوارڈ سے نوازا گیا۔ یہ فلم ناصرف برلن فلم فیسٹیول میں پیش کی گئی بلکہ اس نے گولڈن بیئر کا اعزاز بھی اپنے نام کیا۔
ایم ایف حسین کو خوبصورت عورتیں ہمیشہ متاثر کرتی رہیں جن میں نمایاں ترین بالی ووڈ کی بے مثل اداکارہ مادھوری ڈکشت ہیں جنہیں انہوں نے ناصرف اپنی بہت سی تصاویر میں مصور کیا بلکہ ان کے ساتھ ایک فلم ’گاجا گامنی‘ بھی بنائی۔ اس فلم میں ایک بار پھر عورت کے مختلف روپ نظر آئے۔
ایم ایف حسین نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’مجھے آٹھ برس کی عمر سے لے کر 80 سال کی عمر تک عورت متاثر کرتی رہی ہے۔ میرے آرٹ میں بہت سی خواتین میری انسپائریشن کی وجہ بنیں جن میں مدر ٹریسا اور اندرا گاندھی بھی شامل ہے۔‘
ایف ایم حسین سال 2000 میں ریلیز ہونے والی اس فلم کے ہدایت کار کے علاوہ مصنف بھی تھے جب کہ فلم کے مرکزی کرداروں میں مادھوری، نصیرالدین شاہ اور شاہ رُخ خان تھے۔
سال 2004 میں ریلیز ہونے والی فلم ’مناکشی، اے ٹیل آف تھری سٹیز‘ میں تبو اور کنال کپور مرکزی کرداروں نظر آئے جب کہ یہ فلم کینز فیسٹیول میں بھی نمائش کے لیے پیش کی گئی۔ یہ فلم بھی اُن کے فن پاروں کی طرح تنازعات کا شکار ہوئی مگر اس بار ہندو نہیں بلکہ مسلمان اس فلم میں شامل ایک قوالی پر معترض تھے۔
ایف ایم حسین نے کہا تھا کہ ’فلم ایک مکمل میڈیم ہے کیوں کہ اس میں آرٹ کی تمام اصناف یکجا ہو جاتی ہیں۔ آرٹ فلم کے بغیر نامکمل ہے۔‘
سال 2006 میں ایم ایف حسین نے اپنی جان کو لاحق خطرات کے باعث خودساختہ جلاوطنی اختیار کر لی اور اپنا زیادہ تر وقت دوحہ (قطر) اور لندن کے درمیان گزارا۔ کئی دہائیاں تنازعات کا شکار رہنے والا یہ فنکار وطن واپسی کی حسرت لیے 9 جون 2011 کو لندن کے ایک ہسپتال میں چل بسا اور انڈیا کے ’پکاسو‘ کو انڈیا میں دفن ہونا بھی نصیب نہ ہوا۔