Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سپریم کورٹ: چیف جسٹس کو خط لکھنے کا سلسلہ کس نے شروع کیا؟

چیف جسٹس کے ساتھ اختلاف رائے کے اظہار کے لیے قاضی فائز عیسیٰ نے خط لکھنے کا طریقہ متعارف کرایا (فائل فوٹو: سکرین گریب)
پاکستان کی عدالتی تاریخ میں ججوں کے درمیان اختلافات کی خبریں ہمیشہ ہی سامنے آتی رہی ہیں اور اکثر جج اپنے اختلاف رائے کا اظہار اپنے فیصلوں میں اختلافی نوٹ کے ذریعے کیا کرتے ہیں۔
بعض آئینی، قانونی اور عدالتی انتظامی معاملات ججوں کے مابین اختلاف رائے کی خبریں بھی مقامی میڈیا کی زینت بنتی ہیں۔
ان میں جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس سعید الزماں صدیقی، جسٹس افتخار محمد چوہدری اور جسٹس عبدالحمید ڈوگر اور حالیہ برسوں میں سپریم کورٹ کے ججوں کے درمیان سامنے آنے والے اختلافات اس کی واضح مثالیں ہیں۔
تاہم چیف جسٹس کے ساتھ اختلاف رائے کے اظہار کے لیے موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایک نیا طریقہ متعارف کرایا۔ 
اس کی مثال ماضی قریب کی عدالتی تاریخ میں نہیں ملتی۔انہوں نے عدالتی اور انتظامی معاملات پر اختلاف رائے کے اظہار کے لیے چیف جسٹس آف پاکستان کے نام خطوط کا ایک سلسلہ شروع کیا تھا۔
اب یہ سلسلہ ان کے چیف جسٹس بن جانے کے بعد بھی جاری ہے اور انہیں اپنے ساتھی ججوں کی جانب سے خطوط مل رہے ہیں۔
انہوں نے بطور جج سپریم کورٹ جسٹس عمر عطا بندیال کو متعدد خطوط لکھے جن میں بیشتر جوڈیشل کمیشن کے اجلاسوں، ان کی کارروائی اور جوڈیشل کمیشن کے فیصلوں کے برعکس ججوں کی تعیناتی سے متعلق تھے جبکہ کچھ عدالتی انتظامی امور بعد از ریٹائرمنٹ مراعات سے متعلق تھے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پہلا خط چیف جسٹس کے بجائے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو لکھا تھا۔ 
مئی 2019 میں صدر مملکت عارف علوی کے نام خط میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لکھا کہ ان کی معلومات کے مطابق حکومتی ذرائع کہہ رہے ہیں کہ ان کے خلاف آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت ریفرنس دائر کیا گیا ہے۔
انہوں نے خط میں لکھا تھا کہ ’میں ممنون ہوں گا کہ اگر آپ مجھے بتا سکیں کہ کیا یہ درست ہے اور اگر ایسا ہے تو مجھے اس کی کاپی فراہم کی جائے۔‘
بعد ازاں قاضی فائز عیسیٰ سپریم کورٹ کے سینیئر ترین جج بن گئے اور جسٹس عمر عطا بندیال سپریم کورٹ کے چیف جسٹس مقرر ہوئے۔ 
ان کے دور کے دوران قاضی فائز عیسیٰ کے خطوط تواتر کے ساتھ سامنے آنے لگے۔ چیف جسٹس کے نام اپنے پہلے خط میں قاضی فائز عیسیٰ نے ججوں کے لیے بعد از ریٹائرمنٹ مراعات کی مخالفت کرتے ہوئے اسے ججوں کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی قرار دیا۔

مئی 2019 میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر عارف علوی کے نام خط لکھ کر ریفرنس کی کاپی مانگی (فائل فوٹو: اے پی پی)

جون 2022 میں چیف جسٹس پاکستان کو لکھے گئے خط میں ان کا کہنا تھا کہ رجسٹرار نے فل کورٹ کی منظوری کے لیے ایک سرکلر بھجوایا ہے، اس کا فائدہ ریٹائر ہونے کے بعد ہم ججز کو ہوگا۔ 
’جج کے حلف میں شامل ہے کہ وہ ججز کے ضابطہ اخلاق پر عمل کرے گا۔ ججز کا اپنے لیے مراعات کی منظوری دینا ججز کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہوگا۔‘
جولائی اور اگست 2022 میں جوڈیشل کمیشن کے اجلاس اور ججوں کی تعیناتی چیف جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے درمیان تناؤ کی بڑی وجہ بنے رہے۔ اس دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ مسلسل خطوط کے ذریعے اپنا نقطہ نظر بیان کرتے رہے۔
قاضی فائز عیسیٰ نے جولائی میں ایک خط چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے نام لکھا کہ ان کی عدم موجودگی میں جوڈیشل کمیشن کے اجلاس طلب کیے جا رہے ہیں۔ 
انہوں نے لکھا کہ سالانہ تعطیلات کے آغاز سے پہلے جوڈیشل کمیشن کا کوئی اجلاس طے نہیں کیا گیا تھا مگر جونہی میں پاکستان سے روانہ ہوا، چیف جسٹس صاحب نے سندھ اور لاہور کی اعلی عدالتوں میں تقرریوں کے متعلق دو اجلاس بلانے کا فیصلہ کر لیا۔
’اب عدالت عظمیٰ میں موسم گرما کی چھٹیوں کے دوران میں جوڈیشل کمیشن کا تیسرا اجلاس طلب کیا جا رہا ہے، حالانکہ سپریم کورٹ میں موسم گرما کی تعطیلات کا فیصلہ خود چیف جسٹس صاحب نے کیا تھا اور اس کے بعد اس کا سرکاری اعلان کیا گیا۔‘

قاضی فائز عیسیٰ نے بطور جج سپریم کورٹ، چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو متعدد خطوط لکھے (فائل فوٹو: سپریم کورٹ)

خط میں لکھا گیا تھا کہ ’اگر چیف جسٹس اپنے اعلان کردہ نوٹیفیکیشن کی پاسداری نہیں کرنا چاہتے تو بہتر ہے کہ اس کی خلاف ورزی کے بجائے وہ پہلے اسے منسوخ کر دیں۔‘
جوڈیشل کمیشن کے ایک اجلاس کا اعلامیہ جاری نہ ہونے پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کو ایک اور خط لکھا جس میں انھوں نے مطالبہ کیا کہ جوڈیشل کمیشن میں ججز کی تقرری کے حوالے سے ہونے والے فیصلے کو فوری طور پر میڈیا پر جاری کیا جائے۔
 اس خط میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے انکشاف کیا تھا کہ کہ چیف جسٹس آف پاکستان اچانک جوڈیشل کمیشن کا اجلاس چھوڑ کر چلے گئے تھے، جسٹس اعجاز الاحسن بھی اجلاس سے اٹھ کر چلے گئے تھے۔
اس خط کے بعد چیف جسٹس کی جانب سے جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کی مکمل آڈیو سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کی گئی تھی۔
اکتوبر 2022 میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو ایک اور خط لکھا کہ سپریم کورٹ میں ترقی کے لیے ان 3 جونیئر ججوں کے نام واپس لیے جائیں جنہیں 28 جولائی کو جوڈیشل کمیشن کے آخری اجلاس میں مسترد کردیا تھا۔
اس کے علاوہ قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس کو متعدد خطوط لکھے جن میں بینچوں کی تشکیل سمیت کئی عدالتی امور پر اختلاف رائے کا اظہار کیا گیا تھا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو خط لکھ کر بینچز کی تشکیل پر تحفظات کا اظہار کیا (فائل فوٹو: سپریم کورٹ)

جسٹس عمر عطا بندیال ریٹائر ہوگئے اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بن گئے۔ انہوں نے بطور جج خط لکھنے کی جو روایت ڈالی تھی وہ نہ تھم سکی۔ 
اس بار خط وصول کرنے کی باری ان کی تھی۔ ان کے چیف جسٹس بننے کے کچھ دنوں بعد ہی سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس اعجازالاحسن نے انہیں خط لکھ ڈالا۔
نومبر 2023 میں سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز الاحسن کی جانب سے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو لکھے گئے خط میں بھی بینچز کی تشکیل کمیٹی فیصلوں کے مطابق نہ ہونے کا ذکر کیا گیا تھا۔
فرق صرف اتنا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس خط کا جواب دیا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز الاحسن کے خط کے جواب میں تین صفحات پر مشتمل جوابی خط لکھا۔
خط میں جسٹس اعجاز الاحسن کی جانب سے لگائے گئے الزامات پر انہوں نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ میرے دروازے ہمیشہ سب کے لیے کھلے ہیں۔
قاضی فائز عیسیٰ  نے جسٹس اعجازالاحسن کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے لکھا کہ اگر ان کے پاس بینچوں کی تشکیل نو کے لیے کوئی تجاویز ہیں تو وہ اپنی تجاویز پیش کریں۔
اس کے علاوہ اپریل 2024 چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ نے چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسی کے نام خط لکھا اور سپریم کورٹ میں ججز تعیناتیوں میں خیبر پختونخوا کو نظرانداز کرنے کا شکوہ کیا۔ 
ان کا کہنا تھا کہ میں بھاری دل کے ساتھ یہ خط فیورٹ ازم سے متعلق لکھ رہا ہوں، سپریم کورٹ میں چار اسامیاں خالی تھیں، صرف ایک جج کی تعیناتی آپ نے اپنے صوبے بلوچستان سے کی۔
خیال رہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان اور جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے سربراہ مولانا فضل الرحمان بھی چیف جسٹس کو خطوط لکھ چکے ہیں۔

شیئر: