Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

الیکٹرک گاڑیوں سے متعلق نئی پالیسی بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

نئی پالیسی کے تحت ایک ملک گیر منصوبہ تیار کیا جائے گا (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کی وفاقی حکومت نے تیسری مرتبہ نئی الیکٹرک وہیکل پالیسی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ نئی پالیسی میں مقامی سطح پر گاڑیوں کی تیاری کو فروغ دینا اور ملک بھر میں الیکٹرک گاڑیاں متعارف کرانے کے عمل کو تیز کرنا شامل ہے۔
نئی پالیسی تشکیل دینے کے لیے وزیر صنعت و تجارت کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو نئی پالیسی کا مسودہ تیار کرنے کے لیے سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کر رہی ہے۔
نئی ای وی پالیسی میں پاکستان میں بین الاقوامی معیار اور مقامی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے الیکٹرک گاڑیوں بشمول نیو انرجی وہیکلز کی مقامی مینوفیکچرنگ اور جلد از جلد مارکیٹ میں لانے کے اقدامات اور اہداف مقرر کیے جائیں گے۔
 نئی پالیسی کے تحت ایک ملک گیر منصوبہ تیار کیا جائے گا جس کی روشنی میں ملک بھر میں مناسب تعداد میں چارجنگ سٹیشنز کی فوری تنصیب، بشمول تیز چارجنگ انفراسٹرکچر کو منتخب مقامات پر شاہراہوں اور شہری مراکز میں ممکن بنایا جائے گا۔ اس سے الیکٹرک گاڑیوں کا ایک شہر سے دوسرے شہر اور اندرون شہر ٹرانسپورٹیشن میں استعمال ممکن ہو سکے گا۔
پالیسی میں چارجنگ سٹیشنز کے لیے مناسب ٹیرف سٹرکچر کے ساتھ ساتھ مقامی مینوفیکچرنگ کے لیے ٹیرف اور ڈیوٹی سٹرکچر کا بھی تعین کیا جائے گا۔ قومی ماحولیاتی تبدیلی کے اہداف کے ساتھ ہم آہنگی کے لیے مخصوص سفارشات بھی پالیسی کا حصہ ہوں گی۔ جن کے تحت کاربن کے اخراج کو کم کرنے اور ٹرانسپورٹیشن سیکٹر میں صاف توانائی کے استعمال کو فروغ دینے پر توجہ دی جائے گی۔
 الیکٹرک گاڑیوں کے فوائد اور ان کے ماحولیاتی اثرات اور طویل مدتی بچت کے بارے میں عوامی آگاہی مہمات بھی پالیسی میں شامل ہوں گی۔ الیکٹرک گاڑیوں کے فروغ کے لیے وفاقی بجٹ میں فراہم کیے جانے والی گرانٹس کے ذریعے مراعات دینے کے لیے ایک جامع مالی ڈھانچہ بھی پالیسی کا حصہ ہوگا۔
جامع پالیسی کی تشکیل کے لیے صوبائی حکومتوں، گلگت بلتستان اور کشمیر سے ان کی حمایت اور ان معاملات میں ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے رابطہ کیا جائے گا اور انھیں اعتماد میں لیا جائے گا۔
اس حوالے سے وزارت صنعت و پیداوار کے حکام کا کہنا ہے کہ پہلے مرحلے میں 40 چارجنگ سٹیشنز موٹرویز اور بڑے شہروں میں نصب کیے جا چکے ہیں۔ حکومت چارجنگ سٹیشنز کے لیے بجلی کے نرخوں میں کمی کے اقدامات کر رہی ہے، تاکہ الیکٹرک گاڑیاں عام صارفین کے لیے زیادہ قابلِ رسائی اور سستی ہو سکیں۔
حکام کے مطابق سال 2022 سے اب تک دو اور تین پہیوں والی الیکٹرک گاڑیوں کے لیے 49 لائسنس جاری کیے جا چکے ہیں۔ جن کی سالانہ پیداواری صلاحیت 40 لاکھ گاڑیوں کی ہے۔ جن میں سے 25 نے گاڑیوں کی پیداوار شروع کر دی ہے۔
رواں ماہ چار پہیوں والی الیکٹرک گاڑیوں کی تیاری کے لیے پہلا لائسنس جاری کیا گیا، جس کی سالانہ پیداواری صلاحیت 6000 گاڑیاں ہے، اور اس کی پیداوار کا آغاز 2024 کے آخر تک متوقع ہے۔

حکام کے مطابق پہلے سے موجود پالیسی کے تحت پاکستان کی سڑکوں پر الیکٹرک گاڑیوں کی تعداد ابھی تک کم ہے (فوٹو: اے ایف پی)

حکام کے مطابق پہلے سے موجود پالیسی کے تحت لیے گئے اقدامات کے باوجود پاکستان کی سڑکوں پر الیکٹرک گاڑیوں کی تعداد ابھی تک کم ہے۔ اس وقت تقریباً 45 ہزار دو اور تین پہیوں والی الیکٹرک گاڑیاں اور 26 سو چار پہیوں والی الیکٹرک گاڑیاں سڑکوں پر چل رہی ہیں، جو کہ ملک کی کل گاڑیوں کا بالترتیب صرف 0.16% اور 0.06% ہیں۔ اس وجہ سے پالیسی کے خدوخال تبدیل کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔
دوسری جانب  صنعت سے وابستہ افراد اور ماہرین نے پالیسی پر نظر ثانی کا مطالبہ کیا تھا اور حکومت سے تمام قسم کی الیکٹرک گاڑیوں کے لیے مراعات دینے اور ٹیکسوں کو کم کرنے کا مطالبہ کیا تھا تاکہ الیکٹرک گاڑیوں کو عام لوگوں کے لیے قابل رسائی بنایا جا سکے۔
سیرس پاکستان کے منیجنگ ڈائریکٹر محمد عدیل عثمان کا کہنا ہے کہ ’پاکستان میں بڑھتی ہوئی ایندھن کی قیمتوں کے پیش نظر الیکٹرک گاڑیاں زیادہ سستی ہیں، کیونکہ موجودہ بجلی کے نرخوں کے مطابق الیکٹرک گاڑی کی فی کلومیٹر لاگت 8.5 روپے ہے، جبکہ ہائبرڈ گاڑیوں کی لاگت 19 روپے فی کلومیٹر اور روایتی انجن والی گاڑیوں کی لاگت 26 روپے فی کلومیٹر ہے۔ الیکٹرک گاڑی کی مرمت اور دیکھ بھال کی لاگت بھی کم ہے، کیونکہ ان میں انجن آئل، آئل فلٹر اور ایئر فلٹر کی ضرورت نہیں ہوتی۔‘
تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’بیرون ملک سے گاڑیوں کی برآمد، روپے کی قدر میں کمی، پاکستان میں انفراسٹرکچر کے فقدان اور ٹیکسوں اور ڈیوٹیز کی وجہ سے الیکٹرک وہیکل عام گاڑی استعمال کرنے والوں کی پہنچ سے باہر ہیں اس لیے وہ فوری طور پر اس سے مستفید نہیں ہو پا رہے۔ نئی پالیسی میں ڈیوٹیز کو کم اور پاکستان میں گاڑیوں کی مینوفیکچرنگ جیسے اقدمات کو فروغ دینے کے لیے لائحہ عمل اپنانے کی ضرورت ہے۔‘
پاکستان آٹو ڈیلرز ایسوسی ایشن کے صدر ایچ ایم شہزاد کا کہنا ہے کہ ’پاکستان جب تک گاڑیوں کی صنعت میں لوکلائزیشن یعنی آلات کی مقامی سطح پر تیاری نہیں ہوتی اس وقت تک کوئی بھی پالیسی کامیاب نہیں ہوگی۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اس وقت جتنی بھی گاڑیاں پاکستان میں بنانے کے دعوے کیے جا رہے ہیں وہ بنائی نہیں بلکہ صرف اسمبل کی جا رہی ہیں۔ برآمد کنندگان جاپان سے 12 ڈالرز میں ملنے والا پرزہ چین سے ایک ڈالر میں خرید کر مقامی صارف کو 15 ڈالر میں بیچ رہے ہیں۔ ایسے میں الیکٹرک یا کوئی بھی ماحول دوست گاڑی عام صارف کے استعمال کیسے آ سکتی ہے؟‘

اس پالیسی کے تحت 2025 تک ایک لاکھ گاڑیوں کو برقی ٹیکنالوجی پر لانے کا ہدف طے کیا گیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)

ایچ ایم شہزاد نے کہا کہ ’پالیسی ساز دراصل گاریاں بنانے والی بڑی کمپنیوں کے ساتھ ساز باز رکھتے ہیں اس لیے وہ کوئی ایسی پالیسی نہیں بناتے جس سے صارف کو فائدہ ہو بلکہ ملی بھگت وہی پالیسی بار بار بنتی ہے جس سے مینوفیکچر مستفید ہوتا ہو۔ حکومت اگر ابھی سنجیدہ ہے تو الیکٹرک گاڑیوں کی مقامی سطح پر تیاری بالخصوص بیٹریوں کی پاکستان میں پیداوار کا انتظام کرے کیونکہ ایک سال بعد جب بیٹری ختم ہوتی ہے تو وہ بیرون ملک سے گاڑی سے بھی مہنگی ملتی ہے۔‘
خیال رہے کہ وفاقی کابینہ نے 11 جون 2020 کو ای سی سی کے 10 جون کے فیصلے کی روشنی میں الیکٹرک وہیکل پالیسی کی منظوری دی تھی۔ یہ پالیسی اگرچہ پانچ سال کے لیے تھی لیکن اس میں 2030 تک 5 لاکھ سے 10 لاکھ الیکٹرک گاڑیاں شاہراؤں پر لانے اور ملک میں 30 سے 40 فیصد گاڑیاں بجلی پر منتقل کرنے کا ہدف رکھا گیا تھا۔
اس پالیسی کے تحت 2025 تک ایک لاکھ گاڑیوں کو برقی ٹیکنالوجی پر لانے، پانچ لاکھ موٹر سائیکل اور رکشے بجلی پر چلانے کا ہدف طے کیا گیا تھا۔ الیکٹرک وہیکل کے پرزوں کی درآمد پر ایک فیصد کسٹم ڈیوٹی، جبکہ پاکستان میں بننے والی الیکٹرک گاڑیوں، موٹر سائیکلوں اور رکشوں پر ایک فیصد جنرل سیلز ٹیکس لگایا گیا۔
پہلے مرحلے میں تین ہزار سی این جی سٹیشنز پر الیکٹرک وہیکل چارجنگ یونٹس نصب کیے جانے تھے۔ 2030 تک ملک کی 30 فیصد گاڑیوں کو الیکٹرک ٹیکنالوجی پر لا کر تیل کے درآمدی بل میں دو ارب ڈالر کی بچت کا تخمینہ لگایا گیا۔ الیکٹرک گاڑیاں بنانے کے لیے خصوصی اکنامک زونز بنانے کی تجویز دی گئی تھی۔

شیئر: