Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نیسکام کے ریٹائرڈ ڈی جی کے اغوا کی کہانی اور جنسی حملے کا الزام  

اسلام آباد پولیس نے ابتدائی تحقیقات کے بعد کلثوم بی بی اور ان کے شوہر منیر احمد کو حراست میں لے لیا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی
یہ یکم دسمبر 2021 کی سرد صبح تھی جب پاکستان میں جدید سائنس اور انجینیئرنگ کے اہم ادارے نیشنل انجینئرنگ اینڈ سائنس کمیشن (نیسکام) کے 75 سالہ سابق ڈائریکٹر جنرل انوار مظفر کسی کام کے سلسلے میں اپنے گھر سے نکلے۔
ابھی وہ دو سو میٹر ہی دور گئے تھے کہ کسی نے ان کے چہرے پر کوئی کیمیائی محلول سپرے کیا جس کے بعد نہ صرف انوار مظفر کو نظر آنا بند ہو گیا بلکہ وہ بے ہوش ہو گئے۔
کافی دیر بعد جب ان کی آنکھ کھلی تو انہوں نے خود کو ایک بند کمرے میں پایا جہاں کچھ لوگ ان کے گرد جمع تھے۔ ان لوگوں میں ان کی گھریلو ملازمہ کلثوم بی بی اور اس کا شوہر منیر احمد بھی تھا۔
انوار مظفر نے پوچھا کہ وہ کہاں ہیں تو اس کا جواب انہیں تشدد سے دیا گیا۔
تشدد کرنے والوں میں کلثوم بی بی کا شوہر منیر احمد سب سے آگے تھا اور جب انوار مظفر مار کھا کھا کر نڈھال ہو گئے تو ان لوگوں نے ایک کروڑ روپے تاوان کا مطالبہ کیا۔
انوار مظفر نے اغوا کاروں کو بتایا کہ ان کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں جس کے بعد انہوں نے ان پر مزید تشدد کیا اور ان کا ایک بازو توڑ دیا۔ شدید تشدد کرنے کے بعد کلثوم بی بی نے انہیں بتایا کہ ان کے گھر میں ایک جگہ پر ساٹھ لاکھ روپے پڑے ہوئے ہیں۔
انوار مظفر کو سمجھ آ گئی کہ ان کے اغوا کاروں نے ان کے تمام معاملات کی معلومات جمع کر رکھی ہیں جس کے بعد وہ مزید تشدد سے بچنے اور آزادی حاصل کرنے کے لیے یہ رقم ادا کرنے پر تیار ہو گئے۔
اغواکاروں نے انہیں کلثوم بی بی کے ہمراہ گھر روانہ کیا اور ساتھ ہی تنبیہ کی کہ پولیس یا کسی اور کو اس بارے میں بتانے پر نہ صرف ان کو دوبارہ اغوا کریں گے اور مزید نقصان پہنچائیں گے بلکہ ان کے خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا جائے گا۔

عدالت نے مجرمان کو عمر قید کی سزا سنائی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

اغواکاروں نے دھمکی دی کہ وہ مسلح ہیں اور ان کا تعاقب کر رہے ہیں، کسی بھی ’غلطی‘ پر نتائج کے ذمہ دار انوار مظفر خود ہوں گے۔
گھر پہنچ کر انوار مظفر نے کلثوم بی بی کو ساٹھ لاکھ روپے دے دیے جس کے بعد وہ چلی گئی تاہم تھوڑی دیر بعد واپس آگئی اور مزید رقم کا مطالبہ کرنے لگی۔ جس کے بعد انہوں نے بینک سے مزید بیس لاکھ روپے نکلوا کر دیے۔
ذہنی دباؤ میں شدت اور مزید ایک کروڑ کا مطالبہ
اس واقعے کے بعد انوار مظفر شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہوگئے۔ ان سے گھر والوں نے بازو ٹوٹنے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے انہیں بتایا کہ گر جانے کی وجہ سے انہیں چوٹیں آئی ہیں۔
لیکن ذہنی دباؤ تھا کہ بڑھتا ہی جا رہا تھا اور وہ ہر وقت پریشان اور گم سم رہنے لگے۔ اس حالت سے باہر نکلنے کے لیے وہ چند ماہ کے لیے بیرون ملک بھی گئے لیکن جب وہ واپس آئے تو کلثوم بی بی اور اس کے شوہر نے ان سے مزید ایک کروڑ روپے کا مطالبہ شروع کر دیا۔
اس کے بعد انوار مظفر شدید ڈپریشن میں چلے گئے اور ان کی صحت گرنے لگی۔ یہ حالت دیکھ کر ان کے اکلوتے بیٹے علی انوار نے ان سے بار بار پوچھنا شروع کر دیا کہ انہیں کیا ہوا ہے۔
بالآخر ایک دن انوار مظفر نے اپنے بیٹے علی انوار کو تمام روداد سنا دی جس کے بعد دونوں باپ بیٹے نے 19 اپریل 2022 کو تھانہ رمنا میں تمام واقعے کی شکایت درج کروا دی۔
شکایت درج کرنے کے بعد اسلام آباد پولیس نے واقعے کی تفتیش شروع کی اور ابتدائی تحقیقات کے بعد کلثوم بی بی اور ان کے شوہر منیر احمد کو حراست میں لے لیا۔
پولیس نے ملزمان کے آبائی علاقے پنڈی بھٹیاں کے ایک بینک میں منیر احمد کے ایک اکاونٹ کا سراغ بھی لگایا جس میں انہوں نے ستاون لاکھ روپے جمع کروائے تھے اور بعد میں تین لاکھ روپے نکلوا لیے۔
75 سالہ مغوی پر جنسی حملے کا الزام
لیکن اس کہانی میں دلچسپ موڑ تب آیا جب اسلام آباد کے انسداد دہشت گردی کے جج طاہر عباس سپرا کی عدالت میں مقدمے کی کارروائی کے آغاز کے بعد کلثوم بی بی نے 75 سالہ انوار مظفر پر جنسی حملے کا الزام لگا دیا اور عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ انوار مظفر نے اس کو اس بارے میں خاموش رکھنے کے لیے جھوٹا مقدمہ درج کروایا ہے۔

ملازمین نے نیسکام کے سابق ڈائریکٹر کو اغوا کر کے تاوان کا مطالبہ کیا۔ فوٹو: اے ایف پی

تاہم پولیس نے منڈی بہاؤالدین کے بینک میں منیر احمد کے اکاؤنٹ سے چون لاکھ روپے برآمد کر لیے۔ لیکن یہ رقم برآمد ہونے کے باوجود ملزمان نے صحت جرم سے انکار کر دیا اور مؤقف اختیار کیا کہ یہ رقم انہوں نے مویشی بیچ کر حاصل کی ہے۔
ملزمان کی یہ بات عدالت نے اس بنیاد پر رد کر دی کہ منیر احمد اور اس کی بیوی کے مالی حالات اگر اتنے اچھے ہوتے تو وہ انوار مظفر کے پاس ملازمت نہ کرتی۔ دوسری طرف انوار مظفر کے اکاؤنٹ کی سٹیٹمنٹ سے بھی اس رقم کی منتقلی ثابت ہو گئی۔
حیران کن طور پر کلثوم بی بی نے جنسی حملے کے الزام کو ثابت کرنے کی بھی کوشش نہیں کی اور نہ تو اس کا کوئی ثبوت عدالت میں پیش کیا اور نہ ہی کوئی گواہ۔
جج طاہر عباس سپرا نے مقدمے کے اندراج کے تقریباً ڈھائی سال بعد گزشتہ ہفتے 27 ستمبر کو اس کا فیصلہ سناتے ہوئے دونوں ملزمان کو عمر قید کی سخت سزا دی ہے۔
مجرموں کو عمر قید کی سخت سزا
اردو نیوز کے پاس موجود عدالت کے تحریری فیصلے کے مطابق کلثوم بی بی اور ان کا شوہر منیر احمد اس جرم میں برابر کے شریک ہیں اور دونوں کو عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ اس سزا کے علاوہ دونوں پر 50 لاکھ روپے فی کس جرمانہ بھی کیا گیا ہے جس کی عدم ادائیگی کی صورت میں انہیں چھ، چھ ماہ کی مزید قید کاٹنا ہو گی۔
اس مقدمے کی کارروائی کو قریب سے دیکھنے والے اسلام آباد کے انگریزی اخبار ’دی نیشن‘ کے رپورٹر علی حمزہ کے مطابق یہ حالیہ سالوں میں اسلام آباد میں فوجداری کے دلچسپ مقدمات میں سے ایک تھا جس میں مغوی نے کئی ماہ تک اپنے اغوا کی تفصیلات کسی کو نہیں بتائیں۔
علی حمزہ کہتے ہیں کہ اس مقدمے کا دلچسپ پہلو اغوا کار کا مغوی پر جنسی حملے کا الزام لگانا بھی ہے جس کو وہ ثابت نہیں کر سکیں اور پراسیکیوشن کی تفتیش اور عدالت کی جانب سے تمام پہلوؤں کی چھان بین سے اس کے تمام حقائق سامنے آگئے۔

شیئر: