Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’وہ اپنی ماں کے دونوں ہاتھ پیچھے باندھ کر چُھریوں کے وار کر رہا تھا‘

پولیس کے مطابق ’ملزم عبداللہ کو مخبر کی اطلاع پر قصور کے ایک ڈیرے سے گرفتار کیا گیا‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پنجاب پولیس نے جمعرات کی صبح قصور کے علاقے سے ایک ایسے اشتہاری ملزم کو گرفتار کیا ہے جس نے رواں سال جنوری میں اپنی سگی ماں کو قتل کیا تھا۔
 لاہور کے تھانہ کوٹ لکھپت کے ایس ایچ او عمران علی نے اردو نیوز کو اس گرفتاری کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے تھانے کے ایک مخبر نے اس ملزم کے بارے میں اطلاع دی تھی۔‘
’ہمارے مخبر کے مطابق قصور کے قریب ایک ڈیرے پر ایک ایسا اشتہاری آتا جاتا ہے جس کے بارے میں اطلاع ملی ہے کہ اس نے اپنی والدہ کو قتل کیا تھا۔‘
ایس ایچ او کے مطابق ’ایسا کوئی واقعہ ہمارے تھانے کی حدود میں تو پیش نہیں آیا تھا اس کے باوجود میں نے اس اشتہاری کو گرفتار کرنے کا فیصلہ کیا اور اپنی ٹیم لے کر نشاندہی کی گئی جگہ پر پہنچ گیا۔‘
عمران علی نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ ’دوران سفر میں نے یہ معلوم کیا کہ ایسا کوئی واقعہ لاہور میں کب ہوا تھا تو جلد ہی مجھے معلومات ملی گئیں کہ تھانہ کاہنہ کے علاقے میں 15 جنوری کو ایسا ایک واقعہ ہوا تھا۔‘
’اس واقعے میں عبداللہ نامی نوجوان نے دن دیہاڑے اپنی ماں کو قتل کردیا تھا اور اس روز سے وہ غائب ہے۔ ہم نے تھانہ کاہنہ کو بھی الرٹ کر دیا اور اس اشتہاری کو پکڑنے کے لیے اپنی ریڈ جاری رکھی اور پھر ہم اس جگہ پہنچ گئے۔‘
عبداللہ نے ماں کو کیسے اور کیوں قتل کیا؟
لاہور پولیس جس ملزم کو گرفتار کرنے پہنچی تھی ان کا نام عبداللہ ہے اور ان کے خلاف تھانہ کاہنہ میں قتل کی دفعات کے تحت ایک ایف آئی آر درج ہے جس میں ان کے والد محمد اشفاق مدعی ہیں۔ 
محمد اشفاق لاہور کی فروٹ منڈی میں کام کرتے ہیں۔ انہوں نے سات ماہ قبل پیش آنے والے واقعے کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ ’میں صبح فروٹ منڈی گیا ہوا تھا کہ میری بیٹی کی مجھے کال آئی۔‘
’بیٹی نے بتایا کہ بھائی عبداللہ کا فون آیا ہے اور فون پر اس نے بتایا کہ وہ امی کو قتل کرنے لگا ہے۔ یہ بات سن کر میرے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی اور میں اپنے سارے کام چھوڑ کر گھر کی طرف بھاگا۔‘
محمد اشفاق کا مزید کہنا ہے کہ ’میں جیسے ہی اپنے گھر کے قریب پہنچا تو اس وقت ساڑھے گیارہ بج چکے تھے۔ میرا گھر رحمت پارک کے علاقے میں ہے جیسے ہی میں اپنی گلی میں پہنچا تو مجھے اپنے گھر سے شور سنائی دیا۔‘

گرفتاری کے وقت ملزم نے اپنی شناخت چھپانے ہوئے کہا کہ اس کا تعلق کراچی سے ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

’گلی میں کچھ اور لوگ بھی یہ شور سن کر اکٹھے ہو گئے تھے اور وہ بھی میرے ساتھ گھر میں داخل ہوگئے۔ اس کے بعد کا منظر دیکھ کر میرے اوسان خطا ہو گئے۔ عبداللہ نے اپنی ماں کے ہاتھ پیچھے باندھ رکھے تھے اور ان پر چُھریوں کے وار کر رہا تھا۔‘
مزید تفصیل بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’ہمیں دیکھ کر وہ اور زیادہ وحشی ہو گیا اور خون میں لت پت ماں کو دھکا دے کر چُھری لہراتا ہوا ہماری طرف لپکا۔‘
’ہم اپنی جان بچانے کے لیے راستے سے ہٹ گئے اور وہ گھر سے بھاگ گیا۔ میری اہلیہ کا پورا جسم زخموں سے بھرا ہوا تھا اور اس وقت تک وہ جان کی بازی بھی ہار چکی تھیں۔‘
محمد اشفاق کہتے ہیں کہ بعد میں پوسٹ مارٹم رپورٹ سے پتا چلا کہ بیٹے نے والدہ کے سر پر ڈنڈے بھی مارے تھے۔ مجھے نہیں پتا کہ رضیہ نے وہ اذیت کتنی دیر برداشت کی ہوگی کیوںکہ جب ہم پہنچے تو وہ زندہ نہیں تھیں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ اس قتل کے محرکات کیا ہو سکتے ہیں تو انہوں نے بتایا کہ ’عبداللہ کافی عرصے سے آئس کے نشے میں رہتا تھا اور ہم سب اس سے بہت تنگ تھے۔‘
’اس کی والدہ اس کو ہر وقت سمجھاتی رہتی تھیں۔ اس کے علاوہ تو کوئی ایسی بات مجھے سمجھ میں نہیں آتی۔ اب وہ گرفتار ہو چکا ہے تو وہی بتا سکتا ہے کہ اس نے ایسا کیوں کیا۔‘

پولیس کو ابھی قتل کی حتمی وجہ معلوم نہیں ہو سکی، تفتیش آگے بڑھنے پر صورت حال واضح ہو گی (فائل فوٹو: اے ایف پی)

اس واقعے کی ایف آئی آر تھانہ کاہنہ میں محمد اشفاق کی مدعیت میں درج ہے اور اس کے مندرجات بھی وہی ہیں جو انہوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتائے۔
ملزم اپنی شناخت سے ہی مُکر گیا
ایس ایچ او عمران علی ملزم عبداللہ کی گرفتاری سے متعلق مزید تفصیل بتاتے ہیں کہ ’جب ہم اس ڈیرے پر پہنچے تو ہم نے اسے گرفتار کر لیا۔ یہ اس کے لیے غیر متوقع صورت حال تھی۔‘
’اس نے پولیس کو اپنا نام وسیم بتایا اور کہا کہ اس کا تعلق کراچی سے ہے لیکن وہ ٹھیٹھ پنجابی زبان میں بات کر رہا تھا۔ میں نے اسی وقت تھانہ کاہنہ پولیس سے رابطہ کیا اور اس کے والد اشفاق سے بات کی۔‘
ایس ایچ او عمران علی کے مطابق ہم نے انہیں واٹس ایپ ویڈیو کال پر لے لیا۔ انہوں نے دیکھتے ہی پہچان لیا کہ وہ ان کا ہی بیٹا ہے۔ شناخت ہونے پر ہم نے ملزم کو  باقاعدہ گرفتار کیا اور لاہور واپس لا کر کاہنہ پولیس کے حوالے کر دیا۔‘
تھانہ کاہنہ کے انچارج انویسٹی گیشن اصغر علی نے بتایا کہ ’ملزم اب بھی اپنی شناخت سے انکار کر رہا ہے، لیکن ہم نے گرفتاری ڈال دی ہے اور جمعے کو اسے عدالت میں پیش کر کے تفتیش کو آگے بڑھائیں گے۔‘
’شناخت کے حوالے سے بھی ہم قانونی شواہد اکٹھے کر رہے ہیں جو کہ عدالت میں پیش کیے جائیں گے، ابھی قتل کرنے کی حتمی وجہ معلوم نہیں ہو سکی، تفتیش آگے بڑھے گی تو صورت حال مزید واضح ہو گی۔‘

شیئر: