شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے موقع پر پی ٹی آئی کا احتجاج کس کا آئیڈیا ہے؟
شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے موقع پر پی ٹی آئی کا احتجاج کس کا آئیڈیا ہے؟
جمعرات 10 اکتوبر 2024 5:22
رائے شاہنواز -اردو نیوز، لاہور
تحریک انصاف نے پنجاب کے بڑے شہروں میں 11 سے 14 اکتوبر کو احتجاج کی کال دے دی ہے (فوٹو اے ایف پی)
پاکستان میں جاری سیاسی کشمکش میں آخری قسط تحریک انصاف کی ڈی چوک میں احتجاج کی کال تھی، جس کے باعث جڑواں شہروں میں نہ صرف نظام زندگی معطل رہا بلکہ پنجاب میں بھی موبائل فون سروسز میں تعطل نے عام لوگوں کے لیے پریشانی پیدا کی۔
ابھی اس احتجاج سے اُڑنے والی گرد بیٹھی ہی تھی کہ پی ٹی آئی نے ایک مرتبہ پھر پنجاب کے مختلف شہروں میں احتجاج کے لیے اپنا نیا شیڈول جاری کر دیا ہے۔ ڈی چوک احتجاج کو حکومت اور اس کی حامی جماعتوں نے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے اگلے ہفتے ہونے والے اجلاس کو سبوتاژ کرنے کی کوشش قرار دیا تھا۔
تاریخی طور پر پہلی مرتبہ شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں 15 اور 16 اکتوبر کو منعقد ہونے جا رہا ہے جس میں انڈیا بھی شرکت کر رہا ہے۔ تاہم تحریک انصاف نے پنجاب کے بڑے شہروں میں 11 سے 14 اکتوبر کو احتجاج کی کال دے دی ہے۔
تحریک انصاف کی جانب سے جاری شیڈول کے مطابق 11 اکتوبر کو ملتان اور ساہیوال، 13 اکتوبر کو گوجرانوالہ اور سرگودھا، 13 اکتوبر کو ڈیرہ غازی خان اور 14 اکتوبر کو لاہور اور فیصل آباد میں احتجاج کی کال دی گئی ہے۔
مبصرین کے مطابق پی ٹی آئی ایس سی او اجلاس سے پہلے یہ احتجاج کر کے حکومت کو دباؤ میں لانا چاہتی ہے۔
یہ آئیڈیا کس کا تھا؟
ڈی چوک میں پی ٹی آئی کے احتجاج کے بعد حکومت نے راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قیدیوں سے کسی بھی قسم کی ملاقات کی پابندی عائد کر رکھی ہے۔ اس لحاظ سے عملی طور پر عمران خان باہر ہونے والے معاملات سے بظاہر لاعلم ہیں۔ کیونکہ ان کے وکلا کو بھی ملنے کی اجازت ہے۔
اس سوال کا جواب جب اردو نیوز نے پنجاب میں تحریک انصاف کے اپوزیشن رہنما ملک احمد بھچر سے پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ ’یہ فیصلہ تحریک انصاف کی سیاسی کمیٹی کا ہے۔ اور یہ جماعت کا متفقہ فیصلہ ہے۔ پوری سوچ سمجھ کے ساتھ یہ کال دی گئی ہے اور اس احتجاج کی کال کو ہر صورت کامیاب بنایا جائے گا۔ یہ ہمارا بنیادی آئینی حق ہے۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ ایس سی او کے تناظر میں ہڑتال کی کال پی ٹی آئی کو مزید سیاسی تنہائی میں نہیں لے جائے گی؟ تو ان کا کہنا تھا کہ ’سیاسی تنہائی میں جانے کا وقت تو اب فارم 47 کی حکومت کا ہے۔ ہم اس وقت سانس لینے کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ایس سی او کا اجلاس اسلام آباد میں ہو رہا ہے پنجاب کے شہروں میں احتجاج سے اس کا کیا تعلق ہے؟ ہم تو ایک فسطائیت کے خلاف نبرد آزما ہیں یہ سیاسی جدوجہد کرنا ہمارا حق ہے اس سے ہمیں کوئی نہیں روک سکتا۔‘
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’دوسری بات یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے اجلاسوں اور جی سیون جیسے اجلاسوں کے باہر لوگ احتجاج کر رہے ہوتے ہیں۔ اور دنیا دیکھتی ہے۔ یہ ایک عوامی حق ہے جس کو ہر جگہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ شنگھائی تعاون تو محظ ایک ایشیائی تنظیم ہے۔‘خیال رہے کہ تحریک انصاف نے اپنے شیڈول کے آخر میں کہا ہے کہ 14 اکتوبر کو لاہور میں ہونے والے احتجاج کے بعد یہ بتایا جائے گا اسلام آباد میں دوبارہ احتجاج کی کال کب دینی ہے۔
اپوزیشن لیڈر پنجاب سے جب یہ پوچھا گیا کہ اگر ایس سی او کے موقع پر ہی احتجاج کرنا مقصور ہے تو اسلام آباد کے بجائے پنجاب میں کال کیوں دی گئی ہے؟ تو ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے احتجاج کی حکمت عملی پہلے سے طے ہے۔ اور ہم بار بار کال دے رہے ہیں اور عوام ہمارے ساتھ نکل بھی رہے ہیں۔ ہمارا مقصد کسی اجلاس کو خراب کرنے کا نہیں بلکہ اپنی جدوجہد کو زندہ رکھنے کا ہے۔ اس لیے جو سیاسی کمیٹی نے فیصلہ کیا اسی طرح شیڈول جاری کیا گیا۔‘
پنجاب حکومت کی ترجمان عظمی بخاری کا کہنا ہے کہ ’دنیا بھر میں پر امن احتجاجی حق کو تسلیم کیا جاتا ہے، تاہم جہاں بھی انتشار ہوتا ہے اسے دنیا کا کوئی ملک تسلیم نہیں کرتا۔ نہ امریکہ اور نہ برطانیہ جیسے ملک بلکہ فرانس کی بھی مثال اب تو صادق ہے۔ تحریک اںصاف ایک انتشاری ٹولہ ہے اور یہ احتجاج نہیں کرتے بلکہ مسلح ہو کر حملہ آور ہوتے ہیں۔ ایسے جتھوں کو روکنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ ایس سی او کے موقع پر ان کو کسی قسم کا انتشار پیدا کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔‘
سیاسی تجزیہ کار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کی احتجاجی سیاست میں اچانک تیزی کا مقصد آئینی ترمیم کے معاملے پر حکومت کو دباو میں لانا ہے۔ ’وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر یہ آئینی ترمیم منظور ہو گئی اور سپریم کورٹ کے اختیارات تقسیم ہو گئے تو ان کی جدوجہد بہت لمبی ہو جائے گی۔ اس لیے وہ اپنی ساری طاقت کے ساتھ یہ دباو بڑھا رہے ہیں، تاکہ آئینی ترمیم کو متنازعہ کیا جا سکے جو کہ کسی حد تک ہو بھی چکی ہے۔ لیکن اگر یہ احتجاج پھیلتا ہے اور کوئی سنجیدہ شکل اختیار کر لیتا ہے تو تحریک انصاف کو اس میں امید نظر آتی ہے۔ میرا خیال ہے اسی وجہ سے وہ بار بار احتجاج کی کال دے رہے ہیں۔‘