خیبر پختونخوا اسمبلی کے اجلاس میں ہنگامہ، کارکنوں کے درمیان ہاتھاپائی
پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کی اسمبلی کے اجلاس کے دوران ہنگامہ آرائی ہوئی اور گیلری میں بیٹھے کارکن آپس میں گتھم گتھا ہوئے ہیں۔
منگل کو وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی تقریر کے دوران اپوزیشن اراکین نے بات کرنے کا موقع نہ ملنے پر سپیکر سے بحث کی۔
اس دوران اپوزیشن رکن صوبائی اسمبلی اقبال وزیر اور حکومتی رکن نیک محمد کے درمیاں تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔
اس کے بعد اسمبلی کے سکیورٹی اہلکاروں نے مداخلت کر کے صورتحال کو قابو کیا۔ پولیس نے لڑائی کرنے والے تین کارکنوں کو گرفتار بھی کیا ہے۔
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے اپنی تقریر میں پانچ اکتوبر کو کے پی ہاؤس اسلام آباد سے اپنی ’گمشدگی‘ اور پھر تقریباً 24 گھنٹے بعد صوبائی اسمبلی پہنچنے سے متعلق تفصیلات بیان کیں۔
ہنگامہ آرائی کے بعد صوبائی اسمبلی کا اجلاس 14 اکتوبر تک ملتوی کر دیا گیا۔
’آئی جی اسلام آباد کو نہ ہٹایا تو پھر اسلام آباد آئیں گے:وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور
وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے کہا کہ ’فوج ہماری ہے، ان سے کوئی لڑائی نہیں۔ مجھے گرفتاری سے کوئی خوف نہیں۔ ہمارے کے پی ہاؤس پہنچنے کے بعد پولیس نے دھاوا بولا۔ کے پی ہاؤس میں عمران خان کی ہدایت کا انتظار کررہے تھے۔ کے پی ہاؤس میں پولیس والوں پر بھی تشدد کیا گیا۔‘
وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ ’میں چار گھنٹے تک کے پی ہاؤس میں رہا اور گاڑی کا بندوبست کرنے کا کہا۔ چار گھنٹے بعد گاڑی آئی اور پھر کے پی ہاؤس سے روانہ ہوا۔ کے پی ہاؤس کو قبضے میں لیا گیا جیسے یہ ان کی ذاتی ملکیت ہو۔ کے پی ہاؤس میں پولیس اور ورکرز کو مارا گیا۔ ایسا سلوک کیا جیسے ہم کوئی دہشت گرد ہوں۔‘
علی امین گنڈاپور کا کہنا تھا کہ میں سرکاری گاڑی میں کے پی ہاؤس سے روانہ ہوا تھا۔ پھر میں جمپ لگا کر پیدل روانہ ہوا، موبائل اور پیسے نہیں تھے۔ ایم ٹیگ کے ذریعے موٹروے پر آئے۔ اس کے بعد ایک ضلعے کے ڈی پی او کے گھر میں ناشتہ کیا۔ گاڑی میں پمپ سے تیل ڈلوایا، اس کی بھی رسید ہے۔ اس کے بعد میں تورغر، شانگلہ، سوات سے ہوتا ہوا نوشہرہ، چارسدہ اور پھر پشاور پہنچا۔‘
وزیراعلیٰ نے مزید کہا کہ ’آئی جی اسلام آباد کو نہ ہٹایا تو پھر اسلام آباد آئیں گے۔ اسمبلی کے فلور سے یہ پیغام دے رہا ہوں کہ تیار ہو جاؤ، ہم پھر اسلام آباد آرہے ہیں۔‘