شہنشاہِ قوالی، استاد نصرت فتح علی خان جن کی قوالیوں پر انگریز بھی دھمال ڈالنے لگتے
شہنشاہِ قوالی، استاد نصرت فتح علی خان جن کی قوالیوں پر انگریز بھی دھمال ڈالنے لگتے
اتوار 13 اکتوبر 2024 10:25
علی عباس۔ لاہور
1985 میں نصرت فتح علی خان نے لندن میں ’ورلڈ آف میوزک، آرٹس اینڈ ڈانس‘ فیسٹیول میں پرفارم کیا تھا۔ فوٹو: انسٹا دا آفیشل نصرت
قوالوں کے خاندان سے تعلق رکھنے والے اس نوجوان کا یہ روز کا معمول تھا کہ وہ لائلپور (فیصل آباد) کے ایک مخصوص مقام پر جاتا اور اپنے دِلی جذبات کا اظہار کرتا۔
یہ ساٹھ کی دہائی کا زمانہ تھا۔ سماج میں نفرتوں کے ناگ نے پھَن پھیلانا شروع نہیں کیے تھے۔ اس عہد میں اس 12/13 برس کے نوجوان کے بارے میں لوگ صرف یہ جانتے تھے کہ وہ بھلے دن بھر فاقے سے رہے، مگر موسیقی کی ریاضت کیے بنا اس کا دن مکمل نہیں ہو سکتا۔
اُس کا خاندان صدیوں سے فنِ قوالی کی ترویج کر رہا تھا مگر تقسیم کے بعد چوں کہ جالندھر سے فیصل آباد کا رُخ کیا تھا تو ایک نئے ماحول میں خود کو ڈھالنے کی کوشش جاری تھی۔
اس نوجوان نے اپنے اردگرد کے لوگوں پر یہ ضرور باور کروا دیا تھا کہ وہ اپنے فن میں یکتا ہے اور بہت آگے جا سکتا ہے کیوں کہ اس کے سُروں کی پختگی، لے کی اُٹھان اور پھر لفظوں کی ادائیگی کے باعث خاندان میں اکثر یہ بات کی جاتی کہ یہ لڑکا بڑا نام کمائے گا۔
پٹیالہ گھرانے کی موسیقی کی روایات کو آگے لے کر چل رہے اس خاندان کا یہ سپوت آنے والے برسوں میں نصرت فتح علی خان کے نام سے معروف ہوا۔ وہ نصرت فتح علی خان جس کی قوالیوں پر ہندوستانی اور پاکستانیوں کے علاوہ انگریز بھی بے اختیار جھوم اٹھا کرتے تھے اور اُن پر وجد کی کیفیت طاری ہو جاتی تھی۔
نصرت فتح علی خان نے اپنے بچپن میں ہی یہ ثابت کر دیا تھا کہ وہ اپنے خاندان کی موسیقی کی عظیم روایات کو آگے بڑھانے کے لیے موزوں ترین شخصیت ہیں۔ دس برس کے تھے کہ طبلہ بجانے میں مہارت حاصل کر چکے تھے۔
صحافی اور مصنف محمود الحسن اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں، ’نصرت فتح علی خان کے لڑکپن کی بات ہے کہ کلکتہ سے مشہور گائیک پنڈت دینا ناتھ فیصل آباد آئے اور ان کے گھر قیام کیا۔ استاد فتح علی خان سے انھوں نے شکوہ کیا کہ یہاں گانا انھوں نے خاک گانا تھا کہ طبلے پر سنگت کے لیے کوئی ڈھنگ کا بندہ ہی نہ ملا۔ ان سے کہا گیا کہ وہ گانے والے بنیں، طبلہ نصرت بجائے گا۔‘
دینا ناتھ یہ بات سن کر ہنسے اور کہا: ’ارے یہ موٹو نصرت؟‘
بااعتماد باپ نے جواب دیا: ہاں، ہے یہ موٹو لیکن ذہن بہت باریک ہے۔
آزمائش سے گزرنے سے پہلے باپ نے بیٹے کو چند نکتے کی باتیں ازبر کرا دیں۔ نصرت کی انگلیوں نے طبلے کو چھوا تواستاد دینا ناتھ اس نوعمر کی مہارت پر حیران رہ گئے۔ اٹھ کر اسے گلے لگایا اور کہا: فتح علی خان، یہ تیرا چھوٹا بیٹا بڑا گنی ہے۔
یہ جملہ باپ بیٹے دونوں کے لیے فخرو انبساط کا باعث بنا۔
یہ نوجوان جو آنے والے برسوں میں شہنشاہِ قوالی کے نام سے مشہور ہوا، آج ہی کے روز 13 اکتوبر 1948 کو تقسیم کے ایک سال بعد فیصل آباد میں پیدا ہوا۔
والد فتح علی خان جالندھری موسیقی پر گہری دسترس رکھتے تھے، اور قوالی کی روایت کے فروغ میں اس خاندان کا اہم کردار تھا۔
فتح علی خان کے گھر چار بیٹیوں کی پیدائش کے بعد جب نصرت فتح علی خان کی پیدائش ہوئی تو اُن کو اپنا وارث مل گیا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ اس خاندان نے چھ صدیوں سے قوالی کی روایت کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ دلچسپ بات مگر یہ ہے کہ فتح علی خان یہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کے صاحب زادے قوالی کا پیشہ ہی اختیار کریں۔ ان کا خیال تھا کہ ان کو ڈاکٹر یا انجینیئر کا زیادہ قابلِ احترام پیشہ منتخب کرنا چاہیے جس کی وجہ قوالوں کی کم تر سماجی حیثیت تھی مگر کم عمر نصرت نے قوالی میں اپنی دلچسپی کچھ یوں ظاہر کی کہ ان کے والد کو اپنا فیصلہ تبدیل کرتے ہی بنی۔
سال 1964 میں نصرت فتح علی خان صرف 16 سال کے تھے تو سر سے والد کا سایہ اُٹھ گیا۔ یہ نوعمر نصرت کے لیے تو تکلیف و الم کے لمحات تھے ہی بلکہ خاندان بھر کے لیے بھی فتح علی خان کی موت کے باعث اپنی چھے صدیوں پر محیط قوالی کی روایت کو زندہ رکھنا مشکل ہو گیا تھا کیوں کہ استاد مبارک علی خان نے اپنا ساتھی کھو دیا تھا۔
اُس وقت استاد فتح علی خان کی بہن کو نوجوان نصرت فتح علی خان کے بارے میں ایک صاحب نظر نے کہا تھا، ’یہ بہت بڑا گویا بنے گا۔‘ مشکلات کا شکار خاندان کے لیے یہ تسلی، امید کے یہ بول تریاک ثابت ہوئے۔
باپ استاد فتح علی خان کی وفات کے بعد کم سن نصرت نےرفتہ رفتہ یہ ثابت کر دیا کہ ان کی آواز میں رچاو ہے، سُروں پر گرفت ہے اور آواز میں درد ہے جس کے بعد اُن کے چچا نے ان کو ان کے والد کی جگہ قوال پارٹی میں شامل کر لیا اور یوں صرف 16 سال کی عمر میں ہی نصرت فتح علی خان عوامی اجتماعات اور میلوں میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے لگے۔
آگے بڑھنے سے قبل یہ بتاتے چلیں کہ سال 1971 میں اپنے چچا مبارک علی خان کی وفات کے بعد یہ نصرت فتح علی خان ہی تھے جنہوں نے صرف 22 سال کی عمر میں خاندانی قوال پارٹی کی سربراہی سنبھالی جو نصرت فتح علی خان، مجاہد مبارک علی خان اور ہمنوا کے نام سے مشہور ہوئی۔
یہ نوجوان قوال نصرت فتح علی خان کے فنی سفر کا ایک نیا آغاز تھا مگر فن پر ان کی دسترس اور موسیقی کے بارے میں اُن کا علم بے مثل تھا۔
ان دنوں ہی ریڈیو پاکستان نے ’جشنِ بہاراں‘ کے نام سے ایک پروگرام کا انعقاد کیا جس میں نصرت فتح علی خان اور ان کی قوال پارٹی نے بھی شرکت کی۔ اس پروگرام میں ان کا گایا ایک صوفیانہ کلام پاکستان بھر میں مقبول ہوا اور یوں نصرت فتح علی خان اور ان کے ہمنوائوں کو ایک نئی پہچان ملی۔
ان دنوں ہی فیصل آباد کی ایک گراموفون کمپنی کے مالک میاں رحمت نے نصرت فتح علی خان کو گاتے سنا۔ وہ قوالوں کے اس خاندان کو پہلے سے جانتے تھے مگر اس نوجوان کی گائیکی نے انہیں بہت زیادہ متاثر کیا۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے لیے اپنے مضمون میں عماد خالق رحمت گراموفون کمپنی کے مالک میاں رحمت کے صاحب زادے میاں اسد کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’نصرت سے میرے والد کی شناسائی تو ان کے بچپن سے ہی تھی مگر ستّر کی دہائی میں جب انہوں نے باضابطہ طور پر اپنے چچا استاد مبارک کے انتقال کے بعد اپنے قوال گھرانے کی سربراہی سنبھالی تو میرے والد نے نصرت کو بطور فنکار نوٹس کرنا شروع کر دیا۔‘
رحمت گرامو فون نے اُستاد نصرت فتح علی خان کے کئی البم ریلیز کیے اور اُن کی شہرت اب فیصل آباد تک محدود نہیں رہی تھی بلکہ وہ جلد ہی شہرت کے اس سنگھاسن تک پہنچنے میں کامیاب رہے جو بہت سوں کی برسوں کی ریاضت پر بھاری ہوتا ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے کے اس مضمون کے مطابق، ’میاں اسد کے مطابق ان کے والد میاں رحمت ستر کی دہائی کے آخر اور اسی کی دہائی کے اوائل میں نصرت کو اپنے ریکارڈنگ سٹوڈیو لے آئے جہاں سے انہوں نے اپنی قوالیوں اور غزلوں کی ریکارڈنگ کا آغاز کیا اور پھر ترقی اور شہرت کی منزلوں کو چھوتے گئے۔
نصرت فتح علی خان نے قوالی میں نئی جدتیں متعارف کروائیں، نئے ساز شامل کیے اور قوالی کی تعریف ہی بدل دی۔ انہوں نے غزلیں گائیں، لوک گیت گائے۔ وہ ایک ایسے فن کار تھے جنہوں نے روایت سے بغاوت کرتے ہوئے قوالی کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جس کے باعث یہ سرحدوں کی محتاج نہیں رہی۔
گذشتہ ہزاریے کی آخری دو دہائیوں کے دوران نصرت فتح علی خان نے چند ہی برسوں میں لیجنڈ کا درجہ حاصل کر لیا، اور یوں نصرت فتح علی خان کی شہرت سات سمندر پار دنیا کے ان ملکوں میں بھی پہنچ گئی جہاں اُردو، پنجابی یا ہندی جاننے والوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی۔
یہ سال 1985 کے موسمِ بہار کے دن تھے، جب نصرت فتح علی خان نے لندن میں ’ورلڈ آف میوزک، آرٹس اینڈ ڈانس‘ فیسٹیول میں پرفارم کیا، اس فیسٹیول کا انعقاد راک گلوکار پیٹر گیبریئل نے کیا تھا جو عالمی موسیقی کے فروغ کے لیے کوشاں تھے۔
اور یہیں سے پیٹر گیبریئل اور استاد نصرت فتح علی خان کے درمیان وہ تخلیقی شراکت داری قائم ہوئی جس نے مشرقی موسیقی کو مغربی سامعین تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔
یہ ذکر کرنا ازبس ضروری ہے کہ پیٹر گیبریئل کی زندگی میں استاد نصرت فتح علی خان کے آنے سے قبل ہی وہ مشرقی موسیقی کا معتبر ترین حوالہ بن چکے تھے۔ انہوں نے لندن، پیرس، جاپان، نیویارک سمیت مغرب میں کئی جگہوں پر پرفارم کیا اور یوں مغرب میں اُن کی موسیقی کے لاکھوں چاہنے والے پیدا ہو گئے۔
سال 1988 میں ریلیز ہونے والی ایک فلم کے سائونڈ ٹریک میں پیٹر گیبریئل اور اُستاد نصرت فتح علی خان نے مل کر کام کیا تھا۔اس فلم میں اُستاد جی کا ’الاپ‘ ہمیشہ کے لیے اَمر ہو گیا جس کے بارے میں یہ تک کہا گیا کہ یہ کوئی گلوکار نہیں بلکہ بھگوان بول رہا ہے۔
اُن کا گایا ہوا کلام ’مست مست‘ اسی دور کی یادگار ہے جو انہوں نے سال 1990 میں کینیڈین موسیقار مائیکل بروک کے ساتھ مل کر پیٹر گیبریئل کے ریئل ورلڈ ریکارڈز کے لیے تخلیق کیا تھا۔ یہ زبردست کامیاب رہا۔
’ریئل ورلڈ ریکارڈز‘ اس حوالے سے ایک دلچسپ کہانی بیان کرتا ہے کہ’پیٹر گیبریئل نصرت فتح علی کو اپنے ساتھ اپنے سٹوڈیو لے گئے تاکہ فلم کے گیت میں اُن کی آواز ریکارڈ کر سکیں۔ اُس وقت استاد جی کے ساتھ ان کے بھائی فرخ فتح علی خان اور طبلہ نواز دلدار حسین بھی تھے۔ اُستاد نصرت فتح علی خان سٹوڈیو میں راگ گا رہے تھے اور پیٹر ان کی ریکارڈنگ کر رہے تھے۔‘
اس مضمون کے مطابق، ’یہ سلسلہ رات دیر گئے تک چلا۔ نصرت، فرخ اور دلدار تھک گئے تھے۔ ریکارڈنگ جب ختم ہونے لگی تو گیبریئل نے (نصرت سے) کہا، ’میری خواہش ہے کہ تم مغربی موسیقی کے سازوں کے ساتھ بھی کچھ گاؤ۔‘
نصرت نے ہارمونیم تھام لیا۔ فرخ نے کہا، ’خان صاحب مہربانی کر کے کچھ کیجیے، تاکہ ہم آرام کرنے کے لیے اپنے کمروں کو جا سکیں۔‘ استاد نصرت فتح علی کی انگلیاں ہارمونیم کے کی بورڈ پر حرکت کرنے لگیں اور وہ مسکرا دیے، ’سا رے سا، نی سا پا نی ما پا ما نی گا رے گا۔‘
یہ سُن کر تھکاماندہ دلدار بھی فرخ کے ساتھ مسکرا دیا۔ وہ تینوں یہ ادراک نہیں کر سکے تھے کہ نصرت نے اس ہلکے پھلکے انداز میں کیا تخلیق کر ڈالا تھا؟ پیٹر کو یہ اندازِ گائیکی بہت پسند آیا اور انہوں نے اپنی ٹیم کے ارکان مائیکل بروک، ڈیرل جانسن، جیمز پنکر اور گوہ یووے کو اپنے سازوں کے ساتھ آنے کے لیے کہا تاکہ وہ نصرت کے ساتھ ایک ایسی البم پر کام کر سکیں جس میں مغربی اثر ہو۔ ان سیشنز کے بعد ہی ’مست مست‘ اور دیگر گیت ریکارڈ ہوئے اور البم بھی اسی نام سے ریلیز ہوئی۔‘
اُستاد نصرت فتح علی خان نے ریئل ورلڈ ریکارڈز کے تحت قوالی کے پانچ البم ریلیز کیے جن میں ’مست مست‘ اور ’نائٹ سانگ‘ نمایاں ہیں جب کہ ایک البم ’سٹار رائز‘ اُن کی وفات کے بعد سال 1997 میں ریلیز ہوئی۔ انہوں نے آنے والے برسوں میں مزید مغربی موسیقاروں کے ساتھ کام کیا اور امریکی راک بینڈ کے مرکزی گلوکار ایڈی ویڈار کے ساتھ البم ’ڈیڈمین والکنگ‘ کے لیے دو گیت گائے جب کہ کچھ اور مغربی گلوکاروں کے ساتھ بھی اپنے سُروں کا جادو جگایا۔
اس حقیقت سے مُفر ممکن نہیں کہ اُستاد نصرت فتح علی خان نے قوالی کو صرف نئے رجحانات سے ہی متعارف نہیں کروایا بلکہ انہوں نے قوالی کو دنیا بھر میں مقبول بنانے میں بھی اہم ترین کردار ادا کیا۔ وہ بلاشبہ برصغیر کے عظیم ترین قوال اور گلوکار تھے۔
اُستاد نصرت فتح علی خان نے بالی وڈ کی چند فلموں کے لیے بھی قوالیاں گائیں۔ انہوں نے سال 1994 میں ریلیز ہونے والی فلم ’بینڈٹ کوئین‘ کے لیے پہلی بار کسی فلم کے لیے گایا۔ سال 2000 میں ریلیز ہونے والی فلم ’دھڑکن‘ میں شامل ان کی قوالی ’دلہے کا سہرا سہانا لگتا ہے‘ گائی جس نے زبردست پذیرائی حاصل کی۔ انہوں نے بالی ووڈ میں اگرچہ زیادہ کام نہیں کیا مگر ہندوستان بھر میں لیجنڈ موسیقار اے آر رحمان سے لے کر عام سامعین تک لاکھوں لوگ اُستاد نصرت فتح علی خان کے فنِ گائیکی کے دلدادہ ہیں۔
نصرت فتح علی خان کا کیریئر اگرچہ بہت طویل نہیں تھا مگر برصغیر پاک و ہند کے کسی اور قوال کو اُن کی سی شہرت حاصل نہیں ہوئی۔
استاد نصرت فتح علی خان کو حکومتِ پاکستان کی جانب سے سال 1987 میں پرائیڈ آف پرفارمنس کے اعزاز سے نوازا گیا جب کہ عالمی سطح پر اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو نے اُستاد جی کو سال 1995 میں میوزک ایوارڈ سے نوازا۔ اگلے ہی برس مونٹریال ورلڈ فلم فیسٹیول کی جانب سے اُن کو سنیما کے لیے گراں قدر خدمات انجام دینے پر خصوصی ایوارڈ سے نوازا گیا جب کہ جاپان میں اُن کو آج بھی ’نغمہ سرا بدھا‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
استاد نصرت فتح علی خان کو عالمی سطح پر ملنے والے اعزازات کی فہرست حاصی طویل ہے جب کہ انہوں نے بہت سے ریکارڈ بھی قائم کیے جن میں سب سے زیادہ قوالیاں ریکارڈ کروانے کا اُن کا ریکارڈ گنیز ورلڈ ریکارڈز کا حصہ بن چکا ہے۔ ٹائمز میگزین، این پی آر اور سی این این نے ان کو دنیا کے عظیم ترین موسیقاروں کی فہرست میں شامل کیا تو امریکی ماہنامہ جریدے ’رولنگ سٹون‘ نے جنوری 2023 میں تمام زمانوں کے 200 بہترین گلوکاروں کی فہرست شائع کی تو اس میں اُستاد نصرت فتح علی خان کو 91 واں نمبر دیا گیا تھا۔
اُستاد نصرت فتح علی خان عالمی موسیقی کے سرخیل تھے۔ ہانگ کانگ کے جریدے ’ایشیا ویک‘ کے ایک مضمون کے مطابق، ’نصرت فتح علی خان کی آواز جادوئی تھی اور ان کی موسیقی ربع صدی تک لاکھوں لوگوں پر سحر طاری کرتی رہی ہے۔ انہوں نے قوالیاں گائیں، جس کا مطلب فلسفیانہ یا دانش مندانہ کلام ہے جو ان کی نسل کے کسی اور گلوکار نے نہیں کیا۔ ان کا بلند سُروں میں ہونا، ان کی برجستگی کا ہنر اور شدتِ جذبات سے کسی اور کا کوئی موازنہ ممکن نہیں۔‘
استاد نصرت علی خان کے کچھ گیت اور قوالیاں،
’تمہیں دل لگی بھول جانی پڑے گی
محبت کی راہوں میں آ کر تو دیکھو‘،
یا
’سانسوں کی مالا پہ سمروں میں پی کا نام
اپنے من کی میں جانوں اور پی کے من کی رام‘
یہ سینکڑوں قوالیوں میں سے صرف دو مثالیں ہیں جن کے ذریعے استاد نصرت فتح علی خان برصغیر پاک و ہند کی تاریخ کے عظیم ترین قوال ہی نہیں بلکہ گلوکار بھی قرار پاتے ہیں جب کہ اُن کی پہچان موسیقار اور گیت نگار کے طور پر بھی رہی۔
یہ اگست کی ایک حبس آلود شام تھی۔ اُستاد نصرت فتح علی خان جو پہلے سے ہی گردوں کے عارضے میں مبتلا تھے، لندن سے لاس اینجلس جا رہے تھے جب اُن کی طبیعت اچانک بگڑی جس پر انہیں لندن کے کرام ویل ہسپتال لے جایا گیا مگر چند دن موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد 16 اگست 1947 کو دل کا دورہ پڑنے کے باعث چل بسے۔ اُن کی عمر اس وقت صرف 49 برس تھی۔
آہ! نصرت فتح علی خان رُحصت ہو گئے۔ اُن کے بھتیجے راحت فتح علی خان اب ان کے فنی ورثے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ نصرت فتح علی خان سا دوسرا کوئی فنکار کبھی پیدا ہو ہی نہیں سکتا۔
استاد نصرت فتح علی خان کی سوانح حیات ’قوالی کا پیام رساں‘ کے دیباچے میں مصنف اور کئی برس گلوکار کے ساتھ گزارنے والے پیئر آلیں بو بجا طور پر یہ لکھتے ہیں: ’ٹوکیو میں نغمہ سرا مہاتما، تیونس میں انسانی سنگیت کا جوہر، لاس اینجلس میں جنت کی آواز، پیرس میں مشرق کا پاواروتی، اور لاہور میں شہنشاہِ قوالی کے القاب سے نوازے جانے والے، عوام کے اس گائیک نے تقریباً ڈیڑھ دہائی میں ہی عالمگیر شہرت کمائی اور پھر اپنے وقت سے پہلے ہی اپنے پیچھے ہزاروں نقشِ پا چھوڑ کر چلے گیا۔‘