Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایرانی تیل کی سمگلنگ پر پابندیوں کا آغاز، بلوچستان میں احتجاج

سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا ہے کہ ایرانی تیل مقامی لوگوں کی ضرورت ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
بلوچستان میں حکومت اور سکیورٹی اداروں نے ایران سے پاکستان میں تیل کی سمگلنگ کی روک تھام کے لیے نئی حکمت عملی بنا لی ہے اور لمیٹیشن (محدود کرنے کی) پالیسی کے تحت مرحلہ وار پابندیوں پر عمل شروع ہو گیا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ پہلے مرحلے میں گوادر میں سمندری اور زمینی راستے سے ایرانی تیل کی سمگلنگ پر مکمل پابندی عائد کردی گئی جبکہ دیگر سرحدی اضلاع میں ایران سے  تیل لانے پر پابندی ہفتے میں ایک دن سے بڑھا کر تین دن کر دی گئی۔
نئی پابندیوں کے خلاف صوبے کے سرحدی علاقوں میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ حزب اختلاف کی جماعتوں نے بھی حکومتی اقدامات کی مخالفت کی ہے اور خدشہ ظاہر کیا ہے کہ لاکھوں افراد کے بے روزگار ہونے کی صورت میں صوبے کی معیشت اور امن وامان کی صورتحال پر گہرے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
ملک کے خفیہ اداروں نے رواں سال اپریل میں اپنی ایک مشترکہ رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ ایران سے سالانہ 2 ارب 80 کروڑ لیٹر تیل (ڈیزل اور پٹرول) بلوچستان کے راستے پاکستان سمگل ہو رہا ہے جس سے قومی خزانے کو کم از کم 227 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔
حکومت بلوچستان کے ایک سینیئر آفیسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ نگراں حکومت کے دور میں سکیورٹی اداروں کی جانب سے ایرانی تیل کی سمگلنگ کی روک تھام کے لیے سخت اقدامات شروع کیے گئے اور پھر کچھ نرمی دیکھی گئی، تاہم اب ایک بار پھر سمگلنگ کی روک تھام کے لیے اقدامات سخت کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ متعلقہ اداروں نے تیل کی سمگلنگ پر مکمل پابندی عائد کرنے کے بجائے لمیٹیشن پالیسی اختیار کی ہے جس کے تحت پاکستانی سرحد کے اندر اور بلوچستان کے سرحدی اضلاع تک ایرانی تیل کی مقدار اور ترسیل کو آہستہ آہستہ محدود کیا جا رہا ہے۔ اس طرح سمگلنگ کو مرحلہ وار اتنا کم کر دیا جائے گا کہ صرف سرحدی علاقوں کی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔
سینیئر افسر کے مطابق پہلے مرحلے میں گوادر میں سمندری راستے اور کشتیوں کے ذریعے ایرانی تیل لانے پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ اسی طرح بین الاضلاعی ترسیل پر پابندی لگانے کے علاوہ چاغی، واشک، پنجگور اور کیچ کے اضلاع میں پاک ایران سرحد پر ان کراسنگ پوائنٹس کی بندش کے دورانیے کو بڑھا دیا گیا ہے جہاں سے گاڑیوں کے ذریعے ایرانی تیل پاکستان لانے کی اجازت دی جاتی ہے۔ یہ کراسنگ پوائنٹس اب ہفتے میں تین دن (جمعہ، ہفتہ اور اتوار) کو بند رہیں گے۔ اس سے پہلے صرف جمعہ کو چھٹی ہوتی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ ایرانی تیل سے منسلک افراد کی بھی چھان بین کی جارہی ہے اور ایسے افراد کی گاڑیوں کی رجسٹریشن منسوخ کردی جائیں گی جن کا تعلق سرحدی علاقوں سے نہیں اور انہوں نے دوسروں کے نام پر رجسٹریشن کرا رکھی ہے۔ ان کے بقول ایرانی تیل سے مستقبل میں صرف سرحدی اضلاع کے لوگ محدود پیمانے پر روزگار کما سکیں گے۔
گوادر میں ایرانی تیل کے کاروبار سے منسلک شاہ بخش نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ ایران سے زمینی اور سمندری راستے سے ایرانی تیل گوادر لانے پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے۔

پنجگور میں ایران سے بلوچستان میں تیل لانے پر پابندی کے خلاف احتجاج کیا جا رہا ہے۔ فوٹو: اردو نیوز

انہوں نے بتایا کہ گوادر میں بارڈر چیک پوسٹ نمبر 250 کے زمینی راستے کے علاوہ جیونی میں کنٹانی ہور کے مقام پر سکیورٹی فورسز نے رواں ہفتے اس سمندری راستے کو بھی بند کر دیا ہے جہاں سے روزانہ تقریباً تین ہزار کشتیاں لاکھوں لیٹر ایرانی تیل لاتی تھیں۔
انہوں نے بتایا کہ اس سمندری راستے تک لوگوں کی رسائی روکنے کے لیے کروڑوں روپے کی باڑ لگائی جا رہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ گوادر سے باہر ایرانی تیل لے جانے پر بھی مکمل پابندی عائد کردی گئی ہے ، جن چیک پوسٹوں پر پہلے کوئی روک ٹوک نہیں ہوتی تھی اب بہت سختی کی جا رہی ہے۔
شاہ بخش کے مطابق صرف کنٹانی ہور میں کم از کم بیس ہزار افراد براہ راست اس کاروبار سے وابستہ تھے جو اب بے روزگار ہو گئے ہیں۔
خفیہ ادارے کی اپریل میں سامنےآنےوالی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ بلوچستان کے مکران اور رخشاں ڈویژن کے پانچ سرحدی اضلاع کے پانچ زمینی اور ایک سمندری راستہ سمگلنگ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ضلع کیچ (تربت) کی عبدوئی سرحد سے روزانہ 26 لاکھ لیٹر، گوادر کنٹانی سمندری راستے سے یومیہ 19لاکھ لیٹر، ضلع چاغی کے علاقے راجے سے یومیہ ساڑھے 6 لاکھ لیٹر، واشک کے جودر سرحد سے سوا لاکھ لیٹر جبکہ پنجگور کے جیرک اور چیدگی کے دو سرحدی راستوں سے یومیہ 25 لاکھ لیٹر ایرانی تیل پاکستان پہنچتا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ روزانہ 1800 سے 2000 زمباد (ایرانی ساختہ) گاڑیاں سرحد پار سے پیٹرول اور ڈیزل کی ترسیل کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ ہر ایک گاڑی میں 3200 سے 3400 لیٹر کی گنجائش ہوتی ہے جبکہ کشتیوں میں 1600 سے 2000 لیٹر لے جانے کی صلاحیت ہوتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق سمگل شدہ ایرانی تیل میں سے 95 فیصد ٹوکن یا پرچی کے غیر رسمی نظام کے تحت ملک کے اندر لایا جاتا ہے جسے 2021 میں ایف سی اور مقامی انتظامیہ نے بلوچستان کے ایرانی سرحد کے ساتھ اضلاع میں قائم کیا تھا۔
ایرانی تیل پر پابندیوں کے خلاف احتجاج کرنےوالے کیچ بارڈر الائنس کے رہنما بہروز درازئی نے بتایا کہ پہلے ٹوکن کے بغیر ہر کوئی اپنی مرضی سے سرحد پر جا کر ایرانی ساختہ زمباد گاڑیوں میں تیل لاسکتا تھا۔ اس کے بعد سرحد پر آہنی باڑ لگائی گئی اور گاڑیوں کی رجسٹریشن کرکے ٹوکن نظام نافذ کیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ ٹوکن نظام کے نفاذ ہونے کے بعد ابتدا میں ہر گاڑی کو پندرہ دنوں میں ایک بار سرحد سے تیل لانے کا موقع ملتا تھا اب تین تین مہینوں میں بھی باری نہیں آتی کیونکہ رجسٹریشن پندرہ بیس ہزار گاڑیوں کی گئیں جبکہ روزانہ صرف چار سو سے چھ سو گاڑیوں کوسرحد پار سے تیل لانے کی اجازت ملتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ انتظامیہ اور سکیورٹی اداروں کے بعض افسران نے اثر و رسوخ اور بعض لوگوں نے پیسوں کے بل بوتے پر سرحدی علاقوں کے رہائشیوں کے نام پر درجنوں ٹوکن حاصل کر رکھے ہیں جس سے وہ ماہانہ کروڑوں روپے کما رہے ہیں جبکہ ان کے مقابلے میں گاڑی کے ڈرائیور اور مزدور طبقے سے تعلق رکھنے والے مقامی افراد صرف بچوں کے لیے دو وقت کی روٹی کما رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ایرانی تیل کی ترسیل سے گاڑی والے کو بمشکل پچیس تیس ہزار روپے بچتے ہیں اور غریب لوگوں کا بس چولہا ہی جلتا ہے جبکہ اصل کمائی بااثر لوگوں کی ہوتی ہے جن کی درجنوں گاڑیاں چل رہی ہیں۔
ایرانی تیل کی سمگلنگ میں بااثر افراد بشمول صوبائی وزراء، ارکان اسمبلی، حکومتی شخصیات اور سرکاری اہلکاروں کے ملوث ہونے کی تصدیق خفیہ اداروں نے بھی اپنی رپورٹس میں کی ہے۔ رپورٹ میں 105 بڑے سمگلروں، چاروں صوبوں کے 100کرپٹ اہلکاروں اور ایرانی تیل کی فروخت میں 533ملوث غیرقانونی اور غیر لائسنس یافتہ پٹرول پمپس کی نشاندہی کی گئی تھی۔
سرکاری رپورٹس میں یہ بھی بتایا گیا کہ سرکاری اہلکار پیسوں کے عوض تیل کی سمگلنگ کی اجازت دیتے ہیں جس کی بدولت ایرانی تیل کا 45 فیصد حصہ سندھ، 25 فیصد پنجاب اور خیبر پختونخوا تک پہنچ جاتا ہے۔

احتجاج کرنے والوں کا کہنا ہے کہ سرحد پار سے تیل لانے پر پابندی سے لاکھوں بے روزگار ہوں گے۔ فوٹو: اردو نیوز

ایرانی تیل کے کاروبار سے منسلک افراد کا دعویٰ ہے کہ اس سے بلوچستان کے تیس لاکھ لوگ روزگار کماتے ہیں جبکہ سرکاری رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ صوبے میں تقریباً 22 سے 24 لاکھ لوگوں (بلوچستان کی 14 سے 16 فیصد آبادی) کی زندگی کا انحصار ایرانی تیل کی سمگلنگ پر ہے۔ زیادہ تر دہشتگردی سے متاثرہ جنوبی بلوچستان کے بلوچ اس کاروبار سے منسلک ہیں جن کے پاس معاشی مواقع بہت کم ہیں۔
ایرانی تیل کے کاروبار سے منسلک بہروز درازئی کہتے ہیں کہ سرحدی علاقوں میں نہ کوئی فیکٹری، نہ زراعت اور نہ ہی روزگار کے دوسرے ذرائع ہیں اس لیے ایرانی تیل کی غیررسمی تجارت ہی لوگوں کے روزگار کا واحد ذریعہ ہے، جب سرحد کھلی رہتی ہے تو لوگوں کے گھروں کے چولہے جلتے ہیں اور جب سرحد بند ہوتی ہے تو یہ چولہے بجھ جاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر ایرانی تیل کا کاروبار مکمل بند کیاگیا تو لاکھوں بے روزگار نوجوان کیا کریں گے؟ ایرانی تیل کے کاروبار کو بند کرنے کی بجائے حکومت کو اس کو قانونی دائرے میں لانے کے لیے اقدامات کرنے چاہییں۔
ایرانی تیل کی ترسیل سمیت سرحدی تجارت پر پابندیوں کے خلاف بدھ کو بلوچستان کے ضلع چاغی ، منگل کو پنجگور میں احتجاج کیا گیا۔ چاغی میں سڑک بند کی گئی جبکہ پنجگور میں آل بارڈر اتحاد نے بسم اللہ چوک سے ڈپٹی کمشنر کےد فتر تک احتجاجی ریلی نکالی۔ گوادر کو حق دو تحریک کی جانب سے بھی گوادر میں ڈپٹی کمشنر کے دفتر کے باہر احتجاج کا اعلان کیا گیا ہے۔
بدھ کو بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں بھی سرحد ی تجارت اور سمگلنگ پر گرما گرم بحث ہوئی۔ گوادر سے رکن بلوچستان اسمبلی مولانا ہدایت الرحمان نے سرحد کی بندش اور سختیوں کے خلاف پلے کارڈ اٹھا کر احتجاج کیا جس پر سرحد کی بندش بلوچستان دشمنی کا نعرہ درج تھا۔
مولانا ہدایت الرحمان کا کہنا تھا کہ گوادر میں تیل کی ترسیل پر مکمل پابندی عائد کردی گئی، تیل بردار گاڑیوں کو سڑکوں پر آنے نہیں دیا جا رہا۔ ان اقدامات سے لاکھوں لوگ بے روزگار ہوں گے۔

بلوچستان کے وزیراعلٰی سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ سمگلنگ کے معاملے پر اسمبلی میں بحث نہیں ہو سکتی۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

سرحدی ضلع کیچ سےتعلق رکھنے والے نیشنل پارٹی کے سربراہ سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ ایرانی تیل کے کاروبار سے صرف سرحدی علاقوں کے ہی نہیں بلوچستان کے پچیس سے تیس لاکھ لوگ وابستہ ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ سمگلنگ نہیں لوگوں کی ضرورت ہے، اسے بند کرنے کے بھیانک نتائج برآمد ہوں گے۔
وزیراعلیٰ میر سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے لوگوں کے پاس روزگار کے مواقع نہیں تاہم سمگلنگ روزگار کا مستقبل ذریعہ نہیں ہو سکتا، غیر قانونی کام پر اسمبلی میں بحث نہیں کر سکتے، اس سے پاکستان کو اربوں ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے ، حکومت اس معاملے پر سوچ بچار کر رہی ہے، تیس ہزار نوجوانوں کو ہنرمند بنایا جائے گا۔
حکومتی اتحادی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے رکن آغا عمر احمد زئی نے تیل بند کرنے کی بجائے اس پر ٹیکس لگانے کی تجویز دی۔

شیئر: