ناتجربہ کاروں کو اجازت نہ دیں، بلند ترین چوٹیاں سر کرنے والی کوہ پیما کا مطالبہ
ناتجربہ کاروں کو اجازت نہ دیں، بلند ترین چوٹیاں سر کرنے والی کوہ پیما کا مطالبہ
جمعہ 18 اکتوبر 2024 10:16
برطانوی کوہ پیما کا کہنا ہے کہ بلند ترین چوٹیاں سر کرنے کے لیے ضروری ریننگ کی شرط لازمی ہے۔ فوٹو: اے پی
دنیا کی چودہ بلند ترین چوٹیاں سر کرنے والی سب سے کم عمر برطانوی کوہ پیما کا کہنا ہے کہ ناتجربہ کار کلائمبرز اپنی اور دیگر ساتھیوں کی زندگیوں کو بھی خطرے میں ڈالتے ہیں، انہیں بلند ترین چوٹیاں سر کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق 23 سالہ برطانوی کوہ پیما ایڈریانا براونلی نے سال 2021 میں دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ سر کی تھی جب ان کی عمر 20 سال تھی۔
جبکہ رواں ماہ انہوں نے چین کی شیشا پانگما چوٹی کو سر کر کے 8,000 سے زائد بلندی والی 14 چوٹیاں سر کرنے کا اعزاز حاصل کر لیا ہے
ایڈریانا براونلی نے کہا کہ وہ ایسے متعدد کوہ پیما دیکھ چکی ہیں جو بنیادی مہارت اور اونچی چوٹیوں کی غیر متوقع ڈھلوانوں کا مقابلہ کرنے کی تربیت نہیں رکھتے۔
’میں نے پہاڑوں پر ایسے کئی لوگ دیکھے جنہیں وہاں نہیں ہونا چاہیے تھا، جنہیں پہلے ٹریننگ لینی چاہیے تھی۔‘
ایڈریانا براونلی نے بتایا کہ ناتجربہ کار کلائمبرز کی بہت ہی معمولی چیزوں جیسے حفاظتی سامان کے استعمال میں بھی مدد کرنا پڑتی تھی۔
انہوں نے متعلقہ حکام سے مطالبہ کیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ بلند ترین چوٹیاں سر کرنے کے خواہش مند افراد کو کم از کم چھوٹی چوٹیاں سر کرنے کا تجربہ ہونا چاہیے اور یہ کہ اونچائی پر کم درجہ حرارت سے پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنے کی ٹریننگ رکھتے ہوں۔
رواں ہفتے ایڈریانا براونلی کوہ ہمالیہ میں واقع علاقے تبت کے کوہ پیماؤں کے ہمراہ نیپال گئی تھیں۔ نیپال کے 18 سالہ کوہ پیما نیما رنجی شیرپا بھی ان کے ہمراہ تھے جنہوں نے دنیا کی بلند ترین 14 چوٹیوں کو سر کرنے والے کم عمر ترین کوہ پیما ہونے کا عالمی ریکارڈ قائم کیا ہے۔
عام طور پر بلند ترین چوٹیوں پر چڑھنے کے لیے پرمٹ فیس کی ادائیگی کے علاوہ عمر کی پابندی کی شرط ہے۔ نیپال میں کوہ پیمائی کے لیے کم سے کم عمر 16 سال ہے۔
ایڈریانا براونلی کا کہنا ہے کہ وہ 8 سال کی تھیں جب انہوں نے اپنے والد کی طرح کوہ پیمائی کا خواب دیکھنا شروع کیا۔
ان کا کہنا ہے کہ 14 بلند ترین چوٹیاں سر کرنے کے بعد اب وہ نیپال اور دنیا کی دیگر چوٹیاں دیکھنے کی خواہش مند ہیں۔
ایڈریانا برانلی کا کہنا ہے کہ وہ نوجوانوں کو ہمت دلانا چاہتی تھیں کہ وہ اپنے خواب ضرور پورے کریں۔
’میرا پیغام یہی ہے کہ زندگی میں اپنے مقصد تک پہنچنے کے لیے آپ کوئی بھی راستہ اختیار کر سکتے ہیں۔ یہ مقصد آپ کے لیے بالکل منفرد ہو سکتا ہے اور اس پر قائم رہنا بہت ضروری ہے اور معاشرہ جو کہہ رہا اس کو بالکل نہ سنیں۔‘