26 ویں آئینی ترمیم کی ایڈوائس پر صدر مملکت کے دستخط، گزٹ نوٹی فکیشن جاری
26 ویں آئینی ترمیم کی ایڈوائس پر صدر مملکت کے دستخط، گزٹ نوٹی فکیشن جاری
پیر 21 اکتوبر 2024 5:55
بشیر چوہدری، اردو نیوز۔ اسلام آباد
صدر مملکت آصف علی زرداری نے 26 ویں آئینی ترمیم کی ایڈوائس پر دستخط کر دیے ہیں جس کے بعد آئینی ترمیم باضابطہ طور پر آئینِ پاکستان کا حصہ بن گئی ہے۔
پیر کو صدر آصف علی زرادری کے دستخط کے بعد 26 ویں آئینی ترمیم کا گزٹ نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے۔
سینیٹ میں 26 ویں آئینی ترمیم دوتہائی اکثریت سے منظوری کے بعد حکومت قومی اسمبلی سے بھی 26 ویں آئینی ترمیم دو تہائی اکثریت سے منظور کرانے میں کامیاب ہو گئی تھی۔
اس ترمیم کے نتیجے میں اعلٰی عدلیہ میں آئینی بینچوں کی تشکیل، چیف جسٹس آف پاکستان کی تقرری کے طریقۂ کار میں تبدیلی، چیف جسٹس کے عہدے کے لیے نئی میعاد مقرر ہو جائے گی جبکہ جوڈیشل کمیشن بھی نئے سرے سے تشکیل دیا جائے گا۔
آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے حکومت کو 224 اراکین اسمبلی کے ووٹوں کی ضرورت تھی، ترمیم کی شق وار منظوری کے دوران حق میں 225 اراکین نے ووٹ دیا جبکہ بل کی مخالفت میں 12 ووٹ پڑے۔
آئینی ترمیم کی منظوری میں پانچ منحرف اراکین اسمبلی کے ووٹوں کا بھی اہم کردار تھا جن میں سے چار اراکین کا تعلق پی ٹی آئی سے اور ایک کا تعلق ق لیگ سے تھا۔
تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے ارکان قومی اسمبلی میں سے ظہور قریشی، عثمان علی، اورنگزیب کھچی اور مبارک زیب نے ترمیم کے حق میں ووٹ دیا جبکہ تحریک انصاف کی حمایت سے انتخاب جیت کر ق لیگ کا حصہ بننے والے چودہری الیاس نے بھی ترمیم کے لیے ووٹ دیا۔
تحریک انصاف کی جانب سے ان ارکان کے ’ضمیر خریدنے‘ اور ان پر ’دباؤ ڈال کر‘ ووٹ حاصل کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
قائد حزبِ اختلاف عمر ایوب نے قومی اسمبلی میں اپنے خطاب کے دوران ان ارکان کے نام لے کر اور ان کے خلاف ہونے والی کارروائیوں اور انہیں غیر قانونی طور پر لاپتہ کرنے پر آواز اُٹھائی اور کہا کہ انہیں اپوزیشن بینچوں پر واپس بھیجا جائے۔
ترمیم کی منظوری کے بعد وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے خطاب میں ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ’کسی جماعت کے کسی رکن کا ضمیر خرید کر اسے لُوٹا نہیں بنایا گیا بلکہ آزاد ارکان نے اپنے ضمیر کی آواز پر خود سے اس ترمیم کے حق میں ووٹ دیا ہے۔ جن ارکان نے ترمیم کے حق میں ووٹ دیا ہے وہ آزاد ہیں، ان کا کسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘
تحریک انصاف کی جانب سے یہ بھی دعویٰ کیا گیا تھا کہ ان کے دیگر ارکان اسمبلی جن میں زین قریشی، اسلم گھمن، ریاض فتحانہ اور مقداد حسین شامل ہیں، انہیں حکومتی لابی میں لا کر بٹھایا گیا ہے تاکہ وقت ضرورت انہیں ایوان میں پیش کیا جا سکے۔
اس حوالے سے زین قریشی نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں تردید کرتے ہوئے کہا کہ وہ قومی اسمبلی میں موجود نہیں تھے اور ’نہ ہی وہ 26 ویں آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دینے کا سوچ سکتے ہیں۔‘
ترمیم کی منظوری کے بعد وزیراعظم شہباز شریف نے بلاول بھٹو زرداری، مولانا فضل الرحمن خالد مقبول صدیقی، فاروق ستار اور دیگر رہنماؤں کی نشستوں پر جا کر انہیں مبارک باد دی اور تعاون پر شکریہ ادا کیا۔
بلاول بھٹو زرداری نے بھی مولانا فضل الرحمان کی نشست پر جا کر آئینی ترمیم میں حمایت پر ان کا شکریہ ادا کیا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے ایوان میں اپوزیشن رہنماؤں اسد قیصر اور بیرسٹر گوہر ایوب سے بھی ملاقات کی۔
وزیراعظم نے کہا کہ ’میں نے اپوزیشن رہنماؤں سے کہا ہے کہ اگر وہ اس ترمیم کا حصّہ بنتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔‘
قومی اسمبلی کے اجلاس کی کارروائی میں کیا ہوا؟
اتوار اور پیر کی شب شروع ہو نے والا قومی اسمبلی اجلاس فجر کی اذانوں تک جاری رہا۔
قومی اسمبلی میں معمول کی کارروائی معطل کرنے کی تحریک منظور کی گئی جس کے بعد وفاقی وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ نے آئینی ترمیم پیش کرنے کی تحریک قومی اسمبلی میں پیش کی اور منظور کرلی گئی۔
وفاقی وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ نے 26 ویں آئینی ترمیم قومی اسمبلی میں پیش کی جہاں پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹوزرداری، اپوزیشن لیڈر اور پی ٹی آئی رہنما عمر ایوب، مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی رہنما اور وزیردفاع خواجہ آصف اور جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے خطاب کیا۔
اس موقع پر مسلم لیگ (ن) کے صدر اور سابق وزیراعظم نواز شریف نے عدلیہ کے کردار کے حوالے سے ایک شعر پڑھا۔
سینیٹ سے 26 ویں آئینی ترمیم کی دو تہائی اکثریت سے منظوری کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس سپیکر سردار ایاز صادق کی زیر صدارت شروع ہوا جہاں معمول کی کارروائی معطل کرنے کی تحریک منظور کی گئی۔
وفاقی وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ نے آئینی ترمیم پیش کرنے کی تحریک قومی اسمبلی میں پیش کی۔
اس حوالے سے وزیر قانون نے بتایا ہے کہ ’ماضی میں کئی ججوں کا ٹینیور چھ سال اور کچھ کا چند ماہ رہا ہے۔ اس لیے ترمیم کی ہے کہ اگر کوئی جج 60 سال کی عمر میں جج بن جاتا ہے تو وہ دیگر آئینی اداروں کے سر براہان کی طرح تین سال بعد یعنی 63 برس کی عمر میں ریٹائر ہو جائے گا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اگر کوئی چیف جسٹس اپنے تقرر کے بعد تین سال کی مقررہ میعاد سے پہلے ہی 65 برس کا ہوجائے گا تو بھی ریٹائر ہو جائے گا۔‘
آرٹیکل 184 میں ترمیم کے تحت سپریم کورٹ کا ازخود نوٹس کا اختیار ختم کردیا گیا ہے اور آرٹیکل 184 کے تحت سپریم کورٹ میں دائر درخواست کے مندرجات یا اختیارات سے ماورا از خود کوئی فیصلہ یا ہدایت نہیں دے گا۔
سینیٹ سے منظور ہونے والے آئین کے آرٹیکل187 میں ترمیم کے تحت سپریم کورٹ کے زیر اختیار اور استعمال کردہ دائرہ اختیار کی پیروی کے علاوہ کوئی حکم منظور نہیں کیا جائے گا۔
آئین میں ایک اور نیا آرٹیکل 191 اے بھی شامل کیا گیا ہے جس کے تحت آئینی بینچز کی تشکیل عمل میں لائی جائے گی۔ سپریم کورٹ میں ایک سے زیادہ آئینی بینچز کی تشکیل کی جا سکے گی اور جوڈیشل کمیشن آئینی بینچز کے ججوں اور ان کی مدت کا تعین کرے گی۔
آئینی بینچز میں تمام صوبوں کے ججوں کی مساوی نمائندگی ہوگی۔ آئینی بینچ کم سے کم پانچ ججوں پر مشتمل ہوگا۔ سپریم جوڈیشل کونسل کے تین سینیئر جج آئینی بینچوں کو تشکیل دیں گے۔ زیرالتوا اور زیر سماعت تمام آئینی مقدمات، نظرثانی اور اپیلیں آئینی بینچوں کو منتقل کیے جائیں گے۔
صوبائی ہائی کورٹس میں آئینی بینچوں کی تشکیل صوبائی اسمبلیوں کی 51 فیصد اکثریت سے منظور کردہ قرار داد کے ذریعے ہوسکے گی۔
آرٹیکل 215 میں ترمیم تحت چیف الیکشن کمشنر اور اراکین اپنی مدت پوری ہونے پر نئے کمشنر اور اراکین کی تعیناتی تک کام جاری رکھنے کے اہل ہوں گے اور اس ترمیم کی بھی کثرت رائے سے منظوری دی گئی۔
’پارلیمنٹ کی بالادستی کے حوالے سے تاریخی دن‘
26ویں آئینی ترمیم کی پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد اُردو نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے کہا کہ ’پارلیمنٹ کی بالادستی کے حوالے سے یہ ایک تاریخی دن ہے۔ اب آئندہ عدالتی عہدوں پر تقرریاں پارلیمنٹ کرے گا، پارلیمنٹ کی کمیٹیاں کریں گی۔ یہ کمیٹیاں جلد معرض وجود میں آجائیں گی۔‘
اُردو نیوز کے نامہ نگار ثوبان افتخار راجہ سے گفتگو کرتے ہوئے عطااللہ تارڑ نے کہا کہ ’آئینی بینچ کی وجہ سے عام آدمی کے مقدمات جلد حل ہو جائیں گے، یہ نہیں ہو گا کی دادے کے زمانے میں کیس لگے اور پوتا اس کا فیصلہ لے۔ انصاف کی فراہمی بغیر کسی رکاوٹ کے ہو گی۔ اس آئینی ترمیم کی وجہ سے عدالتی تقرریوں پر شفافیت آئے گی۔‘
وزیر اطلاعات نےکہا کہ ’تحریک انصاف کے تحّٖظات دور کر لیے گئے تھے جن شقوں پر انہیں تحفظات تھے وہ ترمیم میں شامل نہیں کی گئیں۔ وہ آج خاموش تھے، وہ اپنے لیڈر سے ڈرتے ہیں، جس نے کہا تھا ووٹ نہ کرنا۔ ان کے تحفظات دور کیے گئے تو ان کا دل بھی ترامیم کے ساتھ تھا۔‘
آزاد حیثیت سے کامیاب ہو کر رکن قومی اسمبلی بننے والے اراکین کے ووٹوں کے حوالے سے عطااللہ تارڑ کا کہنا تھا کہ چار آزاد اراکین نے ہمیں ووٹ دیا ہے۔ ان میں سے کوئی بھی رکن کسی بھی دستاویز کے تحت پی ٹی آئی کا رکن ہے نہ ہی کسی نے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی تھی۔ ان کی آزاد حیثیت نہیں ہے تو 63اے کے تحت ان کا ووٹ تو گنا جائے گا، اس کے بعد ان کے خلاف کوئی کارروائی ہو سکتی ہے مگر یہ ممبران آزاد ممبران تھے۔‘