Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حکومت آئینی ترمیم منظور کرانے میں کامیاب، ’آزاد ارکان نے ضمیر کی آواز پر ووٹ دیا‘

ترمیم کے حق میں 225 اراکین نے ووٹ دیا جبکہ مخالفت میں 12 ووٹ پڑے (فوٹو:پی ایم ہاؤس)
سینیٹ میں 26 ویں آئینی ترمیم دوتہائی اکثریت سے منظوری کے بعد حکومت قومی اسمبلی سے بھی 26 ویں آئینی ترمیم دو تہائی اکثریت سے منظور کرانے میں کامیاب ہو گئی ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے آئینی ترمیم پر دستخط کرنے کے لیے ایڈوائس صدر مملکت آصف علی زرداری کو بھجوا دی ہے جو ایوان صدر میں منعقدہ تقریب میں سمری پر دستخط کریں گے۔
صدر مملکت کے دستخطوں کے بعد آئینی ترمیم باضابطہ طور پر آئینِ پاکستان کا حصہ بن جائے گی۔
اس ترمیم کے نتیجے میں اعلٰی عدلیہ میں آئینی بینچوں کی تشکیل، چیف جسٹس آف پاکستان کی تقرری کے طریقۂ کار میں تبدیلی، چیف جسٹس کے عہدے کے لیے نئی معیاد مقرر ہو جائے گی جبکہ جوڈیشل کمیشن بھی نئے سرے سے تشکیل دیا جائے گا۔
آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے حکومت کو 224 اراکین اسمبلی کے ووٹوں کی ضرورت تھی، ترمیم کی شق وار منظوری کے دوران حق میں 225 اراکین نے ووٹ دیا جبکہ بل کی مخالفت میں 12 ووٹ پڑے۔
آئینی ترمیم کی منظوری میں پانچ منحرف اراکین اسمبلی کے ووٹوں کا بھی اہم کردار تھا جن میں سے چار اراکین کا تعلق پی ٹی آئی سے اور ایک کا تعلق ق لیگ سے تھا۔
تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے ارکان قومی اسمبلی میں سے ظہور قریشی، عثمان علی، اورنگزیب کھچی اور مبارک زیب نے ترمیم کے حق میں ووٹ دیا جبکہ تحریک انصاف کی حمایت سے انتخاب جیت کر ق لیگ کا حصہ بننے والے چوہری الیاس نے بھی ترمیم کے لیے ووٹ دیا۔
تحریک انصاف کی جانب سے ان ارکان کے ’ضمیر خریدنے‘ اور ان پر ’دباؤ ڈال کر‘ ووٹ حاصل کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
قائد حزبِ اختلاف عمر ایوب نے قومی اسمبلی میں اپنے خطاب کے دوران ان ارکان کے نام لے کر اور ان کے خلاف ہونے والی کارروائیوں اور انہیں غیر قانونی طور پر لاپتہ کرنے پر آواز اُٹھائی اور کہا کہ انہیں اپوزیشن بینچوں پر واپس بھیجا جائے۔

ترمیم کی منظوری کے بعد وزیراعظم شہباز شریف نے مولانا فضل الرحمان اور دیگر رہنماؤں کو مبارک باد دی (فوٹو:پی ایم ہاؤس)

ترمیم کی منظوری کے بعد وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے خطاب میں ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ’کسی جماعت کے کسی رکن کا ضمیر خرید کر اسے لُوٹا نہیں بنایا گیا بلکہ آزاد ارکان نے اپنے ضمیر کی آواز پر خود سے اس ترمیم کے حق میں ووٹ دیا ہے۔ جن ارکان نے ترمیم کے حق میں ووٹ دیا ہے وہ آزاد ہیں، ان کا کسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘
تحریک انصاف کی جانب سے یہ بھی دعویٰ کیا گیا تھا کہ ان کے دیگر ارکان اسمبلی جن میں زین قریشی، اسلم گھمن، ریاض فتحانہ اور مقداد حسین شامل ہیں، انہیں حکومتی لابی میں لا کر بٹھایا گیا ہے تاکہ وقت ضرورت انہیں ایوان میں پیش کیا جا سکے۔
اس حوالے سے زین قریشی نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں تردید کرتے ہوئے کہا کہ وہ قومی اسمبلی میں موجود نہیں تھے اور ’نہ ہی وہ 26 ویں آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دینے کا سوچ سکتے ہیں۔‘
ترمیم کی منظوری کے بعد وزیراعظم شہباز شریف نے بلاول بھٹو زرداری، مولانا فضل الرحمن خالد مقبول صدیقی، فاروق ستار اور دیگر رہنماؤں کی نشستوں پر جا کر انہیں مبارک باد دی اور تعاون پر شکریہ ادا کیا۔
بلاول بھٹو زرداری نے بھی مولانا فضل الرحمان کی نشست پر جا کر آئینی ترمیم میں حمایت پر ان کا شکریہ ادا کیا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے ایوان میں اپوزیشن رہنماؤں اسد قیصر اور بیرسٹر گوہر ایوب سے بھی ملاقات کی۔
وزیراعظم نے کہا کہ ’میں نے اپوزیشن رہنماؤں سے کہا ہے کہ اگر وہ اس ترمیم کا حصّہ بنتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔‘

اتوار اور پیر کی شب شروع ہو نے والا قومی اسمبلی اجلاس فجر کی اذانوں تک جاری رہا (فوٹو: پی ایم ہاؤس)

قومی اسمبلی کے اجلاس کی کارروائی میں کیا ہوا؟

اتوار اور پیر کی شب شروع ہو نے والا قومی اسمبلی اجلاس فجر کی اذانوں تک جاری رہا۔
قومی اسمبلی میں معمول کی کارروائی معطل کرنے کی تحریک منظور کی گئی جس کے بعد وفاقی وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ نے آئینی ترمیم پیش کرنے کی تحریک قومی اسمبلی میں پیش کی اور منظور کرلی گئی۔
وفاقی وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ نے 26 ویں آئینی ترمیم قومی اسمبلی میں پیش کی جہاں پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹوزرداری، اپوزیشن لیڈر اور پی ٹی آئی رہنما عمر ایوب، مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی رہنما اور وزیردفاع خواجہ آصف اور جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے خطاب کیا۔
اس موقع پر مسلم لیگ (ن) کے صدر اور سابق وزیراعظم نواز شریف نے عدلیہ کے کردار کے حوالے سے ایک شعر پڑھا۔
سینیٹ سے 26 ویں آئینی ترمیم کی دو تہائی اکثریت سے منظوری کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس سپیکر سردار ایاز صادق کی زیر صدارت شروع ہوا جہاں معمول کی کارروائی معطل کرنے کی تحریک منظور کی گئی۔
وفاقی وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ نے آئینی ترمیم پیش کرنے کی تحریک قومی اسمبلی میں پیش کی۔
اس حوالے سے وزیر قانون نے بتایا ہے کہ ’ماضی میں کئی ججوں کا ٹینیور چھ سال اور کچھ کا چند ماہ رہا ہے۔ اس لیے ترمیم کی ہے کہ اگر کوئی جج 60 سال کی عمر میں جج بن جاتا ہے تو وہ دیگر آئینی اداروں کے سر براہان کی طرح تین سال بعد یعنی 63 برس کی عمر میں ریٹائر ہو جائے گا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اگر کوئی چیف جسٹس اپنے تقرر کے بعد تین سال کی مقررہ میعاد سے پہلے ہی 65 برس کا ہوجائے گا تو بھی ریٹائر ہو جائے گا۔‘
آرٹیکل 184 میں ترمیم  کے تحت سپریم کورٹ کا ازخود نوٹس کا اختیار ختم کردیا گیا ہے اور آرٹیکل 184 کے تحت سپریم کورٹ میں دائر درخواست کے مندرجات یا اختیارات سے ماورا از خود کوئی فیصلہ یا ہدایت نہیں دے گا۔

آئینی ترمیم کی منظوری میں پانچ منحرف اراکین اسمبلی کے ووٹوں کا بھی اہم کردار تھا (فوٹو: پی ایم ہاؤس)

سینیٹ سے منظور ہونے والے آئین کے آرٹیکل187 میں ترمیم کے تحت سپریم کورٹ کے زیر اختیار اور استعمال کردہ دائرہ اختیار کی پیروی کے علاوہ کوئی حکم منظور نہیں کیا جائے گا۔
آئین میں ایک اور نیا آرٹیکل 191 اے بھی شامل کیا گیا ہے جس کے تحت آئینی بینچز کی تشکیل عمل میں لائی جائے گی۔ سپریم کورٹ میں ایک سے زیادہ آئینی بینچز کی تشکیل کی جا سکے گی اور جوڈیشل کمیشن آئینی بینچز کے ججوں اور ان کی مدت کا تعین کرے گی۔
آئینی بینچز میں تمام صوبوں کے ججوں کی مساوی نمائندگی ہوگی۔ آئینی بینچ کم سے کم پانچ ججوں پر مشتمل ہوگا۔ سپریم جوڈیشل کونسل کے تین سینیئر جج آئینی بینچوں کو تشکیل دیں گے۔ زیرالتوا اور زیر سماعت تمام آئینی مقدمات، نظرثانی اور اپیلیں آئینی بینچوں کو منتقل کیے جائیں گے۔
صوبائی ہائی کورٹس میں آئینی بینچوں کی تشکیل صوبائی اسمبلیوں کی 51 فیصد اکثریت سے منظور کردہ قرار داد کے ذریعے ہوسکے گی۔
آرٹیکل 215 میں ترمیم تحت چیف الیکشن کمشنر اور اراکین اپنی مدت پوری ہونے پر نئے کمشنر اور اراکین کی تعیناتی تک کام جاری رکھنے کے اہل ہوں گے اور اس ترمیم کی بھی کثرت رائے سے منظوری دی گئی۔

شیئر: