Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ترمیمی بل کی منظوری:سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میں آئینی بینچ کیسے کام کرے گا؟

 ماہرین قانون کے مطابق سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے اندر ہی ایک مستقل آئینی بینچ کی تشکیل ہو گی (فوٹو: اے ایف پی)
وفاقی حکومت نے عدلیہ میں متعارف کروائی جانے والی اصلاحات کو پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے منظور کروا لیا ہے۔ پارلیمان سے منظورہ شدہ بل کی صدر مملکت آصف علی زرداری نے بھی توثیق کر دی ہے جس کے بعد یہ ترامیم آئینِ پاکستان کا حصہ بن گئی ہیں۔
26 ویں آئینی ترامیم کے بل کی منظوری کے بعد یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میں آئینی بینچ کیسے کام کریں گے۔
کیا سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے اندر الگ سے عدالتیں قائم ہوں گی؟
نیز آئینی بینچز اور عام عدالتوں کو کون کون سے اختیارات دیے گئے ہیں اور کیا اب عدالتوں میں عام شہریوں کے مقدمے بھی سُنے جا سکیں گے؟
 ماہرین قانون کے مطابق سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے اندر ہی ایک مستقل آئینی بینچ کی تشکیل ہو گی جو اِنہی عدالتوں کے اندر صرف آئینی کیسز سُننے کا پابند ہو گا۔
ماہرین کے خیال میں عدالتوں پر آئینی کیسز کا بوجھ کم ہونے سے اُنہیں عام شہریوں کے مقدمے سُننے کا موقع ملے گا تاہم، یہ حکومت پر منحصر ہے کہ وہ آئینی بینچز کی تشکیل کیسے کرتی ہے اور پھر اُنہیں کون سے مقدمے سُننے کا پابند بناتی ہے۔

آئینی بینچ کیسے کام کرے گا؟

26 ویں آئینی ترامیم کے مطابق سپریم کوٹ سمیت پانچوں ہائی کورٹس میں آئینی بینچ تشکیل دیا جائے گا۔
آئینی بینچ کے لیے ججز کی تقرری جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کرے گی۔ بینچ میں تمام صوبوں سے برابر ججز تعینات کیے جائیں گے۔

وفاقی حکومت نے عدلیہ میں متعارف کروائی جانے والی اصلاحات کو پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے منظور کروا لیا ہے (فوٹو: پی ایم ہاؤس)

آئینی مقدمات آئینی بینچ کو منتقل ہونے کے بعد عدلیہ کو استدعا سے زیادہ کسی آئینی معاملے پر حکم یا تشریح کا اختیار نہیں ہوگا۔
اب تک سامنے آنے والی تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ یا ہائی کورٹس کے ساتھ ساتھ نئی عدالتوں کا قیام عمل میں نہیں لایا جائے گا بلکہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے اندر ہی ایک مستقل آئینی بینچ کی تشکیل ہو گی جو اِنہی عدالتوں کے اندر صرف آئینی کیسز سننے کا پابند ہو گا۔
اب آئینی امور سے متعلق وفاقی اور صوبائی سطح پر آنے والے کیسز صرف آئینی بینچ سُنیں گے جبکہ معمول کے تمام کیسز سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس سنا کریں گی۔
اسں وقت سپریم کورٹ سمیت مختلف ہائی کورٹس میں آئینی امور سے جڑے کئی کیسز زیرِ سماعت ہیں۔
ماہرین قانون کے مطابق ان ترامیم کے بعد ایسے تمام کیسز آئینی بینچز کو منتقل کر دیے جائیں گے۔
آئینی ترامیم کے بل کے مطابق آئینی بینچ کم سے کم 5 ججز پر مشتمل ہوگا۔ آئینی بینچز کے ججز کا تقرر تین سینیئر ترین ججز کی کمیٹی کرے گی۔
چیف جسٹس کا تقرر خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی سفارش پر کیا جائے گا جبکہ جوڈیشل کمیشن آئینی بینچز اور ججز کی تعداد کا تقرر کرے گا۔

از خود نوٹس کا اختیار آئینی بینچ کو دے دیا گیا

آئینی ترامیم کے ذریعے سپریم کورٹ کے پاس ازخود نوٹس کا اختیار ختم کر دیا گیا ہے۔ نئی آئینی ترامیم میں آرٹیکل 184 کے تحت از خود نوٹس کا اختیار صرف آئینی بینچز کو دیا گیا ہے۔

عدلیہ کو استدعا سے زیادہ کسی آئینی معاملے پر حکم یا تشریح کا اختیار نہیں ہوگا (فوٹو: اے ایف پی)

آرٹیکل 185 کے تحت آئین کی تشریح سے متعلق کیسز آئینی بینچز کے دائرہ اختیار میں آئیں گے۔

چیف جسٹس کا تقرر کیسے ہو گا؟

آئینی ترامیم بل کے متن کے مطابق چیف جسٹس کی تقرری کے لیے 12 رکنی خصوصی پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے گی جس میں تمام پارلیمانی پارٹیوں کی متناسب نمائندگی ہوگی۔
پارلیمانی کمیٹی میں 8 ارکان قومی اسمبلی چار ارکان سینٹ ہوں گے۔
نئے قوانین میں بتایا گیا ہے کہ پارلیمانی کمیٹی 2 تہائی اکثریت سے سپریم کورٹ کے تین سینیئر ترین ججز میں سے چیف جسٹس کا انتخاب کرے گی۔
کسی جج کے انکار کی صورت میں اگلے سینیئر ترین جج کا نام زیر غور لایا جائے گا۔ کمیٹی کی سفارش پر چیف جسٹس کا نام وزیراعظم صدر مملکت کو بھجوائیں گے۔
بل میں چیف جسٹس آف پاکستان کی مدت تین سال مقرر کی گئی ہے جبکہ چیف جسٹس کے لیے عمر کی بالائی حد 65 سال مقرر کر دی گئی ہے۔
معروف آئینی ماہر اور سپریم کورٹ کے وکیل حافظ احسان احمد کھوکھر نے اُردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’آئینی ترامیم بل کی منظوری سے سپریم کورٹ اور عدالتوں پر مقدمات کے بوجھ میں کمی آئی گی اور عام شہریوں کے کیسز بڑی عدالتوں میں سُنے جا سکیں گے۔‘

آئینی امور سے متعلق وفاقی اور صوبائی سطح پر آنے والے کیسز صرف آئینی بینچ سُنیں گے (فوٹو: اے پی پی)

اُنہوں نے آئینی بیچز کی تشکیل کے حوالے سے بتایا کہ ’سپریم کورٹ میں قائم ہونے والا آئینی بنچ سپریم کورٹ کے برعکس صرف اپنے متعلقہ کیسز یعنی آئین کی تشریح، کسی آئینی شق پر عمل درآمد نہ ہونے اور حکومت کی جانب سے دائر کی جانے والے درخواستیں وغیرہ سُننے کا پابند ہو گا۔‘
 حافظ احسان احمد کے مطابق شہریوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے اب ضروری ہے کہ فوجداری، سول اور گورننس کے شعبوں میں نئے قوانین کے ذریعے قانون سازی کی اصلاحات وقت کی پابندی کے ساتھ شروع کی جائیں۔
ماہر قانون ریاست علی آزاد کے خیال میں 26ویں آئنی ترامیم کا بل آئین پاکستان کے متصادم ہے جو کہ عدالتوں میں چیلنج ہو سکتا ہے۔
اُنہوں نے اُردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’آئینی ترامیم کے بل میں عوام کے لیے کچھ نہیں رکھا گیا۔ حکومت صرف اپنے سیاسی کیسز من پسند ججز کے سُپرد کرنے کے لیے آئینی بینچ قائم کر رہی ہے۔‘
سپریم کورٹ سے ازخود نوٹس لینے کا اختیار واپس لینے کی آئینی ترمیم پر تبصرہ کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ 26’ آئینی ترامیم کے بل میں اس شق کو شامل کرنے کے بعد عدالتوں کے پاس موجود اختیارات میں ابہام پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔‘
ماہر قانون ریاست علی آزاد سمجھتے ہیں کہ آرٹیکل 184/3 کے تحت صرف سپریم کورٹ کو از خود نوٹس لینے کا اختیار حاصل تھا، اب یہ اختیار آئینی بینچ کو دے کر نہ صرف آئین کے متصادم اقدام کیا گیا ہے بلکہ عدالت عظمیٰ کو اپاہج بھی کر دیا گیا ہے۔

شیئر: